کسی بھی ملک کے نظام کو چلانے کیلئے یا حکومت کی طرف سے نظم و نسق، ملک کی سرحدوں کی حفاظت و تعمیر و ترقی کیلئے فنڈز مہیا کرنے کیلئے ٹیکس یا محصول اکھٹا کرنا ضروری ہوتا ہے۔ عوام اپنا پیسہ حکومت کو اسلئے دیتے ہیں، کہ وہ ان کی حفاظت کرے اور اسی کے ساتھ ان کیلئے تعمیر و ترقی کے کام بھی کرے۔ جنوبی ایشیا یا دیگر ترقی پذیر ممالک میں عوام ٹیکس کو اسلئے بوجھ سمجھتے ہیں کیونکہ ان کے خیال میں ان سے حاصل شدہ رقوم،کرپٹ سیاستدان اور افسر شاہی اپنے پیٹ کے ایندھن کو بھرنے کیلئے استعمال کرتی ہیں۔ دوسری طرف براہ راست ٹیکس کی شرحیں بھی اس قدر ہیں ، کہ یہ ایک غنڈہ ٹیکس لگتی ہیں اور عوام حتی الامکان ا س کی ادائیگی سے گریز کرتے ہیں۔ کبھی کبھی تو سو روپے کا ٹیکس بچانے کیلئے چارٹرڈ اکاوٹنٹ کو پانچ سو روپے کا فیس بھی ادا کرتے ہیں۔ بھارت کے ایک سابق وزیر آنجہانی وسنت ساٹھے نے 90ء کی دہائی میں Tax Without Tearsآنسووٗں کے بغیر ٹیکس کے نام سے ایک کتاب تصنیف کرکے ٹیکس کے موجودہ نظام کو چ سہل او رعوام دوست بنانے کی اپیل کی تھی۔ سو صفحات پر مشتمل اس کتاب کو ایک بار اٹل بہاری واجپائی کے دور حکومت میں سابق وزیر اعظم چندر شیکھر نے پارلیمان میں پیش کرکے اس پر زور دار بحث کروائی تھی۔ اگر بھارت اور پاکستان کے ٹیکس نظام کا جائزہ لیا جائے، تو بھارت کی 130کروڑ کی آبادی میں بس 1.5کروڑ افرا د ہی انکم ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ تین لاکھ افراد سالانہ 50لاکھ یا اس سے زائد آمدن کے گوشوارہ جمع کراتے ہیں۔ پیشہ وار افراد یعنی وکلا، ڈاکٹرز، چارٹرڈ اکاوٹنٹ وغیرہ کے زمرے میں 2,200افراد ایک کروڑ سے زائد آمدن کے ریٹرن فائل کرتے ہیں۔ اگر سپریم کورٹ کے آس پاس ہی کھڑی عالیشان گاڑیوں اور انکے مالکان کا تجزیہ کیا جائے، تو کئی ہزار کروڑ پتی تو وہیں بیٹھے بٹھائے ملیں گے۔ یہی حال پاکستان کا بھی ہے، جہاں 22کروڑ کی آبادی میں صرف ایک فی صد افراد ہی ٹیکس کی ادائیگی کرتے ہیں۔ چند سال قبل ایک یونیورسٹی کے وائس چانسلر نے جو خیر سے ماہر اقتصادیات بھی ہیں، بتایا کہ ہر سال رمضان المبارک کے دوران انکے گھر کے پاس میوہ کی دکان کا مالک ان کے پاس اپنی سالانہ آمدن کا گوشوارہ لیکر زکوٰۃ کا حساب لگانے کیلئے آتا ہے۔ ایک بار انہوں نے اس فروٹ بیوپاری سے پوچھا کہ کیا وہ چارٹرڈ اکاو ٹینٹ کے پاس اسی طرح انکم ٹیکس کا حساب لگا کر اس کو جمع کرواتا ہے؟ تو اس کا ٹکا سا جواب تھا کہ وہ اپنی حق حلال کی کمائی سے سیاستدانوں اور بیوروکریٹوں کے پیٹ کا دوزخ نہیں بھر سکتا۔حکومت اور عوام کے درمیان اعتماد کی کمی کے علاوہ ٹیکس کا پیچیدہ نظام اور اس کی زیادہ شرح کی وجہ سے بھی کئی افراد اسکو دینے سے کتراتے ہیں۔ وسنت ساٹھے کے مطابق اسکا سیدھا حل شرح کم کرنا ، انکو عوام کی جیب کے مطابق ڈھالناہے ۔ آخر صرف تنخواہ دار طبقہ ہی کیوں اس کی زد میں آئے۔ ساٹھے کا فارمولہ ہے کہ کسی بھی شخص یا کسی فیملی کی آمد ن کا حساب اسکی یوٹیلٹی بلز کی مدد کے لگایا جانا چاہئے یا وہ کس قدر انرجی استعمال کرتے ہیں۔ بجلی ، فون، گیس وغیر ہ کے بلز تو حکومت کے پاس ڈاکیومنٹ ہوتے ہیں، اسلئے اس فیملی کی سالانہ آمدن کا حساب بھی لگایا جاسکتا ہے۔ اگر کوئی شخص سالانہ ایک لاکھ روپے کی بجلی کا بل ادا کرتا ہے، یا سالانہ 25 ہزار سے زیادہ کا فون کا بل ادا کرتا ہے، تو یہ مان لینا چاہئے کہ اس کی سالانہ آمدن دس لاکھ روپے ہوگی اور اس میں سے 2یا 5فیصد کی درسے اس سے سالانہ دس یا بیس ہزار روپے وصول کئے جاسکتے ہیں۔