انسان دکھ کے ساتھ سوچتا ہے ۔امت رسول ہاشمی ﷺ کا یہ حال تو کبھی نہ تھا ۔ہر کہیں ہر محا ذپر ذلت کا شکار امتی آخر کس پاتال تک جائیں گے۔ علمائے کرام کا کردار ‘ جو آخر بروئے کار آنا تھا۔ ابھی تک نہیں آیا اور اب تو لوگ ان کو شک کی نگاہ سے دیکھنے لگے ۔ کیا ہی اچھا ہوتاکہ ہمارے علمائے کرام کا کردار نکھر کر سامنے آتا ۔ اقتدار کے حصول کی جنگ کا تو کوئی فقہی جواز تلاش کیاجا سکتا لیکن علماء کے بروئے کار نہ آنے کا کوئی بھی عقلی ‘ منطقی اور فقہی جواز پیش نہیں کیا جا سکتا ۔ پھر مجھے امام ؒ یاد آئے‘ نعمان بن ثابتؒ ‘ زمانہ انہیں امام ابو حنیفہ ؒ کے نام سے یاد کرتااور انسان ان جیسے فقیہہ وقت کا نام لیتے ‘ سنتے ‘ عقیدت سے گردن جھکا لیتا ہے۔وہ ایک یہودی تاجر تھا جو کوفہ میں ان کے گھر کے پچھواڑے میں رہتا تھا۔ ایک رات وہ اچانک جاگا تو کھڑکی کے اس پار چھت پر ایک شخص کو آہ و زاری کرتے دیکھ کر ٹھٹھک گیا ۔ ایسی کرب ناک چیخیں سن کر وہ سو نہ سکا ۔ یہودی نے جان لیاکہ نالہ نیم شب کا خوگر اور اپنے رب کے حضور گریہ زاری کرنے والا نعمان بن ثابت ؒ ہے ۔ کوفے میں یہ بات عام ہوئی تو لوگ امام ؒکی خدمت میںپہنچے۔ اس کرب اور اضطراب کا سبب پوچھا تو آپ نے فرمایا: ’’ میں اقتدار کی ہوس سے پناہ مانگتا ہوں ۔ اس روز سے بھی جب بچے خوف سے بوڑھے اور پہاڑ دھنکی ہوئی روئی بن جائیں گے۔‘‘ یہودی ان کے دست حق پر ست پر اسلام لے آیا ۔ آج ہمارے ہاتھوں اسلام قبول کرنے والے کتنے ہیں اورہمارے رویے کردار کی وجہ سے اسلام سے دور ہونے والے کتنے ؟ امام اقتدار کی راہ داریوں میں جانے سے اﷲ کی پناہ مانگتے ۔ وہ فرماتے تھے۔ ’’ میرے نزدیک فتنے کو اکھاڑنا تخت پر بیٹھنے سے مقدم ہے۔‘‘ انسان دکھ کے ساتھ سوچتا ہے ‘ ہم اسی امامؒ کے پیرو کار ہیں ؟خلیفہ منصور کا زمانہ تھا۔ وہ اپنے حریف ابراہیم ؒ کا سر کاٹنے کا متمنی تھا ‘ اس نے امام ؒ کو خط لکھا: آپ مکہ معظمہ سے بغدادپہنچیں۔ منصور نے آپ کو قاضی القضاۃ کا عہدہ پیش کرتے ہوئے کہا ۔ ’’مجھے فخر ہے کہ آپ دنیا کے سب سے بڑے عالم دین ہیں ۔‘‘ اتنے بڑے عہدے کی پیش کش سن کر آپ پر سکون رہے ۔منصور کی طرف دیکھا اور کہا ۔’’ میں اپنے کمزور جسم پر اس قدر گراں منصب کی ذمے داریاں اٹھانے کی سکت نہیں پاتا۔‘‘ خلیفہ اس جرات کی توقع نہیں رکھتا تھا وہ چیخ اٹھا۔ ’’ تم جھوٹ بولتے ہو۔‘‘ امام کے مزاج میں ذرا بھی فرق نہیں آیا انہوں نے صرف اتنا فرمایا۔ ’’آپ کے خیال میں اگرمیں جھوٹا ہوں تو پھر جھوٹا انسان قاضی کے عہدے پر کیسے متمکن ہو سکتا ہے۔‘‘ اتنا جواب منصور کو جلال میں لانے کوبہت تھا ۔ وہ آگ بگولا ہوا جاتا تھا اس نے قسم اٹھا کر کہا ۔ ’’ آپ کو یہ عہدہ قبول کرنا ہوگا۔‘‘ امام ؒ نے بھی قسم کھا کر کہا’’میں یہ عہدہ ہر گز قبول نہیں کروں گا۔