گذشتہ چند ایک دِنو ںسے اسرائیل کی جانب سے غزہ پر فوجی آپریشن کی شدت میں اضافہ کردیا گیا ،مَیں اتنا سوچ سکتا تھا کہ میری ایک برس کی بھانجی ،جس کا نام ایلیا ہے ،جو اپنی فیملی کے دوسرے افراد کے ساتھ وہاں مہاجرین کے کیمپ میں رہ رہی تھی۔اگرچہ وہ ایک چھوٹی سی بچی ہے ،وہ پہلے ہی سے سیکھ چکی ہے کہ اُس نے خود کو تیزی کے ساتھ کسی کرسی یا میز کے نیچے اُس وقت چھپانا ہے ،جب وہ اسرائیلی فضائی لڑاکاجہازوں کی جانب سے کیے جانے والے حملوں کی آوازیں سنے۔وہ غزہ کے دوسرے بچوں کی مانند اپنے بچپن کا آغاز ایک ایسی جگہ سے ایک ایسے وقت میں کرتی ہے ،جہاں اسرائیل ڈھٹائی کے ساتھ جنگی جرائم کا مرتکب ہوتا ہے۔ غزہ پر آخری حملے کے بعداسرائیل کی حکومت نے فاتحانہ انداز میں یہ اعلان کیا تھا کہ اُس نے غزہ میں سرجیکل اسٹرائیک کیے ہیں اور ’’دہشت گردوں‘‘کو اپنے انجام تک پہنچایا ہے ۔اس حملے کے بعد اسرائیل کی حکومت نے ایک بار اس کا اعلان کیا کہ صیہونی ریاست نے ایسا کیا (حملہ کیا)کیونکہ وہ اپنے تحفظ کا حق رکھتی ہے ،اسرائیل کی حکومت کے اس اعلان کا دیگر دُنیا نے خیرمقدم کیا۔ لیکن ذراتوقف کریں!آئیے اسرائیل کے اس عمل کاقریب سے جائزہ لیتے ہیں۔ایک نام نہاد ٹارگٹ کلنگ میں اسلامی جہاد کے کمانڈر بہاابوالعطااور اس کی بیگم اسماء کی موت کے بعد غزہ کی پٹی پر شدید قسم کی بمباری کی گئی۔(بہاابوالعطا 25نومبر 1977کو پیدا ہوئے تھے اور 12نومبر 2019کو بیگم اسماء سمیت ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا گیا ،اس حملے میں اُن کے چار بچے اور ایک ہمسائیہ شدید زخمی ہوئے تھے۔بہاابوالعطا’’تحریک جہاد اسلامی فلسطین ‘‘ کے رہنما تھے۔’’تحریک جہاد اسلامی فلسطین ‘‘ ایک فلسطینی اسلام پسند تنظیم ہے جس کا قیام 1981ء میں ہوا، اس تنظیم کے پیش نظر یہ مقصدتھا کہ ریاست اسرائیل کو ختم کر کے ایک آزاد و خود مختار فلسطینی اسلامی ریاست قائم کی جائے’’ تحریک جہاد اسلامی فلسطین‘‘ کو ریاستہائے متحدہ امریکا، یورپی یونین،برطانیہ ،جاپان، کینیڈا، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ اور اسرائیل جیسے ممالک نے دہشت گرد قرار دے رکھا ہے)دوسرے الفاظ میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ بہاابوالعطا اور اُس کی بیگم اسماء کا قتل ،فلسطین میں ایک نئی شروعات کا آغاز تھا۔یہ جمعہ کی صبح تھی کہ اسرائیل کی جانب سے ’’سرجیکل اسٹرائیک‘‘کی گئی ،جس میں چونتیس فلسطینی شہید ہوئے ،ان میں سے آدھے عام شہری تھے ،جن میں آٹھ بچے اور تین خواتین شامل تھیں۔یقینی طور پر ان بم دھماکوں کے بارے میں کچھ بھی ’’سرجیکل‘‘ نہیں تھا جس میں نہ صرف جج ، جیوری اور مقدمے کی سماعت کی، بلکہ ان کی بیویوں ، بچوں اور مختلف راہگیروں کو بھی ماراگیا۔ایک سرجن ایسے عام لوگوں کو نہیں مارتا،عام لوگوں کو ایک جنگی جنون رکھنے والا مار سکتا ہے۔جیسا کہ مبینہ سرجیکل اسٹرائیک میں ہوا۔عام لوگوں کونشانہ بنایا گیا،جس میں آٹھ بچے اور تین عورتیں تھیں۔