اسلام پر لوگوں کو غصہ بہت ہے ۔ پرائیوں کو بھی کم نہیں، نام نہاد اپنوں کو مگرکہیں زیادہ۔دراصل اسلام انسانی خواہش و خون میں تیرتی شیطانی دست درازیوں کا ہاتھ پکڑتاہے،انسانی جبلت مگر وہ بچہ ہے، ہاتھ کٹنے کے انجام کو پسِ پشت ڈال کے، نفسانی خواہشات کے چاقو پر جوہاتھ ڈال دینا چاہتاہے۔روک کسے پسند ہے؟ اور اپنی خواہش کو برا کون کہے؟ چنانچہ اس کے لیے ’’غریب‘‘ اسلام حاضر ہے۔ ویسے بھی طریقہ یہ ہے کہ اقتدار اور اختیار عیب چھپا لیتاہے اور مخالفانہ زبان سے سکت بھی ۔ اسلام کا معاملہ یہ ہے کہ گو دلیل میں یہ کارگر ہے، ان دنوں مگر ا سکے ماننے والے متاثر کن ظاہری حیثیت نہیں رکھتے اور نہ علمِ دنیامیں اپنا بھرپور حصہ ۔سوایسے میں بعض اپنے بھی اسلامی معاملات کی وضاحت یا دفاع کے بجائے وارکرنے والوں میں ہوجانے ہی میں عافیت اور آسانی محسوس کرتے ہیں ۔ کمزور زمانوں کے کمزور دماغوں کے لیے اپنی تہذیب اور روایات پر طنز کرنا ویسے بھی فیشن بن جایا کرتا ہے ۔کم ظرفوں ، کم ہمتوں اور کچے ذہنوں کے ہاں کا مقبول اور مرغوب فیشن۔ اسلام پر جن راہوں سے یلغار کی جاتی ہے ، عورت ان میں سے ایک ہے ۔ویسے عورت کے متعلق اسلامی تعلیمات کو سمجھنے اوراعتراض کرنے میں اپنوں اور پرایوں دونوں کی طرف سے بڑا ظلم کیا گیا۔ سیاق سے ہٹ کر ، احمقانہ حد تک سطحیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے،عورت کے متعلق اسلامی ہدایات کی من مانی تشریحات بھی کی گئیں۔ اغیار کا ایجنڈہ تو خیر بدنامی ہے ۔ اہلِ فقہ میں سے بھی بعض نے عورت کو ا س کا شرعی حق نہ دیا۔چنانچہ بدنامی اسلام کی ہوئی ۔ اسلام کا نہیں ، یہاں انسانی فقہ کا قصور تھا۔اسلام توہر عہد کے لیے تھا ،ہر عہد کے لیے ہے ، پھر کیسے اس کے اطلاقات میں لچک اور گنجائش نہ ہوتی ؟ چنانچہ ہر آئندہ عہد کے لیے اسلام نے اپنے محل کے اندر اجتہاد کی ہوا دار کھڑکی روزِ اول ہی سے کھول رکھی ہے۔ لیکن جتنا ہونا چاہئے تھا، اس سے استفادہ نہ ہو سکا،مثلاً عورت اگر سرکار کے مدینہ میں بہترین شتر سوارہوا کرتی تھی تو جدید اور سہل گاڑی ا س پر ممنوع کیوں کر دی گئی؟مصیبت یہ ہے کہ جوچیز آپ نہیں مانتے ، زمانہ آپ سے بالآخر منوا لیتا ہے ۔ لیکن آپ کے غیر دانشمندانہ انکار سے دنیا کو اسلام پر الزام کا مواد اور موقع زیادہ مل جاتا ہے۔یہ باب بھی بہت وسیع اور دردناک ہے۔ غور کیا جائے تو مسلمان عورت پر پابندی اور سختی کی بعض چیزوں کا تعلق اسلام کے بجائے مرد کی حاکمانہ جبلت سے بھی ہے ۔ پھر یہ بھی ہوا کہ روا روی میں کچھ ایسی چیزیں بھی اسلام کے کھاتے میں درج کر دی گئیں ، جن کا تعلق اسلام سے نہیں مسلمان ہو جانے والوں کی سابقہ تہذیبی اور تمدنی عادات یا نظریات سے تھا۔ زندگی کے مختلف معاملات میں عورت کی بعض کوتاہیوں پر لگائے گئے جوابی فتوؤں نے بھی معترضین کے اعتراضات کو تقویت پہنچائی۔ حالانکہ بطور انسان جتنی غلطی مرد سے ممکن ہے، اتنی ہی عورت سے بھی ۔ عورت کو مگر قصور وار زیادہ سمجھا گیا، مثلاً دین پر زیادہ خلوص سے عمل کرنے کی خواہش رکھنے والوں کے ہاں اتنا گنہگار داڑھی نہ رکھنے والے کو نہیںسمجھا جاتا، جتنا ایک نقاب نہ کرنے والی عورت کو۔ حالانکہ چہرے کے پردے کے متعلق فقہ میں بھی دو رائے پائی جاتی ہیں۔عورت کے ضرورتاً گھرسے باہر نکلنے کو بھی زیادہ تر شک کی نگاہ سے دیکھا گیا۔ حالانکہ عورت کو قید کردینا قطعاً اسلام کا منشا نہیں رہا ۔یہاں تک کہ عہدِ رسالت جیسے مثالی دور میں خواتین مسجدوں میں بھی حاضر ہوتیں،سفر اور تجارت بھی کیا کرتیں،سماجی زندگی میںبھی شریک ہوتیں ، بازار سے خرید وفروخت کیا کرتیں، علمی مجالس میں شریک ہوتیں، جنگوں میں بھی خدمات سرانجام دیتیں اور اپنی زمینوںپر کام کاج کے سلسلے میں بھی اکیلی آ جا سکتیں۔ جن کا تذکرہ احادیث و تاریخ میں بخوبی دیکھا جا سکتا ہے ۔ عورت کے متعلق آیات و احادیث کے ترجمے میں لفظوں کے انتخاب کرنے میں بھی احتیاط کم برتی گئی اور اس میں توازن کا خیال بھی کم رکھا گیا۔ دین کا اصول ہے ،آسانی کی بات کی جائے ،لوگوں کے فہم کے مطابق حکمت سے بات کی جائے ۔لوگوں کے لیے نفرتیں نہیں ،خوشخبریاں پیدا کی جائیں۔ ادھر مگر ان چیزوں کا ذکر نسبتاً زیادہ کیا گیا، جن میں عورت کے متعلق معاشرے کے یا مردوں کے حقوق نکلتے تھے، اور ان چیزوں کا کم ،جن میں عورت کے معاشرے یا مرد کے ذمے حقوق تھے۔ عورت کے حقوق کا تذکرہ بھی عموماً بے بدلی اور دل کی تنگی سے کیا جاتا رہا ، عام طورپر تب، جب اسلام پرعورت کے متعلق کیے گئے کسی اعتراض کا جواب دینا مقصود ہو۔ یعنی عورت کو اسلام کے دئیے حقوق دینے کی نیت سے کم اور معترضین کو جواب دینے کی نیت سے زیادہ۔ پھر انداز یہ رکھا جاتا ہے ، جیسے عورت کو اسلام کے دئیے حقوق نہ دئیے جا رہے ہوں ، اس پر اپنی طرف سے احسان کیا جا رہا ہو۔ چنانچہ یہ ماننے میں کوئی حرج نہیں کہ اسلام کے دئیے حقوق مسلمان معاشروں میں پوری طرح عورت کو نہیں دئیے گئے، اس کو بنیاد بنا کر البتہ اگر کوئی اسلام پر اعتراض کرنا چاہتا ہے تو یہ اس کی کم علمی بھی ہو سکتی ہے اورکج فہمی بھی۔ اسلام کا نہیں ، یہ اہلِ اسلام کا قصور ہونا چاہئے۔بطور دین اور ملت اسلام نے عورت کوجو حقوق دئیے ، اور جس وقت دئیے مغرب اس کا تصور بھی نہ کر سکتا تھا۔ جہاں تک ہمارے دین بیزار دوستوں کا تعلق ہے ، تو ان کا معاملہ عورت سے ہمدردی کا کم ا وراسلام پر اعتراض کا داعیہ زیادہ ہے۔ورنہ یہ کیسے ممکن ہے کہ پاکستان میں ہمیشہ عورت کی مرضی کے ساتھ کھڑے ہمارے پیارے دانش ور اپنے قدموں اور نظریات سے یکایک یوںمنحرف ہوجائیں ۔ یہ جان کرکہ اس باران کی پسندیدہ عورت نے اپنی مرضی سے اسلام کا انتخاب کر لیا ہے ۔ تو گویا ہمارے دوست یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ وہ عورت کی صرف اس مرضی کے ساتھ ہیں جو اسے اسلام یا ان کی تہذیبی روایت سے برگشتہ کر دے ۔اس کے ساتھ ہر گز نہیں ، جو اسے اسلام کی آغوش میں ڈال دے۔ ہندو سے مسلمان ہو جانے والی لڑکیوں کی عمر ، عقل اور جذبات کو بھی بنیاد بنایا جاتا رہا۔یہی بات مگر جب مسلمان لڑکیوں کیلئے کی جاتی ہے تو یہ اسے تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہوتے۔ اب کے دلائل کا دریا مگر الٹ بہتا رہا۔ یہ بات ہمارے دوستوں کو اس وقت بھی یاد نہ آئی، جب عرب سے ایک لڑکی فرار ہوئی اور کینیڈا نے اس کے لیے بانہیں فراخ کر دیں۔تب کیوں نہ کہا گیا کہ جذباتی عمر کا فیصلہ رد کیا جانا چاہئے؟ ہمارے دوستوں کویقینا ابھی تک انڈیا کی اس ہندو عورت’کنکا درگا‘کی بھی خبر نہیں مل سکی ہوگی، ہزار سالہ جبر کی تاریخ پاؤں تلے روند کے عدالتی حکم پر جس نے مندر میں قدم رکھا ،مگر آج وہ معاشرے میں نفرت کا ہدف بن چکی ہے۔