‘‘ آپ نے کمال بے نیازی سے منصور کی پیش کش کو ٹھکرا کر درباریوں کو حیران کر دیا ۔کئی ایک مصاحبین خوشامدی اور ’’ جھولی چک ‘‘ آگے بڑھے اور امام کو اقتدار، اختیار اور مناصب کی اہمیت سمجھانے کی کوشش کی ‘ لیکن آپ نے سر کی جنبش سے انکار کر دیا ۔ خلیفہ منصور آپ کے اس رویے پر تڑپ کر رہ گیا ۔اس نے کہا ؛’’اتنے بڑے منصب کو ٹھکرانے کی سزا بھگتنے کو تیار ہو جائو۔‘‘ آپ نے کہا …’’ مجھے کانٹوں کے بستر پر اپنی مرضی سے سونا اچھا لگتا ہے بجائے اس کے کہ میں اہل اقتدار کے ایوانوں میں مخملیں تخت پر ان کی منشاء سے بیٹھوں۔‘‘منصور نے آپ کو جیل میں ڈال دیا ،وہاں ان پر جو بیتی سو بیتی ۔ انسان جب سوچتا ہے کہ کیا ہم اس امام ؒ کی پیرو کاری اور تقلید کا دم بھرتے ہیں تو رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں ۔ابن ہبیرہ نے امام ؒ کو اپنے پاس بلایا ۔ ان کے علمی مرتبے اور ذہانت کی داد دیتے ہوئے میر منشی کے عہدے کی پیش کش کی ۔ آپ نے دو ٹوک انکار کرتے ہوئے کہا ۔ ’’ میرے بس کی بات نہیں۔‘‘ اقتدار کے نشے میں بد مست ابن ہبیرہ کو یہ سر کشی اور حکم عدولی اتنی ناگوار گزری کہ اس الزام کی پاداش میں آپ کو کوڑے تک مارے گئے ۔ تاریخ کہتی ہے کہ امام اس اذیت ناک مرحلے کے بعد کچھ عرصہ کے لیے مدینہ منورہ ہجرت کر گئے اور ۱۳۹ھ تک وہیں مقیم رہے۔ انسان کرب کے ساتھ سوچتاہے ‘جب اقتدار کے ایوانوں کی طرف ان لوگوں کی دوڑ دیکھتا ہے جو انہی امام ؒ کے ’’نقش قدم ‘‘ پر چلنے کا دعویٰ کرتے ہیں ۔چہ جائیکہ انہیں اس کا حق بھی عوام نے دیا ہے یا نہیں ۔ ایک وہ تھے کہ کوڑے ‘ قید اور ستم برداشت کر لیا اور بڑے سے بڑا منصب ٹھکرا دیا ایک ہم ہیں کہ روزانہ دس کوڑے کھانے کو تیار ہیں لیکن ایوان کی راہ داری میں کہیں بھی ٹانگیں رکھنے کی اجازت مل جانے کے متمنی۔ امام ؒ ایک بار ایسی جگہ سے گزرے جہاں بارش کی وجہ سے کیچڑ بن چکا تھا۔ قریب بہت سارے بچے کھیل رہے تھے ۔آپ نے انہیں متوجہ کرتے ہوئے فرمایا ۔بچو کوئی پھسل جائے گا ‘ تمہارے چوٹ لگنے کا خطرہ ہے ۔ یہ سن کر باقی بچے بھاگ گئے لیکن ایک بچہ آپ کے قریب آ کر کھڑا ہو گیا اور اس نے سینہ تان کر امام ؒکی طرف دیکھا اور بولا : ’’ اپنی فکر کریں ہم پھسلے تو صرف ماں باپ پریشان ہوں گے اگر آپ پھسل گئے تو پوری ملت زخمی ہوجائے گی ۔‘‘ بچہ چلا گیا لیکن آپ سکتے میں آ گئے ۔ مدتوں یہ بات یاد کر کے روتے رہے ۔ انسان سوچتا ہے عمران خان، زرداری ‘ نواز شریف ‘ چوہدری شجاعت حسین، پرویزالہی پھسل گئے تو چوٹیں ان کے ہی آئیں گی۔ ہمارے علمائے کرام جو اقتدار کی ریس میں شامل ہیں، جو نظام بدلنے کی خواہش میں بے تاب ہیں ،قافلہ در قافلہ نکلے ہیں، سوچیے اگر پھسل گئے تو کیا ہوگا ؟