معزز قارئین!۔ 11 جون 2019ء کو ، مشیر خزانہ برائے وزیراعظم عمران خان ،جناب عبداُلحفیظ شیخ کے تیار کردہ 2019ئ۔ 2020ء کے قومی بجٹ تقریر کو جب، وزیر مملکت ریونیو جناب حماد اظہر پڑھ رہے تھے تو، صورت حال یوں تھی کہ … مَیں خیال ہُوں کسی اور کا ، مجھے بولتا کوئی اور ہے! جناب حماد اظہر روانی سے اور کبھی روانی کے بغیر بجٹ تقریر پڑھتے رہے اور وقفوں وقفوں سے ’’ جوابِ آں غزل‘‘ کے انداز میں حزبِ اختلاف کے اراکین احتجاج ، شور شرابا ، کرتے رہے اور ڈیسک بھی بجاتے رہے۔ اِس لئے کہ ایوان میں بجانے کے لئے کوئی دوسرا ساز ؔ، تھا ہی نہیں۔ متعدد بار قومی اسمبلی میں قائد ِ حزبِ اختلاف میاں شہباز شریف نے مختلف مقدمات میں گرفتار سابق صدر آصف زرداری اور دوسرے ملزمان ارکان اسمبلی کے "Production Orders" کے لئے سپیکر قومی اسمبلی جناب اسد قیصر اور ڈپٹی سپیکر جناب قاسم خان سوری سے درخواستیں ، اپیلیں کیں اور مطالبات بھی لیکن، بات نہیں بنی۔ آخر سپیکر اور ڈپٹی سپیکر صاحب کا اپنا بھی تو، مؤقف ہوگا/ ہے؟۔کئی بار ایوان کی کارروائی ملتوی ہُوئی۔ پھر شروع ہُوئی ، پھر ملتوی ہوگی ، کبھی نہ کبھی تواور کسی نہ کسی طور تو بجٹ منظور یا نامنظور ہو ہی جائے گا؟۔علاّمہ اقبالؒ نے تو ، پہلے ہی کسی مغربی مفکر کے حوالے سے کہہ دِیا تھا کہ … جمہوریت اِک طرزِ حکومت ہے ، کہ جس میں ! بندوں کو گِنا کرتے ہیں ، تولا نہیں کرتے! معزز قارئین!۔ مَیں 1973ء سے قومی اسمبلی کی پریس گیلری میں بیٹھ کر اور اُس کے بعد کئی سال سے اپنے گھر بیٹھ کر الیکٹرانک میڈیا پر وزیر/ مشیر خزانہ کو بجٹ تقریر پڑھتے سُنتا اور دیکھتا چلا آ رہا ہُوں اور ایوان میں حزبِ اختلاف کے ارکان کی طرف سے شور شرابے کے مناظر بھی ۔ ہر حکومت کی طرف سے بجٹ کو ’’ عوام دوست‘‘ یا ’’ غریب دوست‘‘ قرار دِیا جاتا ہے ۔ جب کہ حزبِ اختلاف کی طرف سے اُسے ’’عوام دشمن‘‘ کا نام دِیا جاتا ہے ۔ بے چارے عوام تو، قومی اسمبلی یا سینٹ آف پاکستان کے کبھی رُکن منتخب ہونے کے قابل ہی نہیں ہُوئے تو، وہ کیا عرض کریں؟۔ قومی بجٹ سے پہلے مَیں تو ہر حکمران سے یہی اپیل ،درخواست یا مطالبہ کرتا چلا آ رہا ہُوں کہ’’ کم از کم قومی اسمبلی کے ایوان کو شور شرابے حزبِ اختلاف کی "Hooting" (حقارت یا ناپسندیدگی کے اظہار کی آوازوں ) سے وزیر / مشیر خزانہ کو بچانے کے لئے اُسے ترنم سے بجٹ تقریر پڑھنے / گانے کے لئے کہیں اور اگر وزیر/ مشیر خزانہ سُر تال سے ناواقف ہُوں تو، اُس کے بجائے (پہلے سے منتخب ) گلوکاروں کو بجٹ تقریر پڑھنے / گانے سے پہلے ریاض ؔکرایا جائے؟۔ اِس لئے کہ جب حزبِ اختلاف کے ارکان اسمبلی بجٹ تقریر کے کسی پوائنٹ پر ناراض بھی ہو جائیں تو، کم از کم وزیر / مشیر خزانہ کی گائیکی سے متاثر ہو کر تو ، (بے شک وقتی طور پر ہی سہی ) کوئی ہُلڑ بازی نہیں کریں گے اور اگر ’’ ڈیسک نوازی‘‘ کریں گے بھی تو، علمِ موسیقی کے آداب و نیاز کے مطابق؟ ۔اگرچہ علاّمہ اقبال نے تو، اپنے ’’فن نَے نوازی ‘‘کے بارے میں کھلے دِل سے اعتراف کرلِیا تھا کہ … میرے کام کچھ نہ آیا ، یہ کمالِ نَے نوازی! ’’راگ سیاست ‘‘ معزز قارئین!۔ 24 جولائی 1994ء کو مجھے ( اُن دِنوں ) میرے کرم فرما ، ملک کے نامور کلاسیکل گلوکار اُستاد بڑے روشنی خان کا ایک خط موصول ہُوا جس، میں اُنہوں نے لکھا تھا کہ۔ ’’ ایک خبر کے مطابق۔ سابق صدر غلام اسحاق خان اب اپنا بیشتر وقت پڑھنے لکھنے اور کلاسِیکی موسیقی میں گزاریں گے۔ افسوس کہ اِس سے قبل سابق صدر غلام اسحاق خان ، سابق وزیراعظم میاں نواز شریف اور سابق قائدِ حزب اختلاف محترمہ بے نظیر بھٹو نے کلاسِیکی موسیقی سے راہنمائی حاصل کرنے کی کوشش نہیں کی ورنہ اُن کے اور ملک کے حالات کچھ اور ہوتے۔ جب تک راجے ،مہاراجے ، بادشاہ اور شہنشاہ کلاسیِکی موسیقی اور کلاسیِکی گلوکاروں کے قدر دان رہے اور اُن کی سرسرپرستی کرتے رہے، راگ وِدّیا سے انسانیت کو فائدہ پہنچتا رہا۔ راگ ملہار گایا جاتا تو ، رِم جھم ، رِم جھم برکھا برستی تھی۔ راگ دیپک گانے سے آگ جل اُٹھتی تھی۔ مریض کے سرہانے راگ گانے سے مریض صحت یاب ہو جاتا تھا ۔ مَیں نے راگ ایمن ؔ گا کر خلیجی جنگ بند کرادِی تھی اور سپیشل راگ گا کر سوویت یونین جیسی سُپر پاور کو ٹکڑے ٹکڑے کردِیا تھا ۔ اگر سابق صدر اسحاق خان اپنے دورِ حکومت میں میرا راگ سُنتے تو اُن پر بُرا وقت نہ آتا۔ اگر محترمہ بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف میرا راگ سُنتے تو اُنہیں کی حکومتیں قبل از وقت ختم نہ ہوتیں ۔ مَیں اب بھی اپنے ملک اور قوم کی خدمت کے لئے تیار ہُوں۔ اگر عام انتخابات سے قبل مجھے ٹیلی ویژن پر ’’ راگ سیاست‘‘ گانے کا موقع دِیا جائے تو عوام لوٹوں اورلفافوں کے بجائے دیانتدار اور مُخلص نمائندے منتخب کریں گے اور مُلک حقیقی معنوں میں تعمیر و ترقی کی شاہراہ پر چل پڑے گا‘‘۔ آپ کا مُخلص ایوارڈ یافتہ کلاسیکل گلوکار اُستاد بڑے روشنی خان ’’راگ جمہوریت‘‘ مَیں نے جواب میں 27 جولائی 1994ء کو اپنے کالم ’’راگ جمہوریت ‘‘ میں اُستاد بڑے روشنی خان کو مخاطب کرتے ہُوئے لکھا کہ ۔