کیا آج بھی کشمیریوں کو انسانی تاریخ کے بدترین ظلم سے نجات دلانے کے لئے لوگوں کو رسول اکرم ﷺ کی زبان مبارک سے پیش گوئی کی صورت نکلے ہوئے الفاظ کی ضرورت ہے کہ '' میری امت میں سے دو گروہ ایسے ہیں جنہیں اللہ نے جہنم کی آگ سے محفوظ کر رکھا ہے۔ ایک وہ گروہ جو ہند پر حملہ کرے گا اور دوسرا گروہ جو حضرت عیسی ابن مریمؑ کے ساتھ ہوگا (السنن الکبری۔ نسائی)۔ کیا قرآن پاک جہاد فی سبیل اللہ اور قتال فی سبیل اللہ کے احکامات سے بھرا ہوا نہیں ہے۔ لیکن یار لوگ بھی کمال کے ہیں کہ عین اس وقت جب ہند یعنی بھارت میں بسنے والے پچیس کروڑ مسلمان بحیثیت مجموعی ایسی بدترین زندگی گزار رہے ہیں جس کی مثال گذشتہ پچاس بر سوں میں دنیا کے کسی بھی خطے میں نہیں ملتی۔ نسلی تشدد اور اقلیتی ظلم و ستم سے متعلق ایک تصور گذشتہ پانچ صدیوں سے وابستہ ہے جسے ''گھیٹو'' (Ghetto) کہا جاتا ہے۔ یہ کسی شہر کے ایسے علاقے کو کہتے ہیں جہاں کسی اقلیتی گروہ کو رہنے پر مجبور کردیا جاتا ہے۔ اس کی حالت زار بدترین ہوتی ہے۔ یہ غربت و افلاس کا نمونہ ہوتا ہے۔ اس میں صحت، تعلیم، صفائی، مواصلات غرض کوئی بھی ایسی سہولت میسر نہیں ہوتی جو شہری زندگی کی ضرورت ہو۔ ایسی بستیاں چار صدیاں پہلے یہودیوں کے لیے مخصوص کی جاتی تھیں۔ پہلا ''گھیٹو'' 1516 ء میں اٹلی کے شہر وینس میں قائم ہوا تھا۔ اس وقت دو سو کے قریب ممالک اور سات ارب انسانوں کی دنیا میں سب سے بڑا ''گھیٹو'' احمد آباد کے پڑوس میں واقع ''جوہاپورہ'' ہے جس میں تقریبا سات لاکھ مسلمان آباد ہیں جو گجرات کے مسلم کش فسادات کے بعد وہاں رہنے پر مجبور کر دیے گئے تھے۔ احمد آباد شہر کی تمام سہولیات،بجلی، پانی، گیس، تعلیم، صحت اور سڑک وغیرہ اس جوہا پورہ کے دروازے پر دم توڑ دیتی ہیں۔ 2002 ء میں آباد ہونے والا یہ پہلا ''گھیٹو'' تھا جبکہ اس وقت بھارت کے تقریبا ہر شہر میں مسلمانوں کے علاقے ''گھیٹو'' بن چکے ہیں اور ان مسلمانوں پر اگلی تلوار یہ لٹک رہی ہے کہ نیشنل سیٹیزن شپ رجسٹریشن کے تحت پورے بھارت میں رہنے والوں سے پوچھا جائے گا کہ اس بات کا ثبوت لاؤ کہ کیا واقعی تم بھارت کے شہری ہو۔ ایسا نہ کرنے والے کو شہریت سے محروم کرکے نظر بند سنٹر ''Detention Centre'' میں منتقل کردیا جائے گا۔ آسام سے چالیس لاکھ مسلمانوں کو بھارتی شہریت کے رجسٹرسے خارج کیا جا چکا ہے۔ گائے ذبح کرنے کے شبہ میں لوگ قتل ہو رہے ہیں۔ راستوں میں روک کر غنڈے گھیر لیتے ہیں اور جے شری رام کا نعرہ لگانے کو کہتے ہیں، نہ لگاؤ تو مار مار کر قتل کر دیتے ہیں۔ ایسے حالات میں ہمارے کچھ ''مہربان'' ایسے ہیں جو اس بحث میں لوگوں کو الجھا رہے ہیں کہ کیا واقعی ''غزوہ ہند'' ہونا ابھی باقی ہے۔ جاوید احمد غامدی کے علمی دسترخوان کے خوشہ چین عمار خان ناصر اور ان کے معتقد کالم نگاروں نے اسماء الرجال اور غزوہ ہند کی احادیث کی اسناد پر بحث ایسے وقت میں شروع کی ہے جب بھارت میں کشمیری اپنی زندگی کی سب سے بڑی بازی ہندوؤں سے آزادی کی جنگ لڑنے پر لگائے ہوئے ہیں۔ ان کے قبرستانوں میں ڈیڑھ لاکھ شہید دفن ہو چکے ہیں، ہزاروں مسلمان لاپتہ ہیں جن کی بیویوں کو لوگ احتراماً شہداء کی بیوائیں کہہ کر پکارتے ہیں، جہاں جبری جنسی تشدد معمول ہے اور جہاں کمسن لڑکے بدترین جسمانی تشدد کا شکار ہو رہے ہیں، ایسے عالم میں آپ قرآن پاک کے صریح احکامات جہاد و قتال کی جانب لوگوں کو نہیں بلا رہے بلکہ انہیں اس بحث میں الجھارہے ہو کہ غزوہ ہند کی روایات کی اسناد درست نہیں ہیں۔ معاملہ دراصل یہ ہے کہ ایسے ''عظیم'' محدثین کے رجال کے علم کے مقابلے میں آج میرے آقا سید انبیاء ﷺ کی پیشگوئیاں اب حرف بہ حرف سچ ثابت ہونے لگی ہیں۔ سورج جب نکلتا ہے تو اسے ماننے سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ ستاون اسلامی ممالک میں سے سید الانبیاء ﷺنے آخر الزماں میں صرف شام، عراق، یمن، ہند،حجاز اور خراسان کو مرکز گفتگو بنایا اور بتایا کہ آخری معرکے انہی سرزمینوں پر برپا ہوں گے۔ آج وہ تمام احادیث جو شام، عراق، یمن، خراسان اور حجاز کے بارے میں مروی ہیں اپنی ترتیب کے اعتبار سے روز روشن کی طرح واضح ہوتی جا رہی ہیں۔ ستاون اسلامی ممالک میں سے صرف یہی پانچ ممالک ہیں جو اس بڑی جنگ کا ویسے ہی میدان بنتے جارہے ہیں جیسے میرے آقا ﷺنے فرمایا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اب یہ بحث بیکار ہوچکی ہیں کہ کون سی حدیث میں کون سا راوی ثقہ تھا اور کون سا نہیں تھا۔ موصوف عمار خان ناصر تحریرکرتے ہیں اور انکے خوشہ چیں اپنے کالموں اور بلاگوں میں اسے نقل کرتے ہیں ''ہمارے ہاں بعض قصہ گو حضرات اس واہی روایت کی محد ثانہ حیثیت اور ''اگر صحیح ہو'' کو نظر انداز کرکے اس پر ایک نئے جہادی بیانئے کی دنیا کی عمارت کھڑی کرنا چاہ رہے ہیں''۔ چلو عمار خان ناصر کے بقول، ہم قصہ گوہی سہی لیکن ہمارا قصہ مسلمانوں کے خون کی ارزانی سے رنگین ہے۔ اس قصے میں ایران، افغانستان، شام اور فلسطین کے لاتعداد بے گھر ہجرت زدہ مسلمان ہیں اور لاکھوں شہداء کی لاشیں ہیں۔ ہوسکتا ہے آپ پکار اٹھیں کہ یہ سب تباہی ایک جہادی بیانیے کی وجہ سے ہوئی تھی جیسے آپ کے مدح سرا کالم نگار تحریر کرتے ہیں کہ، '' اس دور میں ان روایات کو افغانستان کے مجاہدین پر منطبق کیا گیا جنہوں نے خانہ جنگی میں ہزاروں مسلمانوں کو قتل اور ایک مسلم معاشرے کو برباد کیا''۔ کیا ''حسن بیاں'' ہے۔یعنی دسمبر 1979 ء میں روس کی افواج اس لئے افغانستان میں داخل ہوئیں تھیں کہ ان احادیث کی بنیاد پر افغانستان میں ایک جہادی بیانئے کی وجہ سے قتل و غارت ہو رہی تھی ۔حقیقت یہ ہے کہ روس کی افواج ایک پرامن افغان مسلم معاشرے پر حملہ آور ہوئی تھیں اور جدیددنیا کے کسی بھی سیکولر، لبرل، جمہوری اخلاقیات کے مطابق یہ ایک آزاد قوم پر حملہ تھا اور اس کے خلاف لڑنا افغانوں کا بنیادی حق تھا۔ اسی طرح جب امریکہ اور اڑتالیس ملک افغانستان پر حملہ آور ہوئے تھے تو اس وقت بھی افغانستان میں امن، انصاف، خوشحالی اور استحکام پر قائم طالبان حکومت کے پانچ سال مکمل ہو رہے تھے۔ کونسا افغان مسلم معاشرہ تھا جو آپ کے مطابق رسول اکرم ﷺ کی احادیث کے انطباق سے تباہ ہو رہا تھا۔ معاملہ یہ ہے کہ علت و معلول کی بنیاد پر ایمان کی عمارت کھڑی کرنے والوں کو امریکہ اور اس کے مغربی حواریوں کی افغانستان میں شکست ہضم نہیں ہورہی۔ جن کے دلوں میں ٹیکنالوجی کے بت جگمگاتے ہوں وہاں اللہ کی اس قوت و جبروت کا نور نہیں اتر سکتا کہ وہ اللہ خالق اسباب ہے، وہ نشانی کے طور پر اپنے ماننے والوں کوکبھی اسباب کی دنیا کا بھی محتاج بھی نہیں رکھتا۔ اللہ کو نصرت دینے کے لیے اس پر کامل توّکل اور ثابت قدمی چاہیے ہوتی ہے بقول اقبال اللہ کو پامردی مومن پہ بھروسہ ابلیس کو یورپ کی مشینوں کا سہارا یورپ کی مشینوں کی ذلت آمیز شکست کے بعد ابلیس کو اندازہ ہے کہ اگر یہی توّکل اور ثابت قدمی کی روح،ہند کے محاذپربھی آزمائی گی تو پھر شکست یقینی ہے۔ کشمیریوں اور ہند کے مسلمانوں کو توّکل کی منزل سے روکنے کا آسان طریقہ یہی تھا کہ سید الانبیاء ﷺ کی بشارتوں کو رجال کی بحث میں ڈال کر مشکوک بنا دو۔ جو اللہ کی راہ میں جہاد اور قتال کے لیے نکلتے ہیں، ان کے لئے غزوہ ہند کی حدیثیں نہیں بلکہ قرآن پاک میں دیے گئے قتال کے واضح احکام ہی کافی ہیں۔لیکن وہ جو نہیں نکلنا چاہتے ان کے بارے میں اللہ قرآن پاک میں وضاحت سے فرماتا ہے، '' اور جو لوگ ایمان لائے وہ کہتے ہیں کوئی سورت کیوں نازل نہیں کی گئی؟ پھر جب کوئی صاف مطلب والی سورۃ نازل کی جاتی ہے اور اس میں قتال کا ذکر کیا جاتا ہے تو جن لوگوں کے دلوں میں بیماری ہے وہ آپ کی طرف ایسے دیکھتے ہیں جیسے کسی پر موت کی غشی طاری ہو، بڑی خرابی ہے ایسے لوگوں کی (سورۃ محمد 20)۔ میں اس محکم آیت کے بعد کچھ نہیں کہنا چاہتا۔