دوحہ میں امریکہ اور طالبان کے درمیان، مذاکرات کے از سر نو آغاز کے ساتھ اب یہ یقینی لگ رہا ہے کہ فریقین سنجیدگی کے ساتھ کسی معاہدے کو حتمی شکل دینے میں مصروف ہیں۔ حال ہی میں اسلام آباد اور آزاد کشمیر کے دارالحکومت مظفر آباد میں انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز کی طرف سے منعقد ایک سمینار میں افغانستان میں حزب اسلامی کے ایک اہم راہنما اور ملکی انتخابات میں نائب صدر کیلئے امیدوار پروفیسر فضل ہادی وزین سے ملاقات ہوئی۔ مظفر آباد سے گڑھی حبیب اللہ ، مانسرہ اور ایبٹ آباد کے راستے اسلام آباد واپسی کے دوران کوچ میں پروفیسر وزین نے افغانستان کی سیاست ، امن مساعی کے حوالے سے کئی دریچے کھول دیئے۔ میں ان سے سوالات کر رہا تھا، وہ انتہائی دھیمے لہجے میں ایک استاد کی طرح خاصے منفرد اور دل کو چھو لینے والے انداز میں دلائل سے مجھے قائل کرانے کی کوشش کر رہے تھے۔ ان کے ساتھ سوالات و جوابات کا سلسلہ اتنا طویل ہوگیا کہ اسلام آباد کب آن پہنچا، پتہ ہی نہیں چل پایا۔ میرے ساتھ کوچ میں بیٹھتے ہی ، میں نے ان سے سوال کیا کہ افغانستان میں امن کے حوالے سے کیا پیش رفت ہو رہی ہے اور امریکہ ۔طالبان مذاکرات کا کیا مستقبل ہے؟ کابل کی سلام یونیورسٹی میں اسلامیات کے استاد پروفیسر وزین نے کہا کہ دوحہ میں مذاکرات کے احیاء سے سبھی نے چین کی سانس لی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ مثبت پہلو یہ ہے کہ فی الوقت سبھی فریقین و اسٹیک ہولڈرز افغانستان میں امن و استحکام کے متمنی ہیں۔ افغانستان نہ صرف جنوبی ایشاء اور وسط ایشاء بلکہ مغربی ایشیا یعنی ایران کیلئے بھی ایک پل کا کام کرتا ہے۔ اسلئے افغانستان میں عدم استحکام کا براہ راست اثر پورے خطے پر پڑتا ہے۔ ’’افغانستان سے غیر ملکی افواج کا انخلاء صرف طالبان کا ہی پرجیکٹ نہیں ہے، بلکہ افغان عوام میں اب غیر ملکی مداخلت کے خلاف ایک ماحول سا بن گیا ہے۔ وہ اپنے اندرونی معاملات میں اب بیرونی مداخلت کے قائل نہیں ہیں۔امریکیوں کو معلوم ہے کہ وہ 18سالہ جنگ ہار چکے ہیں۔ وہ ہار کا لفظ استعمال کرنے سے ہچکچا رہے ہیں۔ وہ بس ایک باعزت واپسی کا بہانہ ڈھونڈ رہے ہیں۔ مغربی ممالک کی پالیسی کہ بہانہ ایران، ٹھکانہ افغانستان اور نشانہ پاکستان، اب زا ئدالمعیاد ہو چکی ہے۔‘‘ دوحہ میں طالبان کے ساتھ امریکی مذاکرات کے حوالے سے افغان سیاست دان کا کہنا تھا کہ ملک میں سیاسی جماعتیں خاصی پر امید ہیں۔ گو کہ امریکہ کے سیماب صفت صدر ٹرمپ نے پچھلے ستمبر میں ان مذاکرات کو منسوخ کر دیا تھا، مگر بقول ان کے ، پس پردہ فریقین روابط بنائے ہوئے تھے۔ ابھی تک اب امریکہ اور طالبان کے درمیان دس دور کے مذاکرات ہو چکے ہیں۔ پروفیسر صاحب کا کہنا تھا کہ ان کی معلومات کے مطابق غیر ملکی افواج کے انخلاء پر ایک کیلنڈر تیار ہو رہا ہے۔ مگر طالبان کو جنگ بندی پر آمادہ کروانا اور انخلاء کے ساتھ ساتھ کابل میں ایک وسیع البنیاد حکومت کے قیام پر پیچ ابھی تک پوری طرح کسے نہیں گئے ہیں۔ ’’مجموعی طور پر مذاکرات میں خاصی پیش رفت ہوئی ہے۔ سمجھوتہ میں اب زیادہ وقت درکار نہیں ہوگا ۔ ایسا نہیں ہے کہ امریکہ ، طالبان یا افغان عوام کو کوئی رعایت دے رہا ہے، وہ خو د ہی افغانستان سے جلد از جلد چھٹکارہ حاصل کرنا چاہتا ہے۔‘‘ پروفیسر وزین ، جو خود کئی بار افغانستان کے اندر امن مساعی کے حوالے سے کردار ادا کر چکے ہیں ، نے خبردار کیا کہ امریکہ اور طالبان کے درمیان معاہدہ یا ڈیل امن مساعی کے زینہ کا بس ایک پایہ ہے، اسکو کئی اور عوامل سے گذرنا ہے۔ اس ڈیل کے فوراً بعد اگر افغانستان کے اند ر فریقین کے درمیان مذاکرات کا سلسلہ شروع نہیں ہوا، تو ملک ایک بار پھر خانہ جنگی کی آگ میں جھلس جائے گا۔ ’’اسلئے تمام اسٹیک ہولڈز کیلئے لازم ہے کہ ایک حتمی اور پائیدار امن کی خاطر افغانستان کی سبھی سیاسی جماعتوں، طالبان اور کابل حکومت کے درمیان مذاکرات کے سلسلے اور روابط پر دھیان مرکوز رکھیں۔ ورنہ اس امن مساعی کا بھی وہی حشر ہوگا ، جو ماضی میں ہوتا آیا ہے۔ دوسرے مرحلے کے یہ مذاکرات امریکہ ۔طالبان مذاکرات سے زیادہ پیچیدہ ہونگے۔ ان مذاکرات میں ملک کے آئین، نظام حکومت اور دیگر اہم امور کا تعین کیا جائیگا۔ میں نے سوال داغا کہ سویت جنگ کے دوران تو حزب اسلامی اور اسکے قائد گلبدین حکمت یار کا طوطی بولتا تھا۔ حکمت یار اس کے بعد تو دو بار وزیر اعظم کے عہدے پر بھی براجمان رہے۔ مگر طالبان کے وجود میں آنے کے بعد تو وہ اچانک منظر نامہ سے غائب ہو گئے اور پھر 2016 ء میں کابل میں وارد ہوگئے۔ اس وقت ان کی کیا حیثیت ہے؟ پروفیسر صاحب نے استادو ں کے انداز میں سمجھانے کی کوشش کی کہ جنرل حکمت یار منظر نامہ سے غائب نہیں تھے۔ وہ بس بیک گراونڈ میں تھے۔ ’’امریکی افواج کی مداخلت اور طالبان حکومت کے خاتمہ کے بعد حزب اسلامی ہی حکمت یار کے حکم کے مطابق امریکی افواج سے برسرپیکار تھی، جب تک طالبان نے مجتمع ہوکر دوبارہ طاقت حاصل کی۔ دوسال قبل ہم نے محسوس کیاکہ ملک اب مزید جنگ و جدل کا متحمل نہیں ہوسکتا ہے ، نیز افغانستان کے حالات کا براہ راست اثر ہمسایہ ممالک خصوصاً پاکستان پر پڑتا ہے۔ اسلئے حکمت یار نے کابل آکر پس پردہ امن کیلئے کوششیں شروع کردی۔ انہوں نے کافی کام کیا، جن کے نتائج اب آپ کے سامنے ہیں۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ حال میں ہوئے صدارتی انتخابات سے قبل حکمت یار نے پیس اینڈ اسلامک جسٹس پارٹی لانچ کی اور نوزائیدہ پارٹی کے ٹکٹ پر انتخابات میں قسمت آزمائی کی۔ (جاری ہے)