رشتۂ باد کیا حباب کے ساتھ آب ملتا ہے آخر آب کے ساتھ عشق والوں کی اپنی دنیا ہے مت چلائو انہیں نصاب کے ساتھ بہرحال حباب آخر پھوٹ کر پانی میں ضم ہو جاتا ہے۔ وہی کہ ہستی اپنی حباب کی سی ہے‘مگر پھر بھی میر نے کائنات سے حظ اٹھایا اور فطرت کی بو قلموئی پر نظر کی۔نازکی اس کے لب کی کیا کہیے، پنکھڑی اک گلاب کی سی ہے‘اس طرف نکتہ سنج غالب نے بھی کمال انداز میں دیکھا۔ہوس کو ہے نشاط کار کیا کیا ،نہ ہو مرنا تو جینے کا مزہ کیا۔ ایسی باتوں کا ایسے ہی خیال آ گیا کہ سامان سو برس کا ہے پل کی خبر نہیں۔ میں آپ کو بہت سنجیدہ ہرگز نہیں کرنا چاہتا۔بس ایسے ہی ذھن میں آ گیا کہ یہ ہماہمی افراتفری اور ہنگامہ خیزی سب کیا ہے ،وہ تو سب درست ہے مگر زمینی حقائق تو سامنے نظر آ رہے ہیں۔حیرت اس پر ہوتی ہے کہ عید پر کسی کو کہاں جانا ہے۔ انتباہ بار بار یہ کیا جا رہا ہے کہ گھرپر ہی رہیں۔ ناصر کاظمی نے تو کسی اور سیاق و سباق میں کہا تھا کہ کپڑے بدل کر جائوں کہاں اور بال بنائوں کس کے لئے‘اب تو سچ مچ گھر پر ہی یہ تہوار گزاریں گے پھر اسلم کولسری کا شعر سامنے آ جاتا ہے۔ عید کا دن ہے سو کمرے میں پڑا ہوں اسلم۔ گھر کے دروازے کو باہر سے مقفل کر کے۔نہیں نہیں ایسی بات بھی نہیں، بچے جو ہیں رونق لگانے کے لئے، سویاں اور پھیونیاں تو عیدی کے ساتھ آتی ہیں۔ ویسے عید ہوتی ہی بچوں کی ہے۔آپ کو بھی تو بچپن یاد ہو گا کہ جب ایک تھر ل کے طور میٹھا پان کھایا جاتا تھا اور اپنے بوسکی کے کرتے کو لال کیا جاتا تھا۔ پھر چنے اور دوسرے لوازمات۔ ہاں یہ الگ بات کہ مہنگائی کے باعث کوئی بچہ ہزار کے نوٹ پر بھی خوش نہیں ہوتا۔ کچھ چالاک بچے روزے رکھنے کے پیسے بھی طلب کرتے ہیں۔ والدین کو ان کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔ ایسے ہی یاد آیا کہ ہماری ایک روایت ہے۔ میری والدہ باقاعدہ اہتمام کرتی تھیں کہ دروازے پر آیا ہوا کوئی فقیر واپس نہ جائے۔ ہر کوئی امید لگا کر آتا ہے عید کی خوشیوں میں ان کا خیال آپ کو طمانیت بخشے گا۔نبی پاکؐ کی خاص طور پر یتیموں کے لئے جو محبت اور پیار تھا پڑھیں تو آنکھیں بھر آتی ہیں۔ بس کوئی اتنا سوچ لے اور ڈھونڈ کر یتیموں کو مسکراہٹیں دان کرے تو آپ عید کی روح کو پالیں گے۔ صرف فطرانے پر اکتفا نہ کریں۔ ایسے ہی اظہار شاہیں یاد آئے۔ میں نے آج اس قدر سخاوت کی آخری شخص لے گیا مجھ کو۔ اللہ بھی تو انفاق کی تلقین کرتا ہے انفاق کا مطلب ہے خرچ کرو اور اللہ بڑھاتا جائے گا۔ اب ذرا سی بات موجودہ سیاست پر ہو جائے کہ شہباز شریف صاحب کے پر کھول دیے گئے ہیں اور سوئے لندن پرواز کے لئے پرتول رہے تھے کہ انہیں روک دیا گیا ۔ خیر ان کا جانا تو شاید ٹھہر گیا ہے مگر ان کے اس دورے پر بہت مضمون باندھے جا رہے ہیں۔پی ٹی آئی کے دوستوں میں تو اس رہائی پر تشویش پائی جاتی ہے۔ میرا خیال ہے کہ اداروں کے فیصلوں کا احترام ازبس کرنا ضروری ہے وگرنہ انارکی پھیلے گی۔ یہ پہلے بھی ہوتا آیا ہے کہ جب حکومتیں عدالتوں کے فیصلوں میں مطابقت نہیں پاتیں تو انصاف کو ٹارگٹ کرتی ہیں۔ میں تو ایک اور پریشانی میں مبتلا ہوں کہ بات ایسی ہے کہنے کا یارا نہیں۔