گذشتہ چنددنوں میں غزہ پراسرائیلی جنگی طیاروں کی بمباری سے تادم تحریر35فلسطینی شہیدجبکہ سینکڑوں زخمی ہو گئے ۔فلسطین اورکشمیر کے تنازعات میں کافی مماثلت ہے دونوںعلاقے جبر و استبداد اور انسانی حقوق کی پامالیوں کا شکار ہیں۔ دونوںکی نسل کشی ہورہی ہے کشمیرمیں بھارت جبکہ فلسطین میں اسرائیل نسل کشی کررہاہے ۔اغیاردونوں کی زمینوں پربالجبراورفوجی قوت کی بنیادپرقابض ہیں اسرائیل ایک ناجائزاورجبری ریاست ہے جو فلسطینیوں کی زمین ہتھیا کر ایک سازش کے تحت وجود میں لائی گئی ہے اورجوطاقتیں اسرائیل کی سرپرستی کر رہی ہیںوہی بھارت کوبھی اپنے سایہ عطوفیت میں لیکر مقبوضہ ریاست جموںو کشمیر پرجبری طوراورفوجی طاقت کے بل بوتے پر اپنے جابرانہ قبضے اورجارحانہ تسلط کو مستحکم کرنے کے لئے کشمیریوںپرستم کے پہاڑتوڑ رہاہے ۔ غزہ والوں کی بدنصیبی اسی قسم کی ہے جس قسم کی مقبوضہ کشمیر والوں کی ہے۔ غزہ ایک بہت مختصر علاقہ ہے، ڈیڑھ سو مربع میل سے بھی کم رقبہ، چھ میل چوڑا، 25 میل لگ بھگ لمبا اور اس میں 20 لاکھ سے زیادہ انسان آباد ہیں۔ اتنے مختصر علاقے میں ڈھنگ کی گوریلا جنگ ممکن نہیں اور اگر کوئی کرے گا تو خمیازہ فی یہودی فوجی ایک ہزار شہادتوں کی صورت میں بھگتنا پڑے گا۔ جنوب میں اس کی سرحد مصر سے لگتی ہے جو عملا بند ہے۔ مصر سے کوئی امداد غزہ نہیں آ سکتی، دوا تک نہیں۔ مغرب میں سمندر ہے جو اسرائیلی کشتیوں سے بھرا رہتا ہے۔ مشرق اور شمال میں اسرائیل ہے۔ یہ نام نہاد فلسطینی ریاست کا ایک حصہ ہے۔ دوسرا حصہ مغربی کنارے کا محدود علاقہ ہے، بیچ میں اسرائیل ہے۔ دونوں حصوں کے لوگ ایک دوسرے سے مل نہیں سکتے۔ نقشے کی مثال کچھ کچھ ویسی ہی ہے جیسی مشرقی اور مغربی پاکستان کہ درمیان میں بھارت تھا لیکن رابطہ بہرحال ہو جاتا تھا۔ سمندر سے بھی فضا کے راستے سے بھی، یہاں فلسطینیوں کو ایسا کوئی حق حاصل نہیں ہے۔ اسرائیل غزہ والوں کو بجلی گھر بھی بنانے نہیں دیتا چنانچہ چھوٹے چھوٹے دیسی قسم کے بجلی گھر ہیں جن کو اسرائیل جب چاہے راکٹ مار کر اڑا دیتا ہے۔ غزہ تنہا ریاست ہے ۔ مصر سے سعودی عرب تک اور انڈونیشیا سے مراکش تک کوئی مسلمان ملک اس کا دوست نہیں۔ غزہ پر جب قیامت ٹوٹتی ہے’’اور وہ اکثر ٹوٹتی رہتی ہے‘‘تو ہمدردی کی آوازیں مسلمان ملکوں سے نہیں، یورپ کے اندر سے اٹھتی ہیں۔ کوئی انہیں ہتھیار تو کہاں، خوراک اور دوائیں بھی نہیں دیتا۔ یاسر عرفات کے مرنے کے بعد اس کا کوئی عالمی سفیر بھی نہیں رہا۔ غزہ کے بچے موت سے نہیں ڈرتے۔ بڑے بوڑھوں کو جس طرح یقین ہوتا ہے کہ اب وہ کسی بھی دن حوالہ اجل ہونے والے ہیں اور اس یقین کے بل پر وہ موت سے بے خوف ہو جاتے ہیں، اسی طرح غزہ کے بچوں کو شعور کی منزل تک پہنچنے سے پہلے یہ ادراک ہو جاتا ہے کہ کل نہیں تو پرسوں، انہیں مر جانا ہے۔ تین سال کے بچے بھی جانتے ہیں کہ ان کی باری آج کل میں آنے والی ہے، چنانچہ موت ان کے لیے کوئی ڈراوا نہیں رہ گیا۔ ایسا ہی معاملہ کشمیر کا ہے۔ ان کے پاس نسبتاً زیادہ علاقہ ہے لیکن اتنا زیادہ بہرحال نہیں کہ کوئی کامیاب گوریلا جنگ لڑی جا سکے۔ آپ مقبوضہ کشمیرکا نقشہ اٹھائیے۔ جو حصے چین کے پاس ہیں اقصائے چین اور شمال میں ایک پٹی انہیں نکال دیں تو باقی سارا رقبہ کم و بیش اتنا ہی رہ جاتا ہے جتنا ہمارا گلگت کا۔ اور یہ سارا علاقہ کشمیر نہیں ہے۔ اس میں لداخ لیپہ کے علاقے بدو اکثریت کے، جنوب میں جموں ہندو اکثریت کا ہے۔ جسے ہم وادی کشمیر کہتے ہیں اور جہاں کم و بیش سارے کشمیری مسلمان آباد ہیں، وہ ہمارے آزادکشمیر سے بس تھوڑا سا بڑا علاقہ ہے۔ چنانچہ گوریلا جنگ کے لیے کافی جگہ بالکل دستیاب نہیں۔ کشمیر کی آبادی قابض طاقت سے کوئی نسبت ہی نہیں رکھتی۔ ستر لاکھ کی مسلمان آبادی ہے۔ بوڑھے اور عورتیں نکال دیں تو کل 25,20 لاکھ کی آبادی ہے جو جلسے کرسکتی ہے، جلوس نکال سکتی ہے، مظاہرے کرسکتی ہے اور بھارتی فوج پر پتھرائو کرسکتی ہے۔ اس پچیس لاکھ کی آبادی کے لیے بھارت کی دو تین لاکھ فوج اور اتنی ہی بارڈر فورس ہے اور پولیس اس کے علاوہ۔ یعنی ہر تین کشمیریوں پر بندوق کی ایک نالی تنی رہتی ہے، ٹینک الگ سے۔ مایوس کن صورتحال کی وجہ صرف یہی منظر نہیں، یہ بھی ہے کہ اہل غزہ کی طرح دنیا میں ان کا بھی کوئی غمگسار نہیں، مددگار ہونا تو بہت دور کی بات ہے کشمیر میں کتنا ہی قتل عام ہو، کبھی سنا کہ سعودی عرب نے، چین نے، برطانیہ یا فرانس نے، امریکہ یا آسٹریلیا نے کبھی مذمت کی ہو۔ بس پاکستان تھا جو کچھ عرصہ پہلے تک ان کی تھوڑی بہت عملی مدد کردیا کرتا تھا۔ کچھ عرصہ پہلے تک جماعت اسلامی پاکستان کے کارکن اپنے جلوسوں میں کشمیریوں کی اصولی مدد کرنے کے لیے تصویری پوسٹروں کی نمائش کیا کرتے تھے۔ ان پوسٹروں پر کشمیری مائوں کو حوصلہ دیا جاتا تھا کہ فکر مت کرو، تمہارے بچے جنت میں تمہیں واپس مل جائیں گے۔ یوٹرن والے سال کے بعد سے یہ پوسٹر بھی غائب ہو گئے۔ کشمیریوں اور اہل غزہ میں ایک فرق البتہ ہے اور وہ آبادی کا ہے۔ کشمیری ستر پچھتر لاکھ ہیں۔ ان کا صفایا ہوتے ہوئے کئی عشرے لگ جائیں گے پھر کشمیر میں بہرحال فاقہ کشی اور دوائیں نہ ہونے کا مسئلہ نہیں ہے۔ غزہ کی آبادی صرف 20 لاکھ ہے، بیماریوں کا ڈیرہ ہے۔ غذا کم یاب، دوائی نایاب ہے، شرح شہادت زیادہ ہے چنانچہ غزہ کا مسئلہ قلیل مدتی حل کے بہت زیادہ قریب ہے۔ غزہ پر ٹوٹنے والی قیامت سے یہ بھی طے ہوگیا کہ قبلہ اول اب پونے دو ارب مسلمانوں کا مسئلہ نہیں رہا، یہ صرف 20لاکھ اہل غزہ کا درد سر ہے۔