نہیں! جناب وزیر اعظم! غلط کہا آپ نے! سراسر غلط! اگر آپ کا اندازِ فکر یہی رہا تو دامن کا چاک سلے گا تو کیا! گریباں کے چاک سے آ ملے گا! پیراہن کے بخیے ادھڑ جائیں گے! