پانچ دن پہلے جو عید آئی وہ ایک نہیں چار چار سنگ میل گاڑتی گزر گئی اور یوں خود بھی ایک سنگ میل بن گئی پہلا سنگ میل یوں کہ اس بار‘ ملکی تاریخ میں پہلی بار عید کی خریداری میں 20ارب روپے کی کمی ہوئی۔ اب تک کی روایت تو یہی تھی کہ ہر آنے والی عید پر پچھلی عید سے زیادہ خریداری ہوتی تھی لیکن روایت شکن اور روایت ساز حکومت نے یہ نقش کہن بھی مٹا دیا اور نئی روایت بنائی۔ طویل عرصے کے بعد اس بار یہ بھی پہلی مرتبہ ہوا کہ والدین کی اچھی خاصی تعداد نے بچوں کو نئے کپڑے جوتے خرید کر نہیں دیے۔ جوتے مرمت کرنے والوں کے ہاں خوب رش تھا۔ پرانے جوتوں کی پیوند کاری ہو رہی تھی۔ والدین نے بچوں کو یہ ’’نئے‘‘ جوتے دیئے اور عمران کو دعائوں کا تحفہ بھیجا۔ عمران کی حکومت نہ ہوتی تو پرانے جوتوں کی قیمت بھلا یوں چمکتی۔ برسبیل تذکرہ عید انہی دنوں آئی جب عمرانی حکومت کے نو ماہ پورے ہو رہے تھے اور یہ خبر آئی کہ اس عرصہ میں حکومت کے اخراجات میں 700ارب روپے کا اضافہ ہوا ہے۔ حکومت چاہے تو اسے کفایت شعاری کا نام دے دے۔ ماضی میں البتہ انہیں اللے تللے کہا جاتا تھا۔خوب ہے ہر جگہ کمی ہی تو نہیں ہو رہی کہیں نہ کہیں اضافہ بھی ہو رہا ہے۔ اللے تللے کی پھبتی بہرحال افطار پارٹیوں پر نہیں لگائی جا سکتی۔ اس لئے گورنر پنجاب کا ذکر اچھے لفظوں ہی میں کرنا پڑے گا جنہوں نے پارٹی کے چالیس ہزار مستحقین کو گورنر ہائوس بلا کر سموسے پکوڑے کھلائے ‘یخ مشروبات پلائے یہ بھی کفایت شعاری ہی کا ایک باب تھا لیکن اسے سات سو ارب روپے والی کفایت شعاری میں مت جوڑیے کہ صوبے کی کفایت شعاری کا دریا وفاقی دریا کے متوازی ہی سہی‘ ہے تو الگ۔ ٭٭٭٭٭ دوسرے سنگ میل کا عنوان اجتہاد ہے۔ عید 29روزوں کے بعد آتی ہے یا 30کے۔ اورایسا چودہ صدیوں سے ہوتا چلا آ رہا ہے۔ لوگ کہا کرتے ہیں کہ عید وہ جو 29روزوں کے بعد آئے۔ 30کی عید بھی بھلا کوئی عید ہوئی۔ مطلب ان کا عید کے عید ہونے سے انکار نہیں بلکہ یہ بتانا ہے کہ 29روزوں کے بعد چاند نظر آئے تو سرپرائز ہوتا ہے۔30روزے پورے ہونے پر کوئی بھی چاند دیکھنے چھت پر نہیں آتا۔ اس لئے کہ 30کے بعد تو عید نے آنا ہی آنا ہے۔ حکومت نے اجتہاد کیا اورتجرباتی بنیادوں پر ایک صوبے میں 28روزوں کے بعد عید کرا دی سرپرائز اوور دی سرپرائز۔ فواد چودھری اس پر گویا ہوئے کہ پختونخواہ کی حکومت نے جھوٹ بولا۔ جھوٹی عید کرائی۔ پختونخوا کے وزیر شوکت یوسفزئی نے یہ ہوشربا انکشاف کر کے ان کے ہوش اڑا دیے کہ عید کا اعلان وزیر اعظم کے کہنے پر کیا۔ گویا وزیر اعظم رویت ہلال کمیٹی کے ڈی فیکٹو چیئرمین بھی بن گئے۔یہاں سوال ہو گا کہ وزیر اعظم نے ایک ہی صوبے میں 28روزوں کی عید کیوں کرائی۔ جواب یہ ہے کہ تجرباتی بنیادوں پر ایک صوبے کو چنا ہو گا۔ اگلے برس استخارے کا دائرہ ملک گیربھی ہو سکتا ہے۔ یہ اجتہاد ہمیں تو پسند آیا اتنے لگاتار روزے رکھنے سے آدمی تھک جاتا ہے کوئی تو ایسا اجتہاد بھی ہو کہ ان کی گنتی کم کر کے 20عدد کر دی جائے اور پھر بیچ میں ویکلی آف (ہفتہ واری تعطیل) بھی ہو تو اجتہاد کا مزہ ہی آ جائے۔ ٭٭٭٭٭ تیسرا سنگ میل دو عیدوں کا تھا یعنی یہ کہ دو عیدوں کی روایت تو خیر پہلے ہی سے موجود ہے لیکن پہلی بار ایسا ہوا کہ خود سرکار نے دو عیدیں کرائیں۔ پختونخواہ میں بھی پی ٹی آئی کی حکومت ہے اور وفاق میں بھی۔ یوں قومی یکجہتی کی نئی تعریف بھی متعین ہو گئی ہر سال دو عیدیں دو الگ الگ حکومتیں کرتی تھیں۔ اس بار بھی حکومت نے کی۔ اسے ہی تو اصلی یکجہتی کہتے ہیں ٭٭٭٭٭ اس سارے قضیے میں ہمدردی جس کردار سے ہوئی چاہیے اس کا نام فواد چودھری ہے انہوں نے قمری کیلنڈر دریافت کیا تھا(ایجاد تو صدی بھر پہلے ہی ہو گیا تھا‘ ہر سال کیلنڈروں اور ڈائریوں میں چھپتا بھی ہے) خیال تھا کہ اس دریافت پر انہیں کوئی انعام ملے گا کسی اعزاز سے نوازا جائے گا۔ لیکن ہوا کیا انہی کی جماعت کی صوبائی قیادت نے اس کیلنڈر کا ’’شوارما‘‘ بنا کے ابھرتے ہوئے سائنس دان کے ہاتھ میں تھما دیا۔ اب یہ کمسن سائنس دان آنے والی بکرا عید اوریکم محرم کو پھر یہی کیلنڈر نافذ کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ سچ ہے’’ عزت افزائی‘‘ جتنی بھی ہو کم ہے نوعمر سائنس دان کو بھی ہل من مزید والی طلب ہے۔