آئی پی ایس او ایس کے حالیہ سروے کے مطابق ہر پانچ میں سے چار پاکستانیوں نے ملک کی سمت کو غلط قرار دیا ہے، ریسرچ کمپنی کے اس سروے میں ایک ہزار افراد نے حصہ لیا جن میں سے56 فیصد نے آئندہ 6 ماہ میں ملکی معیشت خراب ہونے کا خدشہ ظاہر کیا۔سروے کے مطابق عدم اطمینان ظاہرکرنے والوں کی شرح 69 فیصد جبکہ اطمینان والوں کی شرح 31 فیصد نظر آئی۔ یہ سروے ملکی حالات کی صحیح تصویر کشی کر رہا ہے یا نہیں اور اس پر کس حد تک اعتبار کیا جا سکتا ہے یہ ایک الگ بحث ہے لیکن گورننس اور معیشت کا جو پتلا حال ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ گزشتہ دوسال سے زائد عرصے کے دوران تحریک انصاف کی حکومت نے کس حد تک ملکی اقتصادیات اور عوام کا معیا رزند گی بلند کیا ہے وہ اظہر من الشمس ہے۔ وفاقی ادارہ شماریات نے مہنگائی کے حوالے سے ہفتہ وار رپورٹ میں کہا کہ اگست کے آخری ہفتے میں مہنگائی میں 0.80 فیصد اضافہ ہوا، جس کے بعد مہنگائی کی شرح 9.47 فیصد تک پہنچ گئی۔ ادارے کے اعداد وشمار کے مطابق ایک ہفتے میں 20 اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اضافہ ہوا۔ ٹماٹر، پیاز، دال چنا، دال مونگ، گڑ، آلو، تازہ دودھ، دہی، لہسن، چکن، انڈے، ایل پی جی اور دیگر آئٹمز مہنگے ہوئے۔ ماہانہ بنیاد پر چینی 13.53 فیصد اور گندم 12 فیصد مہنگی ہوئی لیکن حکمران سب اچھا ہے کی رٹ لگائے جارہے ہیں۔ پہلے زور اس بات پر تھا کہ پی ٹی آئی کی پیشرو مسلم لیگ (ن) کی حکومت کرپشن، نااہلی اور نالائقی کی وجہ سے ملک کو دیوالیہ کر گئی تھی لیکن اب اس میں غداری الزامات کے تڑکے کا بھی اضافہ کر دیا گیا ہے۔ محترمہ مریم نواز کے شوہر نامدار کیپٹن (ر) صفدر پر غداری کا مقدمہ بنا دیا گیا ہے۔ خود مریم نواز پر بھی اس قسم کے الزامات عائد کئے جا رہے ہیں اور تو اور لاہور کے تھانہ شاہدرہ میں ’شہری‘ بدر رشید کی مدعیت میں سابق وزیراعظم نواز شریف اور مسلم لیگ ن کی قیادت کے خلاف مجرمانہ سازش، بغاوت اور لوگوں کو اکسانے کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کرلیا گیا۔ وزیراعظم آزاد کشمیر راجہ فاروق حیدر کے خلاف مقدمہ درج کر کے ہم دنیا بالخصوص بھارت کو کیا پیغام دے رہے ہیں، ایک طرف ہم، کشمیر بنے گا پاکستان، کا نعرہ لگاتے ہیں اور دوسری طرف ایسی حرکتیں کر کے کشمیریوں کو مایوس کر رہے ہیں۔ مقدمے کے بعد وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چودھری نے ایک ٹویٹ میں گونگلوؤں سے مٹی جھاڑتے ہوئے کہا‘ وزیراعظم کو اس ایف آئی آر کا کوئی علم نہیں تھا، جب میں ان کے علم میں لایا تواس پر انہوں نے شدید ناپسندیدگی کا اظہار کیا،وفاقی وزیر نے کہا ہوسکتا ہے کسی نے کارروائی ڈالنے کے لیے ایسا کیا ہو،جبکہ قبل ازیں وفاقی وزیر برائے ہوابازی غلام سرور خان نے نواز شریف کی تقریر پر ردعمل دیتے ہوئے کہا تھا عوامی دباؤکے تحت نواز شریف کے خلاف بغاوت کا مقدمہ درج کرنے کا سوچ رہے ہیں۔ انہوں نے یہ عندیہ بھی دے دیا ہے کہ حکومت شریف خاندان کے خلاف پاناما پیپرز کیس میں مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی رپورٹ کے دیگر والئمز کھول سکتی ہے۔ دوسری طرف ترجمان لاہور پولیس کا کہنا ہے کہ مقدمہ ریاست یا کسی ریاستی ادارے کی جانب سے نہیں بلکہ ایک پرائیویٹ شہری کی درخواست پر درج کیا گیا۔ شہباز گل نے ایک نیا شوشہ چھوڑا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز نے حال ہی میں لاہور کے کھوکھر پیلس میں بھارتی شہری سے ملاقات کی ہے۔انہوں نے یہ بتانا پسند نہیں کیا کہ اس بھارتی شہری کو ویزا کس نے جاری کیا۔ فیصل واوڈا کاکہنا ہے کہ نواز شریف اور بھارتی جا سوس کلبھوشن یا دیو میں کوئی زیا دہ فرق نہیں ہے۔ وزیر داخلہ بریگیڈیئر (ر) اعجا ز شاہ نے بھی اس خود سا ختہ ہسٹریا میں اپنا ڈول ڈالتے ہوئے فرمایاکہ فوج اور ملک کے خلاف سازشیں ناکام ہونگی۔رانا ثنا اللہ نے اپنے بیان میں درست کہا ہے کہ حکومتی کردار نے افواج پاکستان کو متنازعہ بنا دیا ہے۔ نہ جانے کس سقراط نے حکومت وقت کو مشورہ دیا ہے کہ اگر اپوزیشن پر کرپشن کے بعد غداری کے لیبل چسپاں کئے جائیں تو ان کا دھڑن تختہ ہو جائے گا لیکن اس قسم کے مباحثے سے نہ صرف موجودہ حکومت بلکہ پاکستان کا موقف کمزور پڑرہا ہے۔ بھارتی زعما کے بھی اسی قسم کے بیانات آتے رہتے ہیں لیکن اتنے تواتر سے نہیں جس طرح ہمارے ہاں حکومت کی پراپیگنڈا مشینوں نے اپوزیشن کے خلاف یلغار کر دی ہے۔ وہی گھسی پٹی باتیں، نواز شریف بھارتی ایجنٹ ہے یا حکومت اور اپوزیشن کا فلاں لیڈر غدار ہے جیسی گردان سن کرعوام کے کان پک گئے ہیں۔ ایک زمانے میں شیخ مجیب الرحمن پر غداری کا الزام لگایا گیا اوراگرتلہ سازش کیس بھی اس کی کڑی تھی اور پھر اسی مجیب الرحمن کو1974ء میں اسلامی کانفرنس کے موقع پر لاہور بلواکر بطور وزیراعظم بنگلہ دیش تا جپوشی کی گئی۔ دیکھا جائے تو نواز شریف سے لے کر مجیب الرحمن اور ذوالفقار علی بھٹو تک کتنے حکمران ہیں جن پر غداری کا الزام نہیں لگا اور بعدازاں ان کو ملک کا وزیراعظم بھی بنا دیا گیا۔خود میاں نواز شریف تین بار وزیراعظم منتخب ہوئے لیکن کوئی بھی ادارہ ان کے خلاف غداری کا کوئی مقدمہ نہیں بنا سکا۔ اس صورتحال کا واضح طور پرنتیجہ یہ نکلا کہ اس معاملے میں حکومتوں کی کارکردگی صفر ہے۔ آج کا غدار کل کا وزیراعظم بن جاتا ہے اور آج کا وزیراعظم کل کا غدار کہلاتا ہے۔ مہذب جمہوری ملکوں میں چھان بین، پھٹک اور شواہد اکٹھے کئے بغیر محض اپنے حریف کوگرانے کے لیے بلاثبوت غدار قرار دینا ایک انتہائی سنگین معاملہ سمجھا جاتا ہے لیکن یہاں تو سیاسی مخالف کو غدار قرار دینا وتیرہ بن کر رہ گیا ہے۔ حکومت کی اس روش پرمسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی چیخ اٹھی ہیں اور درست طور پر نشاندہی کررہی ہیں کہ اس قسم کے ہتھکنڈے ماضی میں کبھی کا میاب نہیں ہوئے۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ اس قسم کے بے سروپا الزامات وزیراعظم کی سطح پر بھی لگائے جا رہے ہیں۔ اس پس منظرمیں یہ قطعاً حیران کن نہیں ہے کہ مسائل میں گھرے ہوئے عوام کا مورال جیسا کہ آئی پی ایس اوایس کے سروے میں کہا گیا ہے کہ ہر پانچ میں سے چارپاکستانیوں کے معاملات جس نہج پر جا رہے ہیں برداشت سے با ہرہیں۔ اس کے بجائے کہ گورننس کے معاملات کو بہتر بنایا جائے، حکومت بھونڈے انداز میں الزام تراشی کے سوا کچھ نہیں کرپا رہی۔ وطن عزیز کا ہر شعبہ رجعت قہقری کا شکار ہے، ملکی شرح نمو میں اضافہ نہیں ہو رہا۔ ادارہ شماریات کے مطابق پاکستان کا تجارتی خسارہ ستمبر میں 19.49 فیصد اضافے کے بعد 2 ارب 39 کروڑ 10 لاکھ ڈالر تک جا پہنچا جبکہ گزشتہ برس کے اسی ماہ کے دوران یہ 2 ارب 10 لاکھ ڈالر تھا۔ قانون اور امن وامان کا یہ حال ہے کہ پنجاب کے دوردرازکے علاقوں کو توایک طرف رکھ دیں ،وسطی پنجاب میں بھی آبروریزی ،قتل،لوٹ ما ر کے واقعات بڑھتے ہی جا رہے ہیں اور سی سی پی او لاہور جنہیں بڑے طمطراق سے لایا گیا تھا خواتین کو مشورہ دیتے ہیں کہ وہ اکیلی گھر سے باہر نہ نکلیں، گویا کہ شہریوں کو ان کے اپنے حال پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کے سربراہ کی وزیراعظم ہر وقت پیٹھ ٹھونکتے رہتے ہیں کہ وہ وسیم اکرم پلس ہیں لیکن مختلف ہتھکنڈوں سے میڈیا پر سب اچھا کی خبریں چلوائی جاتی ہیں جنہیں دیکھ کر خان صاحب اور وسیم اکرم پلس بھی مطمئن ہو جاتے ہیں کیونکہ ایسی خبریں زمینی حقائق سے لگا نہیں کھاتیں۔ ویسے بھی اگرہم نے ایک روشن خیال اور ترقی یافتہ معاشرہ بننا ہے تو ہمیں ڈبیٹ کا معیار حب الوطنی کے سرٹیفکیٹ بانٹنے کے بجائے عوام کے اصل مسائل کے حل کرنے کی طرف دینا پڑے گا لیکن غالباً اس قسم کے بیانیے کا مقصد ہی یہ ہے کہ حکومت اپنی کوتاہیوں اور ناکامیوں کی پردہ پوشی کرتی رہے۔ تازہ خبر یہ آئی ہے کہ پیمرا نے ٹیلی ویژن پر فلم انڈسٹری کی معروف اداکارہ مہوش حیات کا بسکٹ اشتہار نشر کرنے پر پابندی لگادی ہے کہ اس سے فحاشی پھیلتی ہے۔