ایسی صورتحال ملک و قوم کے حق میں نہیں کہ ایسے محسوس ہونے لگے کہ ایک ادارہ حکومت کے پیچھے کھڑا ہو اور دوسرا ادارہ اپوزیشن کی پشت پر۔یہ دونوں ادارے اگر عوام کی بھلائی مد نظر رکھیں تو ہم ان کی بلائیں لیں گے۔ چوروں اور ڈاکوئوں کا احتساب سب چاہتے ہیں مگر سارے ڈاکوئوں اور چوروں کا۔ یہ بات خان صاحب کی سمجھ میں آ جانی چاہیے کہ اصل مسئلہ کارکردگی کا ہے۔ چلیے ان کا تازہ دورہ ثمر بار ہو کہ پتہ چلا ہے انہیں 500ملین ڈالر ملے گے۔قرضے ہم ٹھیک ٹھاک لے چکے مگر غریب آدمی کو ایک دھیلے کا ریلیف نہیں ملا بلکہ اس کو زندگی گزارنا مشکل ہو گئی ۔ مگر یہ مہنگائی اور بے روزگاری، کون نہیں جانتا کہ خان صاحب کو لوگوں نے بے انتہا محبت دی اور اعتماد کیا مگر وہ کس قدر مایوس ہو گئے۔ابھی میں ایک کالم نگار کو سن رہا تھا کہ کیسی عجیب بات ہے کہ لوگ اسحاق ڈار کو یاد کرنے لگے ہیں اور تو اور شوکت ترین نے حکومت کی ساری غلطیاں واشگاف الفاظ میں بیان کر دیں۔ مطلب ان کا یہ تھا کہ آئی ایم ایف ہوش کے ناخن لے۔ وہ جو کہتے یں کسی کی اخیر نہیں دیکھنی چاہیے۔تقریروں سے پیٹ نہیں بھرتے: کوئی آنکھوں میں لے کر وفا کے دیے دیکھ بیٹھا ہے رستے میں تیرے لئے ایک خوشخبری شاہ محمود قریشی نے سنائی ہے کہ اگلے دس سال میں سعودی عرب کو دس ملین افرادی قوت درکار ہو گی۔ زیادہ حصہ پاکستان سے لیا جائے گا۔کروڑ ملازمتیں جن کا وعدہ خان صاحب نے کیا تھا مگر اس کے ساتھ 50لاکھ گھر بھی تھے۔ سنا ہے اس کے لئے بھی زمینیں دیکھی جا رہی ہیں۔ شاید اگلے دو سال میں یہ بھی ہو جائے اور پھر انہیں بنانے کے لئے اگلے پانچ سال بھی ان کو چاہیے ہونگے۔ ایسے ذھن میں آ گیا۔ کون جیتا ہے تیری زلف کے سر ہونے تک۔چلیے کچھ تو ہے ،کسی نے کہا تھا،عدہ نہ وفا کرتے‘وعدہ تو کیا ہوتا۔ ایک امید تو وابستہ رہتی ہے جو بھی ہے پاکستان کے لوگ آسمان کی طرف تک رہے ہیں جیسے بارانی زمینوں والے ہر آنے جانیوالوں سے پوچھتے ہیں‘ کوئی بادل وادل نظر آیا کہ نہیں: دشت کی پیاس بڑھانے کیلئے آئے تھے ابر بھی آگ لگانے کیلئے آئے تھے سیاسی صورتحال بہرحال بہت دلچسپ ہے ۔کسی نے درست کہا کہ اب خان صاحب کے لئے نواز اور مریم سے زیادہ خطرناک شہباز شریف ہیں۔وہی جو خالد شریف نے کہا تھا‘ نہ اترے گا ہمارے پیار کا رنگ یہ دھیما ہے مگر کچا نہیں ہے‘پیپلز پارٹی اپنی جگہ خوش ہے۔ ویسے تو یہ خوش گمانیاں سمجھ سے باہر ہیں کہ پیپلز پارٹی کے ووٹ پنجاب میں سو دو سو ہی نکلتے ہیں۔ مگر گھوڑوں میں شمار رہنا بھی مجبوری ہے۔ بڑا سوال یہ ہے کہ کیا نواز شریف منہا ہو سکیں گے۔ تو شہباز شریف ہمیشہ بی بے بچے بن کر رہے ہیں۔وہ بہت صابر شاکر اور بجھے ہوتے ہیں : ہم تو پہلے ہی تیرے حق میں تہی دست ہوئے ایسے گھائل پہ نشانے کی ضرورت کیا تھی کبھی کبھی تو ایسا لگتا ہے جن دو اداروں کو ہم متحارب سمجھ رہے ہیں۔ وہ ایک سطح پر جا کر ایک ہی ہیں کہ مل جل کر موجودہ بحران سے نکلا جائے کہ کسی پر بھی حرف نہ آئے۔ کیا کیا جائے: اس کو بھی بچانا ہے خود کو بھی بچانا ہے اک سمت ہے ذات اس کی اک سمت زمانہ ہے