مکرمی !ہمارے اس مردوں کے معاشرے میں عورت کے حقوق کو دبا کے مرد اپنی مونچھ کو تائو دیتا ہے اور اسی کو اپنی مردانگی سمجھتا ہے!اقوام متحدہ کے زیراہتمام پاکستان سمیت دنیا بھر میں خواتین پر تشدد کے خاتمہ کا عالمی دن 25 نومبر کو منایا جاتاہے اس دن کو منانے کا مقصد خواتین پر گھریلو تشدد، جسمانی تشدد، جنسی طور پر ہراساں کرنے، دفاتر، نیم سرکاری، صنعتی، کاروباری، تجارتی و دیگر اداروں میں کام کے دوران صعوبتوں سے نجات اور خواتین کے مسائل کے متعلق آگاہی اور شعور بیدار کرنا ہے۔عورتوں پر تشدد ہمارے معاشرے کا انتہاء درد ناک المیہ ہے اس سے درد ناک بات یہ ہے کہ اس تشدد کا آغاز گھر کے ہی منفی رویوں سے ہوتا ہے بہت سے لوگ سمجھتے ہیں کہ تشدد کا مطلب جسم کو زخمی کرنا ہے،تشدد صرف جسمانی نہیں بلکہ ذہنی بھی ہوتا ہے 'پنجاب کمیشن آن دی اسٹیٹس آف ویمن' کی مرتب کردہ رپورٹ کے مطابق 2016ء میں صوبے میں خواتین کے خلاف تشدد کے 7313 واقعات رپورٹ ہوئے جب کہ 2015ء میں یہ تعداد 6505 اور 2014ء میں 5967 تھی۔لیکن رپورٹ میں اس بات کا ذکر بھی کیا گیا ہے کہ اصل واقعات کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے اس تعداد کو سامنے رکھتے ہوئے رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مجموعی طور پر تشدد میں 12.4 فی صد جب کہ جنسی تشدد کے واقعات میں 17 فی صد اضافہ ہواحالیہ برسوں میں حقوقِ نسواں کے تحفظ سے متعلق ملک میں موثر قانون سازی ہوئی ہے جب کہ پنجاب میں اس ضمن میں بنائے جانے والے قوانین کو بین الاقوامی سطح پر بھی سراہا گیا لیکن اس کے باوجود خواتین کو تشدد کا نشانہ بنانے کے واقعات آئے روز رونما ہوتے رہتے ہیں۔ (آیت علی جہلم)