مجھے تو کلاسیِکی موسیقی کی افادیت اور آپ کی اہمیت کا احساس ہے لیکن، افسوس کہ آج کا دَور ، راجوں ، مہاراجوں ، باشاہوں اور شہنشاہوں کا دَور نہیں اور جہاں کہیں بادشاہت ہے وہاں کے بادشاہ کلاسیِکی موسیقی کا ذوق نہیں رکھتے ۔ میری آپ سے گزارش ہے کہ آپ ’’راگ سیاست ‘‘کے بجائے ’’ راگ جمہوریت‘‘ کا الاپ شروع کریں !۔ سیاستدانوں کے بجائے عام آدمی کو فائدہ پہنچائیے لیکن، ممکن ہے کہ جب آپ ٹیلی ویژن پر ’’ راگ جمہوریت‘‘ گانے کا الاپ کریں تو ، واپڈا والے پورے ملک کی بجلی بند کردیں۔ واپڈا والے بھلا کسی بڑے روشنی خان کو کیسے برداشت کریں گے؟۔ اُستادِ محترم !۔ کیا آپ کوئی اِس طرح کا راگ گا سکتے ہیں کہ’’ سیلاب اپنی تباہ کاریاں ختم کردے ؟ یا مہنگائی کا سیلاب رُک جائے اور ہر غریب شخص حلال کی کمائی سے اپنا اور اپنے اہل و عیال کا پیٹ بھر سکے؟‘‘۔ کیا آپ کوئی ایسا راگ بھی گا سکتے ہیں کہ جہیز نہ ہونے کے باعث غریبوں کی بیٹیاں اپنے ماں ، باپ کے گھروں ہی میں بیٹھی بوڑھی نہ ہو جائیں ؟۔ کیا آپ کا کوئی راگ قتل و غارت، چوری ڈکیتی او ر غنڈہ گردی کو روک سکتا ہے ؟۔ کیا کوئی راگ مظلوموں کو انصاف اور ظالموں کو سزا دِلوا سکتا ہے ؟۔ کیا آپ اپنے کسی راگ کی شکتی سے ’’ لوٹا کریسی‘‘ اور ’’ پلاٹو کریسی‘‘ میں کوڑھ پھیلا سکتے ہیں؟۔ بس اللہ کا نام لے کر ’’ راگ جمہوریت‘‘ شروع کردیجئے اور اُس وقت تک گاتے رہیے جب، تک میرے اور آپ کے پاکستان میں جمہوریت کی روشنی پوری طرح پھیل جائے۔ اثر چوہان عطاء اللہ عیسیٰ خیلوی! معزز قارئین!۔ مجھے نہیں معلوم؟ کہ اُستاد بڑے روشنی خان حیات ہیں اور اگر ہیں تو کہاں ہیں ؟۔ مجھے تو،آج کے دَور میں لوک فنکار اُستاد عطاء اللہ خان عیسیٰ خیلوی ہی ’’بڑے روشنی خان ‘‘دِکھائی دیتے ہیں ۔ مَیں اُن کا 1972ء سے "Fan" ہُوں جب، مَیں ’’ پنجاب فلم سنسر بورڈ‘‘ کا رُکن تھا ۔ لاہور میں اُن کے اعزاز میں ایک تقریب تھی تو، مَیں نے اُن کے فن کی تعریف کی تھی ۔ مَیں اب بھی معترف ہُوں۔ مَیں چاہتا ہُوں کہ ’’ وزیراعظم عمران خان ،فوری طور پر اُنہیں کسی ضمنی انتخاب میں قومی اسمبلی کا رُکن منتخب کرا کے اُنہیں وزیر / مشیر خزانہ بنا دیں اور سُت رفتاری کا شکار قومی بجٹ گانے کی سعادت بخشیں۔ مجھے یقین ہے کہ ’’ وہ حزبِ اختلاف کے مخالف ترین ارکان کو بھی اپنے فن کا گرویدہ بنا لیں گے ‘‘۔ میرے دوست ’’ شاعرِ سیاست‘‘ تو مجھ سے بھی زیادہ جنابِ عیسیٰ خیلوی کے "Fan" ہیں ۔ فی الحال اُن کے دو شعر پیش خدمت ہیں … کیا نذیر مُک مُکا اور کیا بشیرِ مُک مُکا! دوڑتا ہے ہر کوئی ، جانب لکیرِ مُک مُکا! …O… ہیں عطاء اللہ جی ، روشن ضمیرِ مُک مُکا! اُن کو بھی ، للہ بنا دو ، تُم وزیر مُک مُکا!