اور اس کے باوجود ، نام نہاد’’بین الاقوامی برادری‘‘نے ایک بار پھر اس کی مذمت کرنے سے انکار کردیا کہ گنجان آباد شہری علاقوں میں غیرقانونی قتل و غارت گری کی گئی اور بغیر سوچے سمجھے بموں کا بے دریغ استعمال کیا گیا۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے نائب معاون اور اُن کی ’’مشرقِ وسطیٰ کی امن ٹیم‘‘کے نام نہاد تازہ ممبر ایوی برکوٹز(Avi Berkowitz)کا ٹویٹ ملاحظہ کریں:’’امریکا اپنے دوست اور اتحادی اسرائیل کی دہشت گردی کے خلاف اور فلسطین جہاد کے دہشت گردوں کے خلاف ،جنگ کی مکمل طورپر حمایت کرتا ہے‘‘دوسری طرف یورپی یونین کی صورتِ حال ملاحظہ کریں کہ اُس نے بہا ابوالعطا کے قتل کے جواب میں غزہ کی پٹی سے اسرائیل پر داغے جانے والے راکٹوں پر توجہ مرکوز رکھی لیکن یورپی یونین نے فلسطینی شہریوں کے بہیمانہ قتل پر مکمل طورپر خاموشی اختیارکیے رکھی۔ جس صبح اسرائیل نے غزہ کی پٹی پر ایک ٹارگٹ آپریشن کیا اور ’’تحریک جہاد اسلامی فلسطین ‘‘کے اہم رہنما کو قتل کردیا۔اس آپریشن کے جواب میں غزہ کی پٹی سے جنوبی اور وسطی اسرائیل میں راکٹ فائر کیے ،یورپی یونین کی خارجہ امور کی جانب سے کہا گیا’’غزہ کی پٹی سے عام شہریوں پر راکٹ داغے جانے کا عمل ہرگذ قابلِ قبول نہیں اور اس کو فوراًروکاجائے‘‘ گذشتہ بیس برس سے ، یہاں تک کہ یورپ سے آنے والے انتہائی ہمدردانہ بیانات میں صرف نام نہاد ـ’’اضافے‘‘کے بارے میں تشویش کا اظہار توکیا جاتار ہا مگر فلسطینیوں پر کی گئی اجتماعی سزا ، جبر اور خاموشی کو مکمل طور پر نظرانداز کیا گیا۔ پوری دنیا میں ’’نوآبادیاتی حکومت ‘‘کے بعد کی حکومتوں نے یہ ثبوت دیا ہے کہ اُنہوں نے اسرائیلی آبادکارکالونی کی جانب سے فلسطینیوں پر برپا کی جانے والی ناانصافی سے، اپنی تاریخ سے کچھ نہیں سیکھا۔مَیں نے غزہ کے جبالیہ مہاجر کیمپ میں پرورش پائی۔میں ایک ایسا بچہ تھا ،جس کی کوئی ریاست نہ تھی ،مَیں اپنے والدین، چارچچائوں اُن کی بیویوں اور بچوں اوردادا،دادی کے ساتھ محض پانچ کمروں میں رہتا تھا۔مَیں پہلے انتفاضہ اول میں رہا تھا۔(’’انتفاضہ اول‘‘ غزہ پٹی اور مغربی کنارہ پر برپا ہونے والی اسرائیلی قبضے کے خلاف ایک فلسطینی بغاوت تھی۔یہ دسمبر 1987ء سے شروع ہوئی اور 1991ء میں میڈرڈ کانفرنس تک جاری رہی۔ غیر مسلح فلسطینی اسرائیلی باڑ کے قریب احتجاج کرنے کے لئے سکیورٹی ’’خطرہ‘‘ تھے ، لہٰذا ان میں سے 213 مارے گئے ، ان میں 46 بچے ، 2 خواتین ، 9 افراد معذور ، 4 پیرامیڈکس اور2صحافی شامل ہیں ، جبکہ مجموعی طور پر 115 زخمی ہوئے ہیں۔اس نام نہاد بین الااقوامی برادری کے لیے فلسطینیوں پر ہونے والے مظالم کوئی معنی نہیں رکھتے۔یہ اس دنیا میں ، اس’’بین الاقوامی برادری‘‘کی نگاہ میں ہے ، کہ میری چھوٹی بھتیجی الائزہ، غزہ کی ایک فلسطینی لڑکی کی حیثیت سے پرورش پارہی ہوگی۔ ایک دن ، ہم اُن لوگوں کو یاد رکھیں گے جنہوں نے ہماری جدوجہد کا ساتھ دیا او ر حمایت کی اور ہم ان دوسرے لوگوں کا احتساب کریں گے جو خاموشی سے اسرائیل کے جنگی جرائم میں ملوث پائے گئے۔ (بہ شکریہ ’’الجزیرہ‘‘ترجمہ :احمد اعجاز)