میں مناہل کو اپنے گھر سے قدرے قریب سکول میں داخل کرانے کے لیے گیا تو مجھے یہ بات عجیب لگی کہ اس سکول کی انتظامیہ ان بچوں کے بارے میں زیادہ فکر مند تھی جو کرونا کے بعد سے واپس نہیں آئے تھے۔ ایسا بھی نہیں کہ بچوں نے کسی اور سکول میں داخلہ لے لیا تھا۔ وہ سامنے والی گلی میں سارا دن گھومتے پھرتے اور کھیلتے نظر آتے تھے۔ واضح طور پر مہنگائی کا عفریت انہیں سکول سے دور رکھے ہوئے ہے۔ سکول کی انتظامیہ کا کہنا تھا کہ ان بچوں کی واپسی کی انتظار میں ایک اعلی تعلیم یافتہ میڈم بھی گھر بیٹھ گئی تھی۔ اس نے بھی کوء دوسرا سکول جوائن نہیں کیا تھا حالانکہ ڈی بارہ سیکٹر سے ملحق اس علاقے میں کسی سرکاری سکول کا دور دور تک کوئی پتہ نہیں۔ ملک دین محمد، اس سکول کے پرنسپل ، نے مجھے بتایا کہ انہیں سکول سے باہر پھرتے ان بچوں کی بھی فکر ہے اور بے روزگار ہو نے والی ٹیچر کی بھی۔ ایک کمرہ کارپٹ ہوا کمپیوٹرز کے انتظار میں ہے۔وسائل کا بندوبست ہوگا تو ہی اس کمرے کی افادیت ممکن ہوگی۔ انہوں نے مارگلہ کے دامن میں سکول سوچ سمجھ کر بنایا تھا۔ گولڑہ اور شاہ اللہ دتہ کے درمیان واقع اس علاقے میں انسانی آبادی بے تحاشہ تھی تو لازمی سی بات ہے بچوں کی تعلیمی ضروریات بھی تھیں۔ وہ زندگی بھر اس شعبے سے منسلک رہے تھے، طلب و رسد کے نقطہ نظر سے انکا فیصلہ صائب معلوم ہوتا ہے لیکن انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ تعلیم کوصرف کاروباری نقطہ نظر سے دیکھنا ظلم ہے۔ اس تاثر کو زائل کرنے کی ضرورت ہے کہ تعلیم لازمی طور پر ایک کاروبار ہے۔ اگر ایسا ہو تو ایسے علاقوں میں سکول کیوں کھولے جائیں جہاں والدین کے پاس بچوں کی فیس تو کیا انہیں مناسب خوراک اور رہائش مہیا کرنے کی سکت تک نہیں۔ ملک دین محمد نے بتایا کہ وہ اپنے شہر میں واقع سکولوں کی نسبت دیہات میں واقع اس سکول میں زیادہ وقت گزارنا پسند کرتے تھے۔ انہوں نے آبادی کو دیکھتے ہوئے عمارت بھی بڑی لی تھی۔ عمارت کم ازکم بیس مزید بچے سموسکتی ہے۔ عمارت وسیع بھی ہوسکتی ہے اگر ضرورت پڑے تو سٹاف بھی بڑھایا جاسکتا ہے۔ مجھے لگا کہ ملک دین محمد نے بطور شہری اپنا کام کردیا ہے۔ وہ زیادہ سے زیادہ یہی کرسکتے تھے کہ وہ یہاں سے کسی منافع کی توقع نہ رکھیں۔ ملک صاحب جیسے تجربہ کار ایجوکیٹر کا ایک دیہی علاقے میں سکول کھولنا ہی بڑی بات ہے۔ یہ کام تو حکومت کا ہے اور وہ اس سلسلے میں آئینی طور پر پابند بھی ہے کہ بچوں کی تعلیم کا بندو بست کرے۔ ان کے لیے سکول، اساتذہ اور کتابوں کا انتظام کرے۔ جن علاقوں میں سرکاری سکول نہیں ہیں وہاں پر پرائیویٹ شعبے کی حوصلہ افزائی کرے۔ لیکن بات وہی ہے کہ بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے۔ کہنے کو تو اسلام آباد ضلعی انتظامیہ موجود ہے جو سیکٹرز سے باہر رہنے والے لاکھوں خاندانوں کو بنیادی حقوق مہیا کرے جو پاکستان کے دیگر علاقوں کا حال ہے، اسلام آباد کا بھی وہی ہے۔ دارالحکومت میں سی ڈی اے کے زیر انتظام سیکٹروں سے باہر شہری سہولیات کا تصور تک محال ہے۔ بنیادی ہیلتھ مرکز اور سرکاری سکول موجود ہیں لیکن انکی تعداد آبادی کی نسبت کم پڑ رہی ہے۔ شہر میں تعلیمی اور صحت کی سہولیات موجود ہیں لیکن وہاں تک رسائی کیلئے پبلک ٹرانسپورٹ کی خاطر خواہ سہولت موجود نہیں۔ پچھلی کئی دہائیوں سے پورے ملک سے بدامنی اور بیروزگاری سے ستائے لوگوں نے اسلام آباد کا رخ کیا ہے۔ بارہ کوہ، بری امام، شاہدرہ، گولڑہ، شاہ اللہ دتہ کی آبادی میں ہوشربا اصافہ ہو چکا ہے۔ صفائی کا انتظام نہ ہونے سے ندی نالے آلودہ ہو چکے ہیں۔ اکثر علاقوں میں تعلیم اور صحت کی سہولیات ناپید ہیں۔ جگہ جگہ گندگی کے ڈھیر نظر آتے ہیں۔ برسات کے موسم میں وبا پھوٹنے کا خطرہ رہتا ہے۔ شہر پر غربت، بھوک اور بیماری کا دائرہ وسیع ہوتا جارہا ہے۔ شہر میں سے گزرنے والے نالوں کے کنارہ کچی آبادیاں تیزی سے پھیلتی جارہی ہیں۔ سول سول سوسائٹی کو آواز اٹھانا چاہیے لیکن اس کے اپنے تن مردہ میں جان کون ڈالے؟ شہر میں میرا آنا جانا رہتا ہے۔ وہاں ضمیر تو زندہ ہے لیکن کچھ کرنے کی سکت نہیں۔ فوری حل خود مختار مقامی حکومتیں ہیں۔ شہروں کے مضافات اور دیہاتوں تک بنیادی شہری سہولیات جلد سے جلد پہنچانے کا واحد راستہ یہی ہے۔ فی الحال تو ضلعی انتظامیہ دیہات کو جرائم کے نقطہ نظر سے ہی دیکھتی ہے۔ تحریک انصاف مقامی حکومتوں کے حق میں تھی لیکن نہ تو اپنے ساڑھے تین سالہ دور میں یہ نظام پنجاب میں لاسکی اور نہ ہی اسلام آباد میں۔ ن لیگ کے دور میں مقامی حکومتوں کے انتخابات سپریم کورٹ کے دباؤ پر ہو تو گئے تھے لیکن یونین کونسلوں کے چئیر مینوں کو نہ تو دفاتر مل سکے اور نہ فنڈ۔ رات کو نہ سہی دن کی روشنی میں ہی عدالت مقامی حکومتوں کا اختیارات دلوادیتی کافی افاقہ ہوجاتا۔ جانے سے پہلے پچھلی حکومت نے کچھ ترقیاتی کام شروع کیے تھے وہ بھی ادھورے پڑے ہیں۔ پچھلے مقامی انتخابات سے پہلے میں نے سید پور کے ایک بزرگ، راجہ منیر، جنکا بھتیجا یونین کونسل چیئرمین کا امیدوار تھا، سے پوچھا کہ اس علاقے کے کونسے مسائل حل طلب تھے۔ انکا کہنا تھا کہ سوئی گیس دی جائے تاکہ جنگل کی کٹائی رک سکے، صفائی کا انتظام ہو تاکہ وہاں سے گزرنے والا نالہ گندگی سے بچ جائے اور کسی بھی فوری مسئلہ کے حل کے لیے انتظامی ڈھانچہ بنایا جائے۔