پاکستان کے وزیراعظم اور ان کی اہلیہ محترمہ کورونا کا شکار ہوئے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ اپنے خاص فضل و کرم سے انہیں صحت کاملہ عاجلہ عطا فرمائے۔ پاکستان گوناگوں مسائل کا شکار ہے اور ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت پاکستان اپنی پوری توانائی کے ساتھ ان مسائل سے نبرد آرما ہو۔ پاکستان میں کورونا ویکسین جس طرح بزرگ شہریوں کو مہیا کی جا رہی ہے وہ قابل ستائش ہے۔ پاکستان میں یہ نظم و نسق بہت سے ترقی یافتہ ممالک کے لیے بھی قابل رشک ہے۔ اس کے لیے پاکستان کی حکومت اور خاص طور پر صحت سے متعلقہ ادارے تحسین کے حقدار ہیں۔ البتہ کورونا ویکسین کی پاکستان میں پرائیویٹ سیکٹر کی جانب سے کمرشل بنیادوں پر فراہمی محل نظر ہے۔ ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل نے نکتہ اٹھایا ہے کہ پاکستان میں اس کی قیمت 160 فیصد زائد مقرر کی جا رہی ہے۔ پڑوسی ملک میں روسی ویکسین Sputnic-v کی قیمت 764 روپے مقرر کی گئی ہے۔ دنیا بھر میں اس کی اوسط قیمت تقریباً دس ڈالر ہے۔ اس لحاظ سے پاکستان میں اس کی قمت تقریباً 1600 روپے ہونی چاہیے۔ بہرحال جائز منافع بھی کمپنی کا حق ہے لیکن اس کی قیمت آٹھ ہزار سے زائد وصول کرنے کی تیاری ہے۔ حکومتی ادارے اس بارے میں خاموش ہیں۔ صرف فواد چوہدری کا بیان نظر سے گزرا ہے کہ انہیں سمجھ نہیں آ رہی کہ اس میں لوگوں کو اعتراض کیا ہے۔ اگر کچھ لوگ لائن میں نہیں لگنا چاہ رہے اور قیمتاً ویکسین لگوانا چاہتے ہیں تو اس میں حرج ہی کیا ہے۔ انہوں نے بالکل درست فرمایا ہے لیکن کیا حکومت کا فرض نہیں کہ وہ ناجائز منافع خوری کا خاتمہ کرے اور ایک مناسب قیمت پر لوگوں کو یہ سہولت مہیا کرے۔ یہ بھی شنید ہے کہ ویکسین درآمد کرنے والی حکومت کو دھمکی دے رہی ہے کہ اگر اسے اپنی منہ مانگی قیمت وصول کرنے سے روکا گیا تو وہ یہ ویکسین واپس روس بھجوا دے گی۔ کیا کوئی برائے نام حکومت بھی اس بلیک میلنگ کو قبول کرے گی۔ خاص طور پر وہ حکومت جو عام لوگوں کو سماجی انصاف دلوانے کے نام پر معرض وجود میں آئی ہے اور جو طاقتور لوگوں کو قانون کے تابع کرنے کی دعویدار ہے۔ حکومت کا فرض ہے کہ وہ ہر حالت میں یقینی بنائے کہ یہ ویکسین ایک جائز قیمت پر خواہش مند لوگوں کو میہا کی جائے۔ وزیراعظم کو دیکھنا پڑے گا کہ کوئی طاقتور وزیر یا مشیر تو اس بلیک میلنگ کا حصہ نہیں ہے ورنہ ایک دوا ساز ادارے کی کیسے جرأت ہو سکتی ہے کہ وہ حکومت کو بلیک میل کرے۔ اگر حکومت کو کمرشل بنیادوں پر یہ ویکسین لگانے کا نظام بھی ایک متوازی نظام کے طور پر اپنے ہاتھ میں لینا پڑے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ انفرانسٹرکچر پہلے سے موجود ہے اور بڑی آسانی سے لوگوں کو قیمت خرید پر حکومت ویکسین مہیا کرسکتی ہے۔ ایک اور بڑا مسئلہ جو آج کل ہماری معیشت کو درپیش ہے وہ سٹیٹ بینک کی آزادی سے متعلق ہے۔ پاکستان کے تقریباً تمام معاشی ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ جس طرح کی آزادی سٹیٹ بینک آف پاکستاان کے لیے تجویز کی جا رہی ہے وہ دنیا کے کسی ملک میں آج تک نہیں دی گئی جس عجلت سے یہ بل کیبنٹ نے پاس کیا ہے وہ اسے اور بھی مشکوک بناتی ہے۔ اگر یہ قانون پارلیمنٹ سے بھی پاس ہو جاتا ہے تو سٹیٹ بینک پاکستان کا سب سے طاقتور ادارہ بن جائے گا۔ نہ پارلیمنٹ اس سے سوال کر سکے گی اور نہ وزیراعظم۔ اس بل میں نیب اور ایف آئی اے کا نام لے کر بتایا گیا ہے کہ یہ ادارے سٹیٹ بینک کے کسی اہلکار سے سوال جواب نہیں کر سکیں گے۔ سٹیٹ بینک کسی بھی سیکرٹ یا کانفیڈنشل اخراجات کا حساب کتاب آئی ایم ایف‘ ورلڈ بینک اور دیگر اداروں کو دینے کا مجاز ہوگا۔ پاکستان کی کرنسی کی جو قیمت وہ چاہے گا وہ مقرر کرے گا۔ سیکرٹری فنانس بورڈ کا حصہ نہیں ہوگا اور گورنر سٹیٹ بینک بورڈ کا سربراہ ہو گا جبکہ کمرشل بینکوں کے سربراہوں کے لیے اپنے بورڈ کا صدر ہونا ممنوع ہے۔ معاشی ماہرین محو حیرت ہیں کہ یہ کیسا قانون بننے جارہا ے کہ ہم خود اپنے ہاتھ کاٹ کر آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے حوالے کردیں گے۔ سب سے بڑی حیرت یہ ہے کہ کسی حکومتی ادارے یا ماہر معیشت نے اس موضوع پر بات کرنی مناسب نہیں سمجھی۔ وزیر خزانہ ابھی تک اپنی شکست کے زخم چاٹ رہے ہیں اور منتخب وزیراعظم ایک شکست خوردہ وزیر خزانہ کو اپنی ٹیم میں رکھنے پر مصر ہیں۔ کیا یہی ہماری جمہوری قدریں ہیں۔ کیا پاکستان آئین سے بالاتر کسی معاشی وائسرائے کا متحمل ہو سکتا ہے۔ جمہوری اپوزیشن کا بھی فرض ہے کہ وہ اس کا سنجیدگی سے نوٹس لے اور اس آئین مخالف اقدام کے خلاف آواز اٹھائے۔ وزیراعظم کو چاہیے کہ پہلی فرصت میں اس بال کے مخالف ماہرین معیشت سے بریفنگ لیں اور اپنا موقف کے سامنے پیش کریں جس طرح اس بل کے بارے میں حکومتی ترجمانوں پر موت کی خاموشی طاری ہے‘ اس میں کوئی نہ کوئی راز پنہاں ہے۔ لگتا ہے کہ کوئی قیامت کی چال چل گیا ہے اور ہماری حکومت حیران و پریشان کھڑی ہے۔ اگر یہ کالا قانون پی ٹی آئی کے حکومت کے ہاتھوں پارلیمنٹ سے پاس ہو گیا تو عمران خان کو تاریخ میں اپنا مقام دیکھنے میں زیادہ مشکل نہیں ہونی چاہیے۔ قوم نے ایک بھاری ذمہ داری عمران خان کے کاندھوں پر ڈالی ہے۔ انہیں جرأت کر کے یا تو قوم کو اپنے نکتہ نظر پر قائل کرنا چاہیے اور دوسری صورت اس قانون کو پائے حقارت سے ٹھکرا دینا چاہیے۔ عمران خان چھوٹی چھوٹی باتوں پر قوم سے خطاب کرتے ہیں کیا یہ مناسب نہیں وہ قوم سے خطاب فرمائیں اور اپنی مجبوری قوم کے سامنے رکھیں۔ حتمی فیصلہ ماہرین سے رائے کے بعد کیا جائے۔ یہ نہ ہو کہ ہم نادانستگی میں کسی بڑی بین الاقوامی سازش کا شکار ہو جائیں۔ پوری قوم کو جاگنے کی ضرورت ہے۔ حکمران آتے جاتے رہتے ہیں‘ قومیں زندہ رہتی ہیں۔