ریاستِ مدینہ کی وزیرِ اعظم محترم بات کرتے ہیں، کیا انہیں ادراک ہے کہ ریاستِ مدینہ تھی کیا؟ اس کے مکینوں کا کردار اوراندازِ فکر کیا تھا؟ رات ڈھلنے لگی تو حضرت مولانا اویس نورانی کو تردید کا خیال آیا۔ان کے مطابق یہ بات کہ بلوچستان کو ایک آزاد ریاست ہونا چاہئیے، انہوں نے طنزیہ اور سوالیہ انداز میں کہی تھی۔ وہ پاکستان کی سا لمیت کے پرجوش حامی ہیں اور ہمیشہ رہیں گے۔ مزید یہ فرمایا کہ کوئی طاقت بلوچستان کو پاکستان سے الگ نہیں کر سکتی۔شب حضرت کے ارشاد پر گمان ہوا کہ ٹھیک ہی کہتے ہوں گے۔ شاہ احمد نورانی کا فرزند کیونکر ایسی جسارت کا مرتکب ہو سکتا تھا۔ اخبار نویسوں کو مغالطہ ہوا ہوگا۔ سویر اخبارات چھان مارے۔سبھی میں ان سے منسوب تھا: بلوچستان کو ایک الگ ریاست ہونا چاہئے۔ ایسی ہی ایک حرکت مدتوں پہلے مولانا فضل الرحمن نے فرمائی تھی، جب بھارت میں اخبار نویسوں سے انہوں نے کہا تھا: پاکستان، بنگلہ دیش اور بھارت کے سیاستدان کنفیڈ ریشن بنا سکتے ہیں۔ مولانا نے تردید جاری فرمائی۔ قاضی حسین احمد نے بھی چھپانے کی کوشش کی۔ یہ سوال مگرفضا میں معلق رہا کہ تمام کے تمام بھارتی اخبارات اور نیوز ایجنسیاں غلط بیانی کیسے کر سکتی ہیں۔ ایک ایسے شخص کے خلاف ڈس انفرمیشن وہ کیسے پھیلا سکتی ہیں، جسے بھارت کا مخالف نہیں سمجھا جاتا۔ مولانا فضل الرحمٰن ایک زیرک آدمی ہیں۔ سوچے سمجھے بغیر کوئی بات کرتے نہیں۔ غلط فہمی کا امکان ہی پیدا نہیں ہونے دیتے۔ الفاظ کے چناؤ میں ایسا محتاط سیاستدان دنیا بھر میں کم ہو گا۔ ان کی ذہانت میں کوئی کلام نہیں کہ جامعہ اشرفیہ جیسے ادارے کو وہ سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرگزرے۔تحریکِ پاکستان کے پرجوش حامی، ولولہ انگیز مولانا حسن جس کے بانی تھے۔ بھارت کے اس دورے میں اجیت دوول سے بھی مولانا کی ملاقات ہوئی تھی، اعلانیہ جو پاکستان توڑنے کی بات کرتا ہے۔ اس ناچیز سمیت چند اخبار نویسوں نے احتجاج کیا تو جماعتِ اسلامی کے اکّل کھرے لیڈر منور حسن نے اپنے حلیف کے موقف سے بے زاری اور عدمِ تعلق کا اعلان کر دیا۔ اللہ اللہ کر کے اب ہوشمندی غالب آئی ہے کہ نا تراشیدہ اپوزیشن کا دم چھلّا بننے سے انکار کردیا۔ وہ اپوزیشن،قومی سلامتی کے تقاضوں سے جو بے نیاز ہے۔ غداری کی بات نہیں۔ بجا طور پر کہا جاتاہے کہ غداری کے سرٹیفکیٹ تقسیم کرنے کاکسی کو کوئی حق نہیں۔ ایک اخبار نویس کیا، حکومت کو بھی نہیں۔ یہ عدالت کا کام ہے۔ سوال دوسرا ہے کہ قومی تحفظ کے باب میں بے حسی کیا آخری درجے کی کم عقلی نہیں۔ مولانا فضل الرحمٰن اور اویس نورانی سے بحث نہیں۔ محمود اچکزئی سے تو بالکل بھی نہیں جو یہ کہتے ہیں کہ افغان سرحد پر لگائی جانے والی باڑ کو اکھاڑ کر پھینک دیا جائے گا۔ نکتہ وہی ہے کہ کوئی لیڈر یا گروہ قومی سلامتی کے تقاضوں کو بے دردی سے نظر انداز کیسے کر سکتاہے۔ یہ بھارت کا خواب ہے کہ پاکستان کو مٹا دے۔ یہ اسرائیل کی تمنا ہو سکتی ہے۔ امریکی آرزو یہ ہے کہ پاکستان اس بلاک کا حصہ بن جائے، امریکہ نے جو چین کے خلاف مرتب کیا ہے۔ بھارت اور اسرائیل ہی نہیں، جس میں جاپان اور آسٹریلیا بھی شامل ہیں۔ خیر سے اب بعض عرب ممالک بھی۔ ایک عرب ملک کو، جسے دل و جان سے ہم عزیز رکھتے تھے۔۔۔سچی بات تو یہ ہے کہ اب بھی رکھتے ہیں۔۔۔ تازہ خبر یہ آئی ہے کہ ترک برگر کا نام بدل کر یونانی برگر رکھ دیا گیا ہے۔ کیا تماشا ہے۔ کیسا یہ اندازِ فکر ہے۔ انتقام کا شکار ہو کر ذہن جب مسخ ہو جاتے ہیں تو ایسے ہی کمالات دکھاتے ہیں۔ پاکستانی معیشت اگرچہ تمام دوسرے ممالک کی طرح کرونا کا شکار ہوئی۔مزید یہ کہ پچھلی حکومتیں قرضوں کے انبار چھوڑ گئیں۔ اس کے باوجود پی ٹی آئی حکومت کی حماقتوں کا دفاع نہیں کیا جا سکتا۔دعوے بڑے بڑے تھے، تیاری برائے نام بھی نہ تھی۔ کابینہ اور سرکاری افسروں کا انتخاب سطحی پن کا کھلا مظہر ہے۔ وزیرِ اعظم سیاست کو سمجھتے ہیں اور نہ معیشت کو، مردم شناس ہیں، نہ معاملہ فہم۔چینی اور آٹے کے بحران سمیت اشیائے خورونوش کی بے کراں گرانی اسی کے شاہکار ہیں۔ گندم اور شکر کی گرانی کا کوئی تعلق کرونا سے نہیں، بدانتظامی سے ہے۔ اگرچہ سول سروس کا عدم تعاون بھی۔ ذمہ دارصرف افسر شاہی نہیں، سرکار بھی ہے۔ اوّل دبانے اور ڈرانے کی کوشش کی۔ پھر رجھانے کی۔ دونوں کوششیں ناکام ہو ئیں۔ یہ ایک ناکام حکومت ہے۔ اس کی پالیسیاں ناقص ہیں۔ یہ سندھ کے جزائر پر قبضہ کرنے کے لیے آرڈی ننس جاری کرتی ہے۔ اس کے لیڈر مضحکہ خیز بیانات دیتے ہیں۔ میڈیا سیل تو الگ رہے، وزیرِ اعظم کابینہ کے ان ارکان کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں کہ ہمہ وقت وہ اپوزیشن کی تذلیل کرتے رہیں۔ اعلان فرماتے ہیں کہ گرفتار شدہ ارکانِ اسمبلی کے پروڈکشن آرڈر جاری نہیں کیے جائیں گے۔ منہ پہ ہاتھ پھیر کر کہتے ہیں، میں تم سے نمٹ لوں گا۔ ہر روز ارشاد کرتے ہیں ’’چھوڑوں گا نہیں‘‘ کوئی بتانے اور سمجھانے والا نہیں کہ حضور یہ آپ کا نہیں، نیب اور ایف آئی اے کا کام ہے، بالخصوص نیب کا، چٹے دن کی روشنی میں جسے خسرو بختیار کی شوگر ملیں دکھائی نہیں دیتیں۔ مرکز سے پنجاب کو کنٹرول کرنے کی حکمتِ عملی پہ بات کرنے کو جی نہیں چاہتا۔ ایک ناقص باورچی اور ایک نا سمجھ ڈرائیور کے ہم متحمل نہیں ہوتے لیکن بارہ کروڑ کے صوبے کو ایک ایسے وزیرِ اعلیٰ کے حوالے کر رکھا ہے، جو تجربے سے محروم اور فہم و فراست سے پاک ہے۔الزام ہے کہ ٹرائبل تحصیل ناظم تھے تو گھوسٹ ملازم رکھ چھوڑے تھے، جن کی تنخواہیں اپنی جیب میں ڈال لیا کرتے۔ تقرر کے پہلے دن ہی ناچیز نے اس الزام کاذکر کیا تھا لیکن نہ کوئی تحقیق ہوئی، نہ جواب دینے کی زحمت۔ ان گنت کہانیاں وزیرِ اعلیٰ کے بارے میں گردش میں ہیں۔ الکحل کا پرمٹ ابھی کل کا قصہ ہے۔ سبکدوشی کے بعد وزیرِ اعلیٰ کے لیے غیر معمولی مراعات کا بل ابھی پچھلے برس کی بات ہے، عوامی دباؤ پر جسے روکنا پڑا۔تونسہ اور تحصیل کوہِ سلیمان کے بارے میں ایسے ایسے واقعات سننے میں آتے ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ ایسی حکومت پہ تنقید روا ہے۔ اپنے موقف کے اظہار کا اپوزیشن کو حق ہے لیکن کوئی آداب، کوئی حدود؟ قومی امنگوں اور ملکی مفادات کا کوئی احساس؟ عجیب اپوزیشن ہے، عجیب حکومت۔ فاروقِ اعظمؓ سے پڑوسی نے کہا: میں تو آپ سے تنگ آگیاامیر المومنین! رات گھر والوں کو آپ ڈانٹتے رہے، حتیٰ کہ کسی کو کوڑا بھی رسید کیا۔ جلیل القدر منتظم نے، زمین جس کے قدموں تلے کانپ اٹھتی تھی، عاجزی سے سر جھکا لیا۔پھر یہ کہا: کسی اور کو نہیں، میں خود کو کوس رہا تھا کہ ایک غلطی سرزد ہو گئی تھی۔ کوڑا بھی خودہی کو رسید کیا تھا۔ ریاستِ مدینہ کی وزیر اعظم محترم بات کرتے ہیں، کیا انہیں ادراک ہے کہ ریاستِ مدینہ تھی کیا؟ اس کے مکینوں کا کردار اوراندازِ فکر کیا تھا؟