افغانستان میں پُرتشدد کارروائیاںبہت بڑھ گئی ہیں‘ کابل میں حالیہ بم دھماکہ میں ایک ہائی اسکول کی ساٹھ طالبات جاں بحق ہوگئیں۔ افغان طالبان تیزی سے کابل انتظامیہ کے زیر انتظام علاقوں پر حملے کرکے اُن پر قبضہ کرتے جارہے ہیں۔ بچی کچھی امریکی فوجوں کا افغانستان سے انخلا شروع ہوچکا ہے ۔ اس بات کا کوئی امکان نہیں کہ امریکہ اور اسکے اتحادی یورپی ممالک کے چند ہزار فوجی ستمبر کے بعد افغانستان میں ٹھہریں گے۔ امریکہ کی مدد سے کابل میںقائم اشرف غنی کی حکومت کوطالبان کے خلاف اپنا دفاع خود کرنا پڑے گا۔ابھی تک کوئی امکان نظر نہیں آرہا کہ فریقین میں مصالحت ہوجائے اور وہ ایک مشترکہ‘ مخلوط حکومت تشکیل دے سکیں۔ گزشتہ چند ہفتوںسے طالبان جنگ جوؤں کی فتوحات بڑھتی جارہی ہیں۔ انہوں نے حال ہی میں کابل کے شمال میں واقع صوبہ بغلان پر قبضہ کیا اورافغان فوج کو وہاں سے بھگا کر بڑی مقدار میں امریکی اسلحہ پر قبضہ کیا جسکی تصاویر اور ویڈیوزسماجی میڈیاپر شائع ہوئیں۔طالبان قندھار‘ قندوز‘ ہلمند ایسے اہم شہروں کے نواح میںپہنچ گئے ہیں اور جلد ان شہروں پر اپنی عملداری قائم کرلیںگے۔ افغان فورسز اب تک انکا مقابلہ کرنے میں خاص کامیاب نہیں ہوسکیں۔افغانستان کے مقامی افسروں کے پاس اتنی صلاحیت نہیں کہ وہ فضائیہ استعمال کرسکیں۔ جہاں طالبان جاتے ہیں وہاں سے پولیس بھاگ رہی ہے۔ افغان فوج کا حال بھی پتلا ہے۔ صدر اشرف غنی کی حکومت کابل شہر اور ملک کے ایک تہائی دیہی علاقہ تک محدود ہے خاص طور سے وہ علاقے جہاں ہزارہ‘ تاجک اور اُزبک نسل سے تعلق رکھنے والے لوگ رہائش پذیر ہیں۔ملک کا نصف علاقہ تو پہلے سے طالبان کی عملداری میں ہے۔ اسکے سوا کچھ علاقوں میں وہ آزادی سے آجاسکتے ہیں۔ امریکہ کی پہلی ترجیح یہ ہے کہ وہ اپنی افواج اور نجی ٹھیکہ پر لائے گئے نیم فوجی‘ انٹیلی جنس اہلکاروںکو بحفاظت افغانستان سے نکال لے۔البتہ امریکی اعلیٰ عہدیدار بار بار یہ بات کہتے ہیں کہ واشنگٹن افغانستان میںاپنے دوستوں کی مددکرے گا‘ انہیں اکیلا نہیں چھوڑے گا۔ یہ حقیقت سے زیادہ لفاظی لگتی ہے۔ امریکہ زیادہ سے زیادہ یہی کرسکتا ہے کہ اپنے ڈرون یا جنگی طیاروں سے طالبان کے ٹھکانوں پر حملے کرکے اُنہیں نقصان پہنچائے ۔ اس کارروائی سے طالبان کی طاقت قدرے کمزور تو ہوسکتی ہے اور انکی فتوحات کی رفتار کم کی جاسکتی ہے لیکن انہیں آگے بڑھنے سے روکا نہیں جاسکتا۔ پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے صاف کہہ دیا ہے کہ پاکستان امریکہ کو اپنے فضائی اڈّے استعمال کیلئے نہیں دے رہا۔ ان حالات میں امریکہ کو طالبان پر فضائی حملے کرنے کیلئے وسط ایشیا کے کسی ملک کے اڈّے استعمال کرنا پڑیں گے یا کسی خلیجی ملک کے جہاں پر امریکی اڈّے پہلے سے موجود ہیں۔ظاہر ہے یہ فاصلہ بہت زیادہ ہے جس سے ان حملوں کی شدّت اور تعداد محدود ہوجاتی ہے۔زیادہ امکان یہی ہے کہ طالبان افغانستان کے کم سے کم ستّر فیصد علاقہ پر اپنی حکومت قائم کرلیں۔ اہم سوال یہ ہے کہ کیا طالبان کابل پر حملہ کرکے اسے فتح کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں کیونکہ صدیوں سے افغانستان پر حکومت اسی گروہ کی تصور کی جاتی ہے جو کابل پر براجمان ہو۔ طالبان بنیادی طور پر قدامت پسند‘ قوم پرست پختونوں کی نمائندگی کرتے ہیں۔ پختون قبائل افغانستان کی آبادی کاپینتالیس فیصد ہیں اور زیادہ تر ملک کے مشرق اور جنوب میں رہتے ہیں۔ باقی آبادی ہزارہ‘ تاجک‘ ازبک وغیرہ پر مشتمل ہے۔ کابل کے تعلیم یافتہ پختون زیادہ تر لبرل‘ ماڈرن سوچ کے حامل ہیں اور طالبان کے شدید مخالف۔ہزارہ‘ تاجک اور اُزبک آبادیوں کو بھارت‘ ایران‘ روس اور وسط ایشیائی ریاستوں کی مدد اور حمایت حاصل ہے۔ ہزارہ برادری میں ایک بڑا مسلح گروپ تشکیل پاچکا ہے جو طالبان کے ساتھ لڑنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ افغان فورسزکابل سے دُور پختون علاقوں کو طالبان کے حملوں سے محفوظ نہ کرسکتی ہوں لیکن کابل کے دفاع کے لیے گھمسان کی جنگ کریں گی کیونکہ یہ ایک بڑے طبقہ کی زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔ طالبان اگر کابل پر حملہ کرتے ہیں توبہت خوں ریزی ہوگی ۔ زیادہ امکان یہی ہے کہ وہ اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہوسکیں۔ روس‘ ایران اور وسط ایشائی ممالک طالبان کے ساتھ اچھے تعلقاتِ کار چاہتے ہیں لیکن وہ افغانستان میں اپنے پرانے ‘ قابل اعتماد اتحادیوں کا قتل عام نہیں ہونے دیں گے۔ انہیں ہر ممکن طریقہ سے مدد فراہم کرتے رہیں گے۔ بھارت بھی ایسا کرے گا۔ افغانستان میں نسلی اور فرقہ وارانہ خانہ جنگی تیز ہوئی تو اسکے بُرے اثرات ہمارے ملک پر بھی لازمی پڑیں گے۔ افغانستان میں قتل و غارت گری اور خانہ جنگی پاکستان کی داخلی سلامتی کے لیے تباہ کن ہے۔ ہماری معیشت پہلے ہی تباہی کے کنارہ پر ہے۔اگر افغان خانہ جنگی کے باعث امن وامان کی صورتحال بگڑتی ہے تو معاشی طور پر ملک بالکل مفلوج اور دیوالیہ ہوجائے گا۔ اسی لیے گزشتہ ہفتہ کابل میں بم دھماکہ میں ہلاکتوں کے فوراً بعد پاکستان کے آرمی چیف قمر جاوید باجوہ نے کابل کا دورہ کیا اور اشرف غنی سے ملاقات کی۔ اشرف غنی نے ایک ٹیلی ویژن انٹرویو میں دعویٰ کیا ہے کہ پاکستان کے آرمی چیف نے اُن سے کہا ہے کہ پاکستان نہیں چاہتا کہ افغانستان میں طالبان کی حکومت قائم ہو۔اس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان اپنے دوست ممالک جیسے ترکی ‘ سعودی عرب وغیرہ کے ساتھ ملکرافغانستان میں ایک ایسی حکومت کا خواہشمند ہے جو وسیع البنیاد ہو ۔ جس میں طالبان کے ساتھ ساتھ شمالی اتحاد اور کابل اشرافیہ کی نمائندگی بھی ہو۔ طالبان کو انکا پورا حق ملنا چاہیے لیکن وہ اکیلے پورے افغانستان پر حکومت نہیں کرسکتے۔ یہ اسلام آباد کی ایسی پالیسی ہے جسے روس‘ چین‘ ترکی ‘ ایران کی بھی مکمل تائید حاصل ہوگی۔ امریکہ اور یورپ بھی اس اعتدال پسند حکمت عملی کو سپورٹ کریں گے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ پاکستان کے ریاستی ادارے افغان طالبان پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کرکے انہیں مکمل جنگ کی جانے طرف جانے سے کیسے روکتے ہیں۔ اور کیا وہ اس میں کامیاب ہوتے ہیں؟ افغان کلچر کو دیکھتے ہوئے یہ کام مشکل ہے کیونکہ کئی مرتبہ ایسا ہوچکا ہے کہ طالبان رہنما ہمارے ریاستی اداروں کی بات نہیں مانتے۔ لیکن پاکستان کو طالبان اور انکے مخالف گروہوں کے درمیان کسی قسم کے سیاسی معاہدہ کے لیے بھرپور کوشش کرتے رہنا ہوگی۔بصورتِ دیگر افغان خانہ جنگی کا طوفان پاکستان کی سلامتی ‘ تحفظ اور اقتصادی بحالی کوبہا کر لے جائے گا۔ یوں بھی صرف طالبان کی مہم جوئی کی خاطر تمام ہمسایہ ملکوں اوربین الاقوامی برادری کو ناراض کرنا ہرگز ہمارے مفاد میں نہیں۔