جو قسطوں میں بھی لئے جاسکتے ہیں۔ شہروں اور دیہاتوں کی نسبت سے شرح میں رد و بدل کیا جاسکتا ہے۔ٹیکس کی آ مدن کوعوام کی خواہشات کے مطابق خرچ کرنے کے لئے ضروری ہے کہ اس نظام میں مرکزیت میں کمی ور شفافیت لائی جائے۔ اگر کسی کالونی یا محلہ میں سو گھروں سے مجموعی طور پر دس یا بیس لاکھ روپے وصول ہوجاتے ہیں، تو اس میں سے نصف یعنی دس لاکھ وہیں اسی کالونی یا محلے کے منتخب نمائندے یا ہائوسنگ کالونی کے ذمہ داروں کے سپرد کرکے ان کو خرچ کرنے کی آزادی دی جائے۔ بقیہ نصف ضلعی یا تحصیل یا بلاک انتظامیہ کے سپرد کئے جائیں۔ چونکہ ان کے پاس تمام کالونیوں اور ہاوسنگ سوسائیٹیوں کے وصول شدہ نصف ٹیکس آئینگے، وہ اس رقم کا نصف حصہ صوبائی حکومت کو بھیج دیں گے اور بقیہ نصف اپنے علاقے میں خرچ کریںگے۔ ٹیکسوں کے نظام میں مرکزیت جتنی کم ہوگی، اتنی اس میں شفافیت آئیگی ۔ ساٹھے کے مطابق ٹیکس ریٹ پانچ فیصد سے زیادہ نہیں ہونی جائے اور کارپوریٹ کیلئے بھی زیادہ سے زیادہ 25فیصد ہونی چاہئے۔ اگر صوبائی حکومتوں کو اس آمدن کا 50فیصد اور پھر مرکز کی طرف سے ان ک کارپوریٹ ٹیکس میں بھی حصہ ملے، تو ان پر لازم ہے کہ وہ اشیاء خوردنی اور پٹرولیم اور گیس پر بالواسطہ ٹیکس کم کریں، تاکہ یہ اشیا عوام کو ارزاں نرخوں پر دستیاب ہوں۔ اسکے علاوہ اگر اس رقم کو سوشل سیکورٹی کیلئے استعمال کیا جائے، تو بھی عوام ہنسی خوشی اس کو دینے کے روادار ہونگے۔ ڈنمارک ، ترکی یا دیگر فلاحی مملکتوں کی طرح اپنے باشندوں کو گریجویشن تک مفت تعلیم اور طالب علموں کو دن میں ایک بارکھاناکھلانااور پھر 60سال کی عمر کے بعد مفت روٹی، صحت اور سفر کی سہولیت ہونے کی وجہ سے 23سال سے 60سال کی عمر تک عوام خود ہی ٹیکس بھرتے ہیں۔ ترکی میں تو ٹیکس مفت صحت کی سہولیت کیلئے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ چند سال قبل ڈنمارک کے دورہ کے دوران کوپن ہیگن یونیورسٹی سے درس و تدریس کی ڈیوٹی سے ریٹائرڈ ہوچکے ایک پاکستان نژاد پروفیسر نے مجھے بتایا کہ تیس سال قبل جب انکو ڈنمارک یونیورسٹی میں نوکری ملی، تو تنخواہ ملنے کے دن وہ خاصے افسردہ اور ذہنی دباوٗ کے شکار ہوجاتے تھے، کیونکہ ہر ماہ تنخواہ سے تقریباً25تا30فیصد ٹیکس کی مد میں کٹ جاتا تھا۔ اسی دوران آفس میں ہی ایک دن وہ ہارٹ اٹیک کا شکار ہوگئے۔ فوراً ایمبولینس بلائی گئی اور ایک صاف و ستھرے اسپتال میں انکو بھرتی کیا گیا۔ڈھائی ماہ اسپتال میں رہنے کے باوجود ان سے ایک پیسہ بھی وصول نہیں کیا گیا۔ جب کہ پاکستان میں کوئی بھی اسپتال چا ر یا پانچ لاکھ سے کم کا بل چارج نہیں کرتا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس دن وہ سوچنے لگے ، کہ ان کے بچے ایک سرکاری اسکول میں مفت میں زیر تعلیم ہیں۔ ریٹائرمینٹ اور ضعیف العمری میں وہ سوشل سکیورٹی کے حق دار ہونگے، تو ٹیکس ادائیگی پر افسردہ ہونے کی کیا ضرورت ہے۔ یورپی ممالک، اسرائیل، ترکی میں اراکین پارلیمان یا وزیروں کو سرکاری خرچ پر عالیشان بنگلہ رہنے کیلئے نہیں ملتے ہیں، بلکہ وہ عام کالونیوں میں کرایہ کے فلیٹوں میں رہتے ہیں۔ سیاست دانوں کی سادہ زندگی بھی عوام کو ٹیکس دینے کی حوصلہ افزائی کرتی ہے اور فلاحی ریاست کے قیام میں ایک اہم رول ادا کرتی ہے۔