روزانہ اخبار پڑھتا ہوں ‘ لوگوں سے ملتا ہوں اور مختلف چینلز دیکھتا ہوں کتنی ہی طرح کی باتیں ذہن میں ایک قافلہ بن کر مرتب ہوتی ہیں سفر فکر کا ارادہ بہت مضبوطی سے باندھنا میرا روز مرہ کا فطری شعار ہوتا ہے ارادے میں کتنے ہی موضوعات ہوتے ہیں کچھ تازہ عنوانات مجھے احساس دلاتے ہیں کہ اب یہ لکھو اور کچھ پرانے عنوانات مجھے سونے نہیں دیتے اور مجبور کرتے ہیں کہ ان پر لکھا جائے اور قوم کو سونے نہ دیا جائے۔ قوم تو سو رہی ہے اور چور ڈاکوئوں کی مٹھی میں ایک زہریلی دوا قندِ دل پسند نام کی ہے۔ وہ بہت ہی خاموشی سے قوم کے اعصاب کو شل کرنے کے لیے اس دوا کو تمام مسائل کے حل کے نام پر پرکشش اشتہاروں میں چھاپتے ہیں۔ بھوکے پیاسے ندیدے عوام کلپتے ہیں اور آوے ہی آوے کی نیم مترنم دلکش نعروں سے بھر پور فضا میں اپنا آپ لٹوانے کے لیے رقص بسمل پر آمادہ ہوتے ہیں۔ اخبار کی ہر خبر موضوع ہے ہر خبر میں درد کی آمیزش ہے اور ہر درد میں مستقبل کا خوف ہے۔ پھر سے دل کو مضبوط کرتا ہوں اور امید کی دنیا میں اتر کرنئے فکر کے ساتھ پرانے موضوعات کو سینے سے لگا کر توقعات خیر کی خبروں کو اپنے اردگرد سمیٹ کر اپنے سے باتیں کرتا ہوں اور پھر لوگوں سے باتیں کرتا ہوں باتیں تو بس یہ ہیں کہ مجھے اپنے وطن کی خیر درکار ہے مجھے اپنے وطن کے دوستوں کی تلاش جاری رکھنا ہیں مجھے اپنے وطن کے دشمنوں کی پہچان کرنا ہے مجھے نسل نو کو جگاتے رہنا ہے اور مجھے ایک مستقل یادداشت سادہ لوح اور حالات کے مارے عوام تک پہنچانا ہے کہ اپنے اردگرد کے چوروں اور ڈاکوئوں سے ہوشیار رہو۔ ہمارے ارد گرد کے چوروں نے بھارتی ڈاکوئوں سے مل کر ہمارا پانی چوری کروا دیا ہے بھارت دن دیہاڑے ہمارے دریائوں کا پانی کھینچ کر لے گیا۔ تیس سال بڑی مدت ہے کئی طرز کے عوامی حکمرانوں نے اپنی اپنی بستی میں اپنی حکومت مضبوط کرنے کے لیے ایک دوسرے کے انسانیت دشمن خیالات کو باہمی سیاسی افہام و تفہیم کا نام دے کے خوب پروان چڑھایا ہے اور بہت سے بدنیت سرکاری افسروں کی پیشہ ورانہ فنکاری کا سہارا لے کر ملک کے بچے بچے کے ہر بال کو بیرونی قرضوں کی زنجیروں میں جکڑا ہے عوام وطن اور معاشی ترقی کے نام پر قرضوں کا اتنا بڑا ڈھیر جمع کر لیا ہے کہ اب قرضوں کے پہاڑ اتنے اونچے ہو گئے ہیں کہ ان کا جناتی تصور بھی دل کو لرزانے کے لیے بہت کافی ہے۔ کسی پر تنقید کرنا ہرگز زیب نہیں دیتا لیکن چوروں کو بادشاہ کہنے کے آداب کو تسلیم کرنا ہی تو خود کو گالی دینے کے برابر ہے۔ چور پانی چوری کروانے میں پوری طرح سے دوسرے گائوں کے چوروں کے مددگار ہیں۔ روز کا جھگڑا دیہاتوں میں یہی ہوتا ہے کہ فلاں نے فلاں موقع پر میرا پانی چوری کر لیا ہے پانی جان ہے کھیتوں کی اور پانی جان ہے فصلوں کی ۔یہ تو زندگی کی عام بات ہے اور اس عام بات کو بالکل ہی عام بات سمجھنا چالاک مورکھوں کا کام ہے۔ اب کتاب آخر کا حوالہ تو ہر ذہن میں گونجتا ہے کہ خالق ارض و سما جل مجدد الاعظم نے ہر جاندار شے کو پانی سے بنایا ہے پانی حیات کا جزو اعظم ہے۔ انسانی زندگی کی بقاء ہے۔ پیدا ہوئے تو نہلایا ‘پانی کا استعمال روز اول ہی سے شروع ہوا‘ مرتے وقت بھی غسل میت کو پانی درکار ہے زندگی کے لیے خوراک میں کوئی سا مرحلہ بھی پانی سے بے نیاز نہیں ہے۔ تیس سال سے شور مچا ہوا ہے کہ دریا بنجر ہو رہے ہیں اور ڈیموں میں سکت کم پڑتی جا رہی ہے ایک سے ایک بڑا دھانسو اور دھونس باز تخت پر بیٹھا اور کسی نے بھی دریائوں کی ویرانی کو نہ دیکھا اونچی اونچی عمارتیں لمبی لمبی سڑکیں اور بے مقصد بے ثمر اداروں کو ناجائز طریقے سے جنم دیا لوگ بے وقوف بنتے رہے۔ پانی سے دور رکھا۔ بڑے بڑے دشمن آب ‘ دشمن آب روئے وطن‘ دشمن اخلاق دھمکی دار غنڈوں کو ساتھ ملا کر رکھا کہ تم بیرونی ایجنٹ ہو لیکن تم سے سیاسی دوستی ناگزیر ہے اس لیے دھمکی کو جاری رکھو لیکن ہمارے دوراقتدار میں ہوش نہ آنے دینا اور پھر یہی ہوا کہ پاکستان میں کوئی بڑا یا چھوٹا آبی منصوبہ نہ بن سکا چور اور چوکیدار ایک ہو گئے تھے یہ بڑے بڑے افسر دورے کرتے رہے پاکستان کا مقدمہ کیا لڑنا تھا اپنا مقدمہ حکمرانوں کے سامنے رکھ کر سرخرو ہوتے رہے ٹی اے ڈی پر آمادہ تنخواہ بڑھا دو الائونس بڑھا دو ہر عدالت میں خاموشی سے فائل سمیٹ کر پانی دورے میں سیر سپاٹا کرتے رہے۔ پاکستان کے دریا بے آبرو ہو چکے ہیں دریائی حیات کی برکات چوری ہو گئی ہیں پاکستان کے دریا پاکستان کے صحرا پاکستان کے پہاڑ پاکستان کے کھیت کھلیان اور پاکستان کی پاک زمین پاکستان کے عوام کا اثاثہ ہیں اور پاکستان کے اس قیمتی اثاثے کی قیمت شہدائے قیام پاکستان کا مقدس خون ہے اور حرمت پیکر مسلمان مائوں بیٹوں اور بیٹیوں کی عصمت رشک ملائکہ بھی اس وطن کی آبرو کی گراں قدر قیمت ہے اس ارض وطن کا ہر بچہ عزت وطن کی سدا بہار نعمت سے مالا مال ہے۔پاکستان کی زندگی اس کے دریا ہیں دریائوں پر موت وارد کرنے والا ظالم اور انسانیت دشمن ہندو بہت سفاک اور مکار ہے وہ اپنے ہم مذہب دلت اور شودروں کو برداشت نہیں کرتے۔ ہم اہل توحید و رسالت سے دشمنی کو نبھانا اس کے مذہبی اور ملی کردار کا اہم ترین جزو ہے۔ وہ مسلمان کو ہر جگہ اور ہر طریقے سے مارنے پر تلا ہوا ہے اس کی بدنیتی اور بد عملی کا مظاہرہ کشمیر میں ہو رہا ہے وہ مسلمان کی زندگی اور اس کی زندگی کے اسباب کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے لیے جو بھی ظالمانہ حرکتیں کر رہا ہے وہ اس کے دھرم کا تقاضا ے وہ پاکستان اور پاکستانی کو مٹانے کے لیے ہر اوچھی حرکت کر رہا ہے اور کرتا رہے گا۔ پاکستان مسلم عوام کا ہے اور کسی بھی طوطا چشم اور مفاد پرست نام نہاد سیاستدان کو یہ حق ہرگز ہرگز حاصل نہیں ہے کہ وہ پاکستانی عوام کے حقوق کے محافظ کسی بھی ترقی کے منصوبے کی مخالفت کرے۔ یہ ملک کسی بھی نواز شریف‘ زرداری‘ اسفند یار یا اچکزئی کا نہیں ہے۔ پاکستان کی معیشت کے ترقی کے اسباب پر بے رحمانہ تبصرے کی کوئی گنجائش نہیں کوئٹہ‘ کراچی اور حیدر آباد فیصل آباد میں جب پینے تک کا شفاف پانی بھی میسر نہ آئے اور پنجاب و سندھ کا کاشتکار اپنی فصلوں کی آب پاشی کے لیے مناسب پانی کی بوند بوند کو ترس (باقی صفحہ13پر ملاحظہ کریں) جائے۔ کراچی میں عورتیں بچے اور بوڑھے ‘ بوڑھیاں خالی برتن لیے پانی کی تلاش میں بے یارو مددگار گلی کوچوں میں گھومیں تو اس وطن عزیز کی آزادی کا کون سا تصور ابھرتا ہے؟ عوام کو زندگی اور زندگی کے اسباب درکار ہیں اور خاص طور پر اہم ترین سبب پانی درکار ہے عوام‘ چوروں اور ڈاکوئوں کی وراثتی جائیداد بن چکے ہیں یہ نام نہاد لیڈر جو دراصل واقعاتی لٹیرے اور مسلمہ ڈاکو ہیں۔ وطن عزیز کے وسائل سے ان بدکردار لوگوں کی تجوریاں بھر گئی ہیں۔ کمپنیاں بناتے ہیں قومی خزانے سے ان کو رقم ادھار دیتے ہیں اور پھر ان گھریلو کمپنیوں کا قرضہ معاف کر دیتے ہیں۔ کالا باغ ڈیم کسی بھی صوبے کا کوئی نقصان نہیں کر رہا ہے۔ تعمیراتی ماہرین اور واپڈا کے دیگر ماہرین کے علاوہ تجزیاتی کمیٹیوں نے اسے ملک کے لیے بہترین آبی منصوبہ قرار دیا ہے۔ ملک کو اجاڑنے والے پاکستان کے خزانے کو لوٹنے والے اور پھر کچھ وہ جو Rawکے باقاعدہ ایجنٹ ہیں۔ جن کے اکابر اور بزرگ اتنے چھوٹے تھے کہ بسکٹ کھانے کے لیے نہروسے ٹکے لیا کرتے تھے۔ وہ پاکستان دشمن نہ لبرل میں نہ ہی کمیونسٹ ہیں۔ وہ محض اپنے شکم کے بندے ہیں بھارت سے وفاداری اور پاکستان کو کمزور کرنا ان کے دل کے وہ جذبات ہیں جنہیں کبھی قرار نہیں آتا۔ وہ حیلوں بہانوں سے پاکستانی سیاسی شطرنج پر موجود رہتے ہیں وہ اعلیٰ رہائشیوں میں پرسکون اور مراعات یافتہ زندگی بسر کرتے ہیں۔ کالا باغ ڈیم کیوں نہ بنے اور ناقدین کون ہوتے ہیں پاکستان دشمنی کا فریضہ ادا کرنے والے۔قارئین! غریب کسانوں اور مفلوک الحال مزدوروں کی قسمت‘ سادہ عوام کی تقدیر کا فیصلہ وہ بدمست ہاتھی کرتے ہیں جنہوں نے کبھی زندگی کی صعوبت کو قریب سے نہیں دیکھا۔بس ایک عرض ہے قارئین کرام اس فقیر راقم کی کہ۔ ایک مہینے کے لیے زرداری اور اس کے بیٹے کے ساتھ سکھر والے خورشید شاہ کو کراچی کے کسی بھی غریب علاقے میں بھیج دیں اور کہیں کہ وہ روزانہ پانی کے لیے سرکاری نل پر جایا کریں تو انہیں عوام کی کسمپرسی کا احساس ہو گا۔ جاتی عمرہ اور بنی گالہ میں کبھی بھی پانی کی قلت نہیں ہوتی۔ یہ لیڈر کسان کی طرح ہل چلا کر زمین پھاڑ کر دانہ اگانے کی مشقت سے نہیں گزرے اور نہ ہی ان کے گھر اور کھیت میں پانی کی قلت ہوتی ہے ان کے گھروں کے باغیچوں میں کبھی بھی ایک قطرہ آب کم نہ ہوا۔ تھرکا علاقہ ان بدبخت اقتداری سواروں کو بددعائیں دیتا ہے جو اعلیٰ ترین یورپی محلات میں زندگی بسر کرتے ہیں اور ان کا یہ پیسہ پاکستانی خزانے سے لوٹا ہوا ہے یہ بے حس ہیں ظالم ہیں دشمن پانی بند کر رہا ہے اور یہ گھر میں پانی ذخیرہ کرنے کو روک رہے ہیں یہ روکنے والے ہندو تو نہیں ہیں۔ لیکن مسلم دشمنی اور پاکستان دشمنی میں ہندو سے کہیں زیادہ خطرناک ہیں۔ پاکستانی عوام کو پانی سے ترسانے والو اور پاکستان کے کھیتوں کو بنجر کرنے والو پاکستان کے عوام کی بددعائیں خاندانوں کو نام و نسب سمیت مٹایا کرتی ہیں۔