واقف کاروں میں ایک صاحب راسخ العقیدہ محب وطن ہیں۔ ان کی کرم فرمائی ہے کہ دو اڑھائی ہفتوں میں ایک آدھ بار تشریف لاتے ہیں اور شرف زیارت سے مشرف فرماتے، محب الوطنانہ گفتگو سے سرافراز فرماتے ہیں۔ چار کنال کی حویلی میں رہتے ہوئے چل کر ایسے کے پاس آنا جو آٹھ مرلے کے کرائے کے گھر میں رہتا ہو، ان کی عظمت کردار کی کھلی نشانی نہیں تو اور کیا ہے۔ سخت گیر محب وطن ہونے کے باوجود لہجے میں اعتدال ہے۔ کسی مخالف کو غدار نہیں کہتے، بس یہ کہنے پر اکتفا کرتے ہیں کہ تمہاری باتوں سے غداری کی بو آتی ہے۔ ایک بار دوران گفتگو غلطی سے آئین کی بالادستی او رشہری حقوق جمہوریت وغیرہ کی بات کر دی۔ سخت برہم ہوئے لیکن لہجہ نرم رکھا، بس اتنا فرمایا کہ لگتے تو نہیں ہو پر کیا پتہ۔ عرض کیا، کیا نہیں لگتا ہوں۔ فرمایا، لگتے تو نہیں ہو لیکن باتیں را کے ایجنٹ جیسی ہی کرتے ہو۔ گزشتہ روز اچانک تشریف لائے۔ دروازہ کھولا تو قدم رنجہ فرمایا، لیکن پھر فوراً ہی قدم غیر رنجہ فرما لیا۔ یعنی دہلیز کے اندر رکھا ہوا قدم پلٹا لیا اور کہا، دراصل بیٹھنے کا وقت نہیں۔ سوچا کھڑے کھڑے مل لوں۔ سنائو کیا حال ہے۔ کچھ سنا تم نے، ادھر لاہور میں کیا غضب ہوا؟ حیرت سے پوچھا کیا غضب ہوا۔ بولے، دراصل یہ موم بتی مافیا کے لوگ ہیں۔ موم بتی مافیا؟ کیا یہ لوگ موم بتیاں بلیک میں بیچتے ہیں؟ خفا ہو کر بولے، اتنا بھی نہیں جانتے۔ آئے روز مال روڈ پر موم بتیاں جلاتے ہیں۔ ایک بار تو خود دیکھا، وہ قبلہ رائو صاحب نے کسی بے کار سے لڑکے کو کیا پھڑکا دیا، لے آئے موم بتیاں اس کی یاد میں جلانے، کیا نام تھا نقیب اللہ کہ نجیب اللہ۔ اب اس کا باپ مر گیا ہے، دیکھنا یہ پھر موم بتیاں جلائیں گے۔ مافیا کم بخت، بھارت کے ٹکوں پر پلتے ہیں۔ کیا کہتے ہو؟ عرض کیا، بجا ارشاد فرمایا۔ کم بخت نہایت خبیث ہیں۔ خوش ہو کر آدھے ہاتھ سے مصافحے کا اعزاز بخشا، جاتے ہوئے رنجیت سنگھ کا ایک مجسمہ عطا فرمایا کہ گھر میں رکھو، برکت ہو گی۔ ٭٭٭٭٭ تفنن برطرف۔ لڑکوں کا یہ جلوس جسے محب وطن حلقے لال لال کہہ کر تیغ حب وطن کی سان پر رکھے ہوئے ہیں۔ مجھ جیسے غیر محب وطن کی نظر میں فرض کفایہ سے کم نہیں۔آئین، جمہوریت، نظریہ ضرورت سے پاک عدل، سماجی انصاف کے لیے لڑنا، کہنا، بولنا یوں تو سب پر فرض ہے لیکن چند گروہ بھی ادا کر دیں تو اس اجتماعی فرض کو فرض کفایہ جان کر مطمئن ہو جانا بھی کافی ہے لیکن یہاں تو سب کو چپ لگی ہے۔ ایک مولانا فضل الرحمن میدان میں کھڑے ہیں۔ باقی کا حال عیاں ہے۔ نیب زدہ مسلم لیگ آب زدہ بلی بنی ہے۔ ایسی کہ میائوں بھی سنائی نہیں دیتی۔ پیپلزپارٹی کے بلاول بھٹو ہفتے دس دن میں ایک زوردار جلسہ اور تقریر کر دیتے ہیں، پھر ادھر بھی خاموشی، ہفتے دس دن میں ایک آدھ تقریر سے موسم پر کچھ اثر نہیں پڑتا۔ اب تو خیر، عمران حکومت نے لوڈشیڈنگ ختم کر دی ہے۔ اے این پی خاموش، بی این پی خاموش، میپ خاموش، جماعت اسلامی’’اکو کاف مینوں درکار‘‘ کی تصویر بنی ہوئی ہے۔ کافی یعنی کشمیر وہی جو کبھی مقبوضہ تھا، اب مضمومہ Annexed ہے۔ ایسے میں چند ہزار نوجوان لاہور اور ملک کی دوسری چپ بستیوں میں نکلے ہیں تو اسے امید کی کرن کیوں نہ سمجھیں۔ ٭٭٭٭٭ ان لال لال جلوسوں پر ایک اعتراض ہے کہ یہ کمیونزم لانا چاہتے ہیں۔ کیسے؟ کمیونزم تو اب گڑا مردا بھی نہیں رہا۔ گلا مردہ بن چکا ہے۔ یہ لال لال کے نعرے کمیونزم کا آوازہ کیوں سمجھیں، اسے رستا خیز کا نقارہ کیوں نہ سمجھیں‘‘ ٭٭٭٭٭ ایک پرانی بات یاد آئی۔ ہائی سکول کے زمانے کی۔ ملک کی گویا کایا کلپ ہو رہی تھی۔ نئے نئے اخبارات نکل رہے تھے۔ اخبارات یعنی اس دور کا واحد میڈیا۔ سبھی اخبار، کیا آزاد، کیا پریس ٹرسٹ والے محب وطن تھے، اچانک شہرہ ہوا کہ سرخے بھی اخبار نکال رہے ہیں۔ سرخے یعنی غدار، وقت کے مودی کے یار، نام تھا روزنامہ آزاد۔ ہمارے چھوٹے سے شہر میں اس کی دس کاپیاں آتی تھیں۔ تب کے اعداد و شمار اچھی طرح یاد ہیں۔ جنگ کی پانچ ساڑھے پانچ سو، مساوات کی تین سو، حریت اور جسارت کی پچاس پچاس، مشرق کی 20کاپیاں آتی تھیں۔ چار پانچ سو سندھی اخبار ھلال پاکستان، دو اڑھائی سو عبرت، پچاس مہران، اتنے ہی الوحید۔ آزاد کے دس خریداروں کا دسواں میں تھا۔ پوری توجہ سے اسے پڑھتا۔ کوئی خبر یا مضمون بھارت کی ایجنسی کا نہیں ملتا تھا۔ واحد غداری والی بات یہ نعرہ تھا کہ غریبوں کو بھی جینے کا حق ہے۔ غداروں کا سدا بہار نعرہ۔ الٹا اس کے اداریوں اور مضامین میں کبھی منت ترلے سے کبھی انتباہ کی زباں میں یہ لکھا جاتا تھا کہ خدارا، ملک بچا لو، مشرقی پاکستان کو الگ نہ ہونے دو۔باقی تمام کے تمام اخبارات محب وطن تھے۔ مشرقی پاکستان کے ٹوٹنے کا کوئی اندیشہ ان میں نظر نہیں آتا تھا۔ جنگ لگ چکی تھی۔ باقی سارے اخبارات کے مطابق اُدھر کے فرزندان توحید عید کی نماز کولکتہ میں اور ادھر کے دہلی میں پڑھنے والے تھے۔ لال لال آزاد اکیلا اخبار تھا جو پاکستان کو بچانے کی بات کر رہا تھا۔ غدار کہیں کا۔ ٭٭٭٭٭