ہر روز سیاسی واقعات کے ہجوم میں کچھ غیر روایتی واقعات بھی ہوئے ہیں اگرچہ نوعیت ان کی بھی سیاسی ہے لیکن وہ عوامی توجہ نہ پا سکے۔ پچھلے ہفتے لاہور میں دس بارہ ایسی تنظیموں اور انجمنوں نے اپنا اجلاس کیا جو خود کو بائیں بازو کا کہتی ہیں۔ اجلاس میں ان تنظیموں نے باہم متحد ہو کر عوامی لیفٹ فرنٹ قائم کیا۔ یہ ایک دلچسپ وقوعہ تھا، اس لیے کہ عشرے ہو گئے’’لیفٹ‘‘ لفظ سننے میں نہیں آیا۔ چند ماہ پہلے پیپلز پارٹی کے بعض رہنمائوں نے بائیں بازو کے اوجھل ہونے اور دائیں بازو کے عروج پکڑنے پر تشویش ظاہر کی تھی اور یوں ایک طویل عرصے کے بعد بائیں بازو کی سیاست کا لفظ موثر بہ ماضی کے معنوں میں سنا گیا، لیکن مذکورہ اجلاس سے پتہ چلا کہ بایاں بازو موجود ہے اور اس نے اپنی موجودگی ظاہر بھی کر دی ہے۔ اجلاس میں 150کے قریب دانشوروں نے شرکت اور ان میں جو نمایاں ہیں‘ وہ اپنی عمر کی چھٹی دہائی گزار چکے ہیں یا گزارنے کے قریب ہیں۔ یہ ماضی کے بالکل برعکس بات ہے۔ ماضی میں بائیں بازو کے حرکت کار بالعموم جوان یا نوجوان ہوا کرتے تھے۔ بایاں بازو کیا ہے، اس کے نظریات اچھے ہیں یا برے‘ اس سے بحث نہیں، لیکن اس اجلاس سے کئی عشرے پہلے کا زمانہ یاد آگیا اور ساتھ ہی وہ کشمکش بھی، جس نے غیر ضروری طور پر ایک بڑی جنگ کی شکل اختیار کر لی اور ملک کی سیاسی شکل کو اس کا نقصان ہوا۔ ٭٭٭٭٭ 1969-68ء کی بات ہے جب اچانک دانشوروں اور تعلیم گاہوں میں سوشلزم اور کمیونزم کے حامی کارکن نمایاں ہوئے۔ زیادہ تر نوجوان تھے اور پڑھے لکھے تھے۔ پوری دنیا میں یہ لوگ موجود تھے اور کئی ملکوں میں سوشلزم یا کمیونزم پیش قدمی کر رہا تھا۔ سوویت یونین تو بہت پہلے قائم ہو چکا تھا‘ اب افریقہ ایشیا اور جنوبی افریقہ کے کئی ملکوں میں کمیونسٹ تحریکیں چل رہی تھیں اور کہیں کہیں تو ان کا بہت زور تھا۔ مشرق وسطیٰ کے بعض ممالک میں فوجی بغاوت کے ذریعے کمیونسٹ حکومتیں قائم ہو چکی تھیں جن پر پاکستان کے اسلامی حلقے مضطرب تھے، لیکن جیسا کہ بعد میں پتہ چلا کہ یہ محض فوجی آمریتیں تھیں، کمیونزم یا سوشلزم کا محض نام استعمال کر رہی تھیں۔ امر واقعی میں انہیں سوشلزم سے کوئی سروکار نہیں تھا۔ مثلاً عراق اور شام میں بعث پارٹی کی حمایت رکھنے والے فوجی حکمران یا لیبیا میں کرنل قذافی۔ پاکستان میں عوامی سطح پر کسی کو سوشلزم یا کمیونزم سے کوئی واقفیت تھی نہ علاقہ، لیکن جماعت اسلامی نے اس خطرے کو بہت بڑا (Larger-than-Life سمجھ کر اس کے خلاف صف آرائی کی تو سوشلزم کی مشہوری ہو گئی۔ اتنی زیادہ کہ بعض لوگوں کو لگنے لگا کہ پاکستان میں کمیونسٹ انقلاب آنے ہی کو ہے۔ در حقیقت سوشلسٹ دانشور بہت ہی محدود اقلیت تھے اور زیادہ تر اعلیٰ تعلیمی اداروں ہی میں موجود تھے۔ ان کا نعرہ تھا ایشیا سرخ ہے کیونکہ ان کے خیال میں ایشیا کے کئی ممالک کمیونسٹ ہو چکے تھے‘ کچھ ہونے والے تھے، مثلاً شمالی ویت نام ‘ شمالی کوریا‘ بعض عرب ممالک۔ انڈونیشیا میں ایک بہت بڑا انقلاب کچلا جا چکا تھا جس میں لاکھوں افراد مارے گئے۔ اسے کمیونسٹ انقلاب کا نام دیا گیا۔ درحقیقت یہ چینی نژاد اقلیت کی ریاست مخالف جنگ تھی۔ یہ زمانہ بھٹو صاحب کے سیاسی عروج کا تھا، ان کے ساتھ ہر طبقہ زندگی کے لوگ تھے۔ سرمایہ دار تو کم لیکن جاگیردار بہت زیادہ، مزدور کسان اور غریب طبقات کی اکثریت بھی ان کے ساتھ تھی۔ مذہبی اور لا مذہبی ہر دو طبقات میں ان کا اثر تھا۔ ترقی پسند یعنی سوشلسٹ دانشور کچھ تو شروع دن سے ان کے ساتھ تھے، کچھ بعدمیں حامی ہو گئے اور کچھ تو مرکزی عہدوں پر بھی پہنچے۔ جماعت اسلامی نے غلط اندازے سے بھٹو صاحب کی پیپلز پارٹی کو کمیونسٹ سمجھ لیا حالانکہ کمیونسٹوں کی اکثریت پیپلز پارٹی میں نہیں‘ نیشنل عوامی پارٹی بھاشانی گروپ میں تھی۔ جماعت اسلامی صورت حال کا گہرا تجزیہ کرتی تو وہ سمجھ جاتی کہ بھٹو صاحب ایک قوم پرست سیاستدان ہیں جن کا سوشلزم اور کمیونزم سے کوئی واسطہ ہے نہ ہو سکتا ہے۔ بھٹو امریکی استعمار کے مخالف تھے اور حکمران بن کر عالمی سطح پر امریکی اثرات سے آزاد بلاک تشکیل دینا چاہتے تھے، جو انہوں نے دیا بھی اور اس کی پاداش میں پھانسی کی سزا بھی پائی۔ وہ امریکی استعمار کے مخالف تھے اور ضروری نہیں کہ ایسا آدمی کمیونسٹ ہو۔ بھٹو کی طرح شاہ فیصل جیسا مذہبی بلکہ تہجد گزار حکمران بھی امریکہ کا مخالف تھا۔ جماعت اسلامی لیکن اپنے غلط اندازے پر پختہ سے پختہ تر ہوتی گئی۔ اس نے محدود بائیں بازو کو عظیم خطرہ سمجھ کر جنگ کے سارے مورچوں کا رخ اس کی طرف کر دیا اور اس جنگ میں مجید نظامی مرحوم کے ندائے ملت‘ شورش کاشمیری کے چٹان اور پریس ٹرسٹ کے مشرق نے اس کا پورا ساتھ دیا۔ جماعت کے سکالر رہنما پروفیسر خورشید احمد نے اپنے جریدے ’’چراغ راہ‘‘ کا سوشلزم نمبر نکالا جو علمی وقعت کے اعتبار سے معرکتہ الآرا تھا۔ ایک اور سکالر رہنما نعیم صدیقی نے دارالفکر کے نام سے ادارہ قائم کیا جس نے چند ہفتوں کی قلیل مدت میں کمیونزم اور سوشلزم کے خلاف بے پناہ معلوماتی اور دلچسپ لٹریچر کے انبار لگا دئیے۔ علمی سطح پر ٹھیک بات تھی لیکن سیاسی میدان جنگ میں جماعت اسلامی نے سارا توپ خانہ سوشلزم کی طرف موڑ دیا تو اس کا نتیجہ منفی نکلا۔ جماعت کے ساتھ اس دور کی اکثر مذہبی جماعتیں بھی تھیں۔ ان سب نے سوشلسٹوں اور پیپلز پارٹی والوں کے خلاف کفر کے فتوے دیے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ عام عوام میں جماعت بلکہ اہل مذہب کے خلاف ردعمل پیدا ہو اور پیپلز پارٹی کی گراس روٹ مقبولیت مزید مستحکم ہو گئی۔ ان دنوں تعلیمی اداروں میں اسلامی جمعیت طلبہ کا زور ہوا کرتا تھا لیکن بڑے شہروں میں سرخے بھی کم نہیں تھے۔ تعلیمی اداروں میں ایک طرف یہ نعرہ گونجتا ’’سرخ ہے سرخ ہے‘ ایشیا سرخ ہے۔‘‘ دوسری طرف سے جواب آتا۔ ’’سبز ہے سبز ہے ایشیا سبز ہے۔‘‘ کچھ لوگ سرخ سبز کی اس جنگ سے تنگ تھے۔ انہوں نے جوابی نعرہ بنایا: سرخ ہے نہ سبز ہے ایشیا کو قبض ہے ٭٭٭٭٭ انتخابی معرکہ تمام ہوا۔ بھٹو صاحب نے معاشی اصلاحات نافذ کیں۔ صنعتی ادارے قومی ملکیت میں لے لئے جس سے یہ تاثر مضبوط ہوا کہ بھٹو صاحب سوشلسٹ ہیں لیکن یہ محض ’’نہرو‘‘ ماڈل تھا۔ بعد کے اقدامات سے پتہ چلا کہ بھٹو صاحب محض امریکہ کے مخالف ہیں۔ باقی ہر معاملے میں ویسے ہی سیاستدان ہیں جیسے کہ دوسرے۔ انہوں نے اسلامی دستور منظور کرایا۔ قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا۔ بایاں بازو الیکشن کے فوراً بعد ہی ان سے دور ہونے لگاتھا، بعد میں مزید دور ہو گیا لیکن ان کی پھانسی کے بعد بائیں بازو والوں کی ان سے وابستگی پھر سے بحال ہو گئی۔ سوویت یونین کے خاتمے کے بعد پاکستان کے بائیں بازو والے‘ ’’بوندل’’ گئے، جیسے یک لخت روشن کمرے میں اندھیرا چھا جائے اور بھگدڑ مچ جائے۔ اس ’’بوندلاہٹ‘‘ میں اکثر بائیں بازو والوں نے امریکہ کو قبلہ دوئم بنا لیا جو ان کی فاش غلطی تھی۔ طویل عرصے کے بعد بائیں بازو نے راست راہی اختیار کی ہے۔ اس کا کریڈٹ خاصی حد تک امتیاز عالم کو جاتا ہے۔ عالمی سطح پر کئی ملکوں میں بائیں بازو کا پھر سے احیا ہو رہا ہے۔ جو سیاسی نتیجے کے اعتبار سے اچھی بات ہے۔ پاکستان کے وہ مذہبی عناصر جو ’’فتنہ دجال‘‘ کو سمجھتے ہیں، انہیں بائیں بازو والوں سے دوری کے بجائے ان کے قریب آنا چاہیے کہ اصل اسلام وہ ہے جو استحصال اور استعمار دونوں کے خلاف ہے۔