یہ ملک حکمران طبقے کے لئے بنا ہے وہ جو حکمرانی کر رہے ہیں۔ وہ جو حکمرانی کی کئی باریاں لے چکے اور ایک بار پھر اپنی باری کے انتظارمیں ہیں۔ اور وہ بھی جو کسی نہ کسی طور حکمرانی کے اس بندوبست کا حصہ ہوتے ہیں۔ جنہیں ہر حکومت میں ٹھیکے‘ کمیشن اور ثمرات حاصل ہوتے رہتے ہیں۔ تاجر‘ امرا‘ وزراء یہ ملک انہی کے لئے بنا ہے! باہر سے ایک دوسرے کے سیاسی مخالفین۔ ٹاک شوز اور سوشل میڈیا کو میدان جنگ بنائے۔ عوام کو ایک فریب میں مبتلا کرنے والے یہ شاطر سیاستدان اندر سے بالکل ایک ہیں۔ شیرو شکر ہیں۔ ایک دوسرے کے مفاد کی حفاظت کرنے والے ہیں اور اس کا عملی مظاہرہ قوم نے بدھ کے روز دیکھا جب پنجاب اسمبلی میں تینوں مخالف سیاسی جماعتوں کے نمائندوں نے ارکان اسمبلی کی تنخواہوں‘ مراعات اور سہولتوں میں اضافے کا بل اکٹھے پیش کیا اور مختصر ترین وقت میں بغیر کسی بحث و مباحثے اور چون و چرا کے وہ بل پاس ہو گیا یوں بظاہر ایک دوسرے کو گالیاں دیتے مگر اندر سے شیروشکر ان شاطر مفاد پرست سیاستدانوں نے بڑے آرام سے اپنی تنخواہوں اور مراعات میں سو فیصد سے زیادہ اضافہ کر لیا۔! اس ڈاکے کی تفصیل ذرا ملاحظہ ہو کہ کس طرح اپنی تنخواہوں اور مراعات میں اضافے کا بل 24گھنٹے میں قائمہ کمیٹی سے منظور کرا کر ایوان میں پیش کر دیا گیا جسے ایوان سے منظور کرانے میں محض پانچ منٹ لگے۔ یعنی صرف پانچ منٹ کے اندر اندر۔ ارکان اسمبلی لاکھ پتی بن گئے۔ وزیر اعلیٰ کی تنخواہ 59ہزار سے بڑھا کر 2لاکھ 91ہزار اضافے کے ساتھ ماہانہ 3لاکھ 50ہزار کر دی گئی۔ سپیکر کی تنخواہ 49ہزار تھی اس میں ایک لاکھ اضافہ کر کے۔ اب ماہانہ ڈیڑھ لاکھ کر دی گئی۔ ایم پی ایز کی تنخواہیں 83ہزار سے بڑھا کر پونے دو لاکھ کر دی گئیں۔ بلکہ اس سے بھی زیادہ تقریباً ایک لاکھ 85ہزار۔ یومیہ الائونس اور ہائوس رینٹ میں اضافہ بھی دوگنا کر دیا گیا۔ یہ مدینہ کی ریاست ہے۔ جہاں حکمران بھوکے پیٹ‘ مہنگائی اور بے روزگاری کے مارے ہوئے عوام پر حکمرانی کرتے ہوئے اپنی تنخواہوں میں ہوشربا اضافہ کر لیتے ہیں۔ کہاں گئے وہ تبدیلی کے نعرے’’دو نہیں ایک پاکستان‘‘ کا خواب جو عوام کو تحریک انصاف نے دکھایا تھا۔ بے حسی کی انتہا ہے کہ جمہوریت کے نام پر عوام کو فریب دینے والا یہ ٹولہ سابق وزرائے اعلیٰ کے لئے بھی مراعات کا اعلان کرتا ہے جو کہ سراسر غیر ضروری ہے۔2002ء میں ایک بل پاس گیا جس کے مطابق چھ ماہ کے قلیل عرصے تک وزیر اعلیٰ رہنے والا بھی ان تمام مراعات کا حقدار ہو گا۔ اب ذرا مراعات ملاحظہ فرمائیں کہ ہر سابق وزیر اعلیٰ کو نئی 2500سی سی گاڑی بمع ڈرائیور پرسنل سیکرٹری‘ 2جونیئرز کلرک دس ہزار ماہانہ ٹیلیفون کا بل ۔ پانچ سکیورٹی اہلکار ملیں گے۔ مزید جس سابق وزیر اعلیٰ کا لاہور میں گھر نہیں ہو گا اسے تاحیات سرکاری رہائش گاہ کی سہولت ملے گی۔! بندہ پوچھے کہ یہ کٹھ پتلی ٹائپ کے وزیر اعلیٰ عوامی خدمت کا کون سا تیر مار کرجاتے ہیں کہ ساری عمر ٹیکسوں کا پیسہ ان کے اوپر نچھاور کرتے رہیں یہ بے حسی‘ ناانصافی اور معاشی عدم مساوات کی ہولناک مثالیں ہیں اس پنجاب میں 21فیصد لوگ خط غربت سے نیچے کیڑے مکوڑوں کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں اور خط غربت سے نیچے زندگی گزارنا کیا ہوتا ہے شاید ہم اور آپ اس اذیت کو اپنے تصور میں نہ لاسکیں۔ یہ نام نہاد عوامی نمائندے‘ تبدیلی کا نعرہ لگا کر عوام کو فریب دینے والی مخلوق کیا جانے کہ خالی جیب کا بوجھ کیا ہوتا ہے۔ بھوک بیماری اور خالی جیب کی تکون انسان پر کیا قیامت ڈھاتی ہے۔ بے روزگاروں کے گھروں میں چولہے ٹھنڈے پڑ جائیں تو زندگی کتنی تپش آلود ہو جاتی ہے۔ اعداد و شمار میں کیا جائیں کہ تبدیلی سرکار کی حکومت آتے ہی ہمارے دیکھتے دیکھتے‘ صحافت سے وابستہ کتنے دوست احباب بے روزگار ہو گئے۔ جہاں کارخانے نہ کھلیں‘ نئے صنعتی یونٹ نہ لگیں۔ وہاں پڑھے لکھے بے روزگاروں کی تعداد بھی دن بدن بڑھتی چلی جاتی ہے۔ مزدور طبقے کی تو بات ہی چھوڑ دیں۔ انہیں تو ایک دن دیہاڑی اور دو دن دیہاڑی کے بغیر روکھی سوکھی بوجھل زندگی گزارنے کی عادت ہے کہ وطن عزیز میں کبھی کوئی حکومت ایسی نہیں آئی جس نے بھی غریب شہر کے مسائل کو حل کرنے کی مخلصانہ کوشش کی ہو۔ کیوں بار بار فریب کھاتا ہے غریب شہر۔ صرف اچھے دنوں کی آس میں کہ شاید میرے حالات بھی بدل جائیں اس بارتحریک انصاف سے امیدیں لگا کرخوش تھا میرا غریب وطن کہ اب تو تبدیلی ضرور آئے گی۔ اب ایک پاکستان بنے گا۔ پہلے غریب کا پاکستان اور تھا۔ امیر کا پاکستان اور تھا۔ لیکن عمران خان کی حکومت غریبوں کو معاشی انصاف دے کر ایک پاکستان بنائے گی۔ لیکن میرے غریب شہر کے خوابوں اور خواہشوں کا پھر خون ہوگیا۔ ایک بار پھر دھوکہ ہوگیا میرے ہم وطنوں کے ساتھ، جو یہ سمجھتے ہیں کہ تحریک انصاف کے قافلے میں ایسے سیاسی رہنما ہیں جن کے سینوں میں واقعی دل دھڑکتا ہے۔ پھر ایک غریب علاقے کا سیدھا سادا عثمان بزدار تخت پنجاب پر بٹھایا گیا تو میرے غریب شہر نے سوچا کہ اسے ضرور غریبوں کا دکھ ہو گا۔ اب تک عمران خان بھی لوگوں کو یہی تسلی دیتے آئے کہ غریب علاقے کا بزدار غریب کے دکھ کو سمجھتا ہے۔! اور وہ واقعی غریب کے دکھ کو سمجھتا ہے اسی لئے اس نے اپنی تنخواہ میں 2لاکھ 91ہزار کا تاریخی اضافہ کر کے اپنی غربت میں فی الفور کمی کر لی ہے۔ رہا پنجاب کا غریب شہر تو وہ اس کھلی ناانصافی پر سئیں بزدار کو مخاطب کر کے بس فیض کا یہ شعر گنگنا سکتا: جو ہم پہ گزری سو گزری مگر شب ہجراں ہمارے اشک تیری’’عاقبت‘‘ سنوار چلے