یہ بہت ہی اچھی بات ہے کہ آج شو بز کی دنیا میں فنکار بہت اچھے معاوضے لے رہے ہیں، اور بہت سارے تو کراچی اور لاہور کے پوش علاقوں میں اپنے ذاتی گھروں میں بھی رہ رہے ہیں، یہ موج گو سارے فنکارنہیں منا رہے لیکن ماضی کے مقابلے میںآج کے حالات فن اور فنکاروں کیلئے سازگار ہیں، وہ زمانہ جب ہماری فلم انڈسٹری ہمسایہ ملکوں کی فلموں کے بھی چھکے چھڑا رہی تھی اور ایک سے بڑھ کر ایک کامیاب فلم سامنے آ رہی تھی اور پی ٹی وی کے ڈراموں کی پوری دنیا میں دھوم تھی، اس وقت بھی اس زمانے کے کامیاب ترین ہیرو، ہیروئنز کو کرایہ کے مکانوں میں رہنا پڑتا تھا، اور بد قسمتی یہ تھی کہ شوبز ستاروں کو لوگ مکان بھی کرایہ پر دینے پرآسانی سے آمادہ نہیں ہوا کرتے تھے، خاص طور پر خاتون آرٹسٹوں کا تو گھر کرائے پر لینا انتہائی محال تھا، یہ وہ دور تھا جب عمومی طور پر خواتین کے کسی بھی شعبہ میں کام کرنے کو معیوب سمجھا جاتا تھا، گو اب حالات بدلے ہیں، لیکن اتنے زیادہ بھی نہیں کہ ہم ان پر فخر کر سکیں، اب بھی مڈل کلاس علاقوں میں رہنے والی وہ بچیاں جن کے کام کے اوقات شام کے ہوتے ہیں انہیں اپنے دفاتر اور کام کی جگہوں سے واپسی پر بہت مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جن لڑکیوں کے بھائی جوان ہوں اور ان کے گھر میں موٹر سائیکل بھی ہو ان کے لئے تو تھوڑی سی آسانی ہوتی ہے لیکن شام کے اوقات میں کام کرنے والی وہ بچیاں جو شام کی ڈیوٹی کے بعد بسوں، ویگنوں یا ٹیکسی پر دیر گئے گھر لوٹتی ہیں، ان کے لئے زندگی آج بھی عذاب ہے، سارا محلہ ان کی واپسی کا منتظر ہوتا ہے، حتیٰ کہ محلے کی خواتین بھی، ایسی بچیوں پر پھبتیاں کستی ہیں، ان کے اسکینڈلز گھڑے جاتے ہیں اور نہ جانے کیا کیا کہانیاں تخلیق ہو جاتی ہیں، کام کاج کرنے والی ایسی لڑکیوں کے ماں باپ کی زندگی بھی اجیرن کر دی جاتی ہے، ہرآدمی کی زبان پر ایک ہی سوال ہوتا ہے،، بچی کہاں جاتی ہے؟ دیر گئے کیوں گھر واپس لوٹتی ہے؟ ہم عورت کو صرف مرد کی غلامی میں دیکھنا چاہتے ہیں، اسے صرف اور صرف جنس کے طور پر دیکھتے ہیں، کام کرنا تو دور کی بات ہے، ہم سے لوئر مڈل کلاس کی بچیوں کا کالجوں، یونیورسٹیوں میں پڑھنا بھی نہیں دیکھا جاتا، جو غریب والدین کسی نہ کسی طور اپنی بیٹیوں کو اعلی تعلیم دلوانے کے خواہاں ہوتے ہیں، انہیں بھی اس جرم میں لوگوں کی تشویش اور تفتیش کا مقابلہ کرنا پڑتا ہے۔ ہم بھی بہت دوغلے لوگ ہیں، ایک جانب ملک اور قوم کی ترقی کی بات کرتے ہیں اور دوسری طرف آبادی کے نصف سے زیادہ حصے کو ناکارہ دیکھنا چاہتے ہیں۔ خواتین کے بارے میں مردوں کا تعصب شاید پوری دنیا کے مقابلے میں پاکستان میں سب سے زیادہ ہے اور وجہ ہے ہماری بیمار ذہنیت۔ جس معاشرے میں پانچ چھ سال کی معصوم بچیاں کوئی چیز خریدنے دوکان پر جائیں اور گھر واپس نہ لوٹیں اور پھر ان کی تشدد زدہ لاشیں کوڑے کرکٹ کے ڈھیر سے ملیں، وہاں ہم جوان لڑکیوں کے بارے میں عمومی سوچ کا آسانی سے اندازہ لگا ہی سکتے ہیں، اللہ ان بچیوں کا نگہبان رہے ورنہ جو مذہب ہم نے خود ایجاد کر رکھا ہے اس میں تو کوئی گنجائش نہیں کہ سب کی بیٹیوں کو اپنی بیٹیاں سمجھا جائے۔۔ عورت کی ترقی تو ہمیں زہر لگتی ہے۔ شاید ہمارے لا شعور میں ہے کہ کہیں خواتین کو اپنے مساوی حقوق کی بھنک نہ لگ جائے اور شاید بلیک میلنگ کے لئے آسانی سے دستیاب عورتیں کہیں کم نہ پڑ جائیں۔ ٭٭٭٭٭ ہم نے کالم کے آغاز میں بتایا تھا کہ کسی زمانے میں فنکاروں کو کرائے پر مکان بھی نہیں ملتے تھے، خاتون آرٹسٹوں کو ہی نہیں، مرد فنکاروں کو بھی ایسے مسائل کا سامنا رہتا تھا، چاہے وہ مالدار ہی کیوں نہ ہوتے۔۔۔۔۔۔ کچھ عرصہ پہلے میں نے فوک سنگر عالم لوہار کے بارے میں کئی واقعات لکھے تھے،آج کے کالم میں کرایہ کے مکان کا ایک واقعہ جو عالم لوہار کو پیش آیا تھا۔۔ عالم لوہار اپنے تھیٹر میں کام کرنے والی ڈھیر ساری خواتین اور بیگمات کے ہمراہ موڑ سمن آباد پر اپنی نامکمل رہ جانے والی فلم ’’مٹی دا باوا، کے ڈائریکٹر زرتاش کے بوسیدہ سے گھر میں رہائش پذیر تھے، زرتاش ایک بزعم خود دانشور تھا ، اگر اس زمانے میں آج کا الیکٹرانک میڈیا ہوتا تو وہ بہت سارے موجودہ اینکرز سے زیادہ پاپولر ہوتا، ستر کی دہائی میں سب سے آسان کام تھا، اپنا ذاتی اخبار نکال لینا۔ سو زرتاش نے ڈیکلریشن اپلائی کرکے عالم لوہار کے گھر کے باہر اخبار کا بورڈ بھی آویزاں کر رکھا تھا، جہاں وہ میٹرک پاس لڑکیوں کو صحافی بنانے کیلئے ان کے انٹرویوز کیا کرتا تھا، یہ مشورہ اسے نہ جانے کس نے دیا تھا کہ ایک روزنامہ نکالا جائے جو صرف خواتین پڑھیں، اور جو اسٹاف رکھا جائے وہ بھی تمام کا تمام عورتوں پر مشتمل ہو، اس کا خیال تھا کہ میں اس سارے پروجیکٹ میں اس کے ساتھ رہوں گا، لیکن میں اس سے زیادہ پکی گولیاں کھیلا ہوا تھا، عالم لوہار صاحب سے زرتاش کے پاس خواتین کی فراوانی کے ساتھ روزانہ آمد و رفت شاید برداشت نہ ہو سکی اور انہوں نے مجھے کہنا شروع کر دیا کہ تم میرے لئے کرائے کا کوئی نیا گھرڈھونڈو ، عالم لوہار کے پاس پیسہ تو بہت تھا ، لیکن ان کاروزگار بنجاروں والا تھا، شاید اسی لئے اپنا ذاتی گھر بنانے کا خیال ان کے دماغ میں نہ آیا ہوگا، وہ پورے پنجاب میں ہونے والے میلوں میں اپنا تھیٹر لگاتے تھے، اور تھیٹر بھی عنایت حسین بھٹی کے تھیٹر کے سامنے،، اور دونوں میں گائیکی کا مقابلہ چلتا تھا ساری ساری رات۔۔ اس زمانے میں ہزاروں کی کما ئی تھی ، نہ کوئی ٹیکس نہ کوئی پوچھ گچھ اور نہ کوئی اور جھمیلا۔سرکس اور تھیٹروں کی کمائی بستر کے گدوں کے نیچے یا گھڑوں میں چھپائی جاتی تھی۔۔ ایک دن سمن آباد میں پیدل جاتے ہوئے، رسول پارک کے قریب ایک مکان کے باہر ’’کرایہ کے لئے خالی ہے‘‘ کا بورڈ دیکھ کر میں رک گیا،، پتہ چلا کہ اس کا مالک ساتھ والے گھر میں رہتا ہے۔۔۔ دروازے پر دستک دی تو ایک صاحب باہر تشریف لائے، علیک سلیک کے بعد انہوں نے بتایا کہ چار کمروں کے اس گھر کا کرایہ سو روپے ماہانہ ہے، اس زمانے میں اتنی گنجائش کا اچھا گھر ساٹھ ، ستر روپے پر بھی مل جاتا تھا ، میں اوکے کرکے واپس چلا گیا عالم لوہار کے پاس۔ ۔۔۔۔عالم لوہار میرے ساتھ تھے جب میں نے دوبارہ دروازہ کھٹکھٹایا مالک مکان کا ، پھر وہی صاحب باہر تشریف لائے، ہم دونوں کو سر تا پاؤں بغور دیکھا اور پھر سوالیہ انداز میں کہنے لگے ’’’جی، فرمائیے‘‘میں نے کہا ’’ جی ابھی ابھی میں کرائے کے مکان کا پوچھ کر گیا تھا‘‘ ’’ مکان تو چڑھ گیا ہے‘‘میں حیرت سے بولا ’’ جناب ابھی پندرہ بیس منٹ پہلے آپ سے مل کر گیا ہوں‘‘اب عالم لوہار بولے،،، ’’حاجی محمد عالم لوہار‘ تسیں مینوں پچھانیاں؟ ’’ جی نئیں،، مالک مکان نے جواب دیا۔۔۔۔۔عالم لوہار نے سوال کیا ’’ تسیں ،ریڈ یو سندے او ‘‘ ’’ نہیں ‘‘عالم لوہار نے ملکہ برطانیہ کے بلاوے کی داستان چھیڑ دی،، لوہار کی کہانی جاری تھی کہ مالک مکان مجھے ان سے دور لے گیا ’’’ بھائی جی میری جوان بیٹیاں ہیں ، یہ آگئے تو ساری ساری رات ڈھولک اور چمٹا بجے گا ، براہ کرم انہیں واپس لے جائیں ، میں آپ کو مکان کرائے پر نہیں دے سکتا‘‘‘آج عارف لوہار کو کہیں دیکھتا ہوں تو سوچتا ہوں ، کتنا کٹھن تھا اس کے باپ کا اس معاشرے میں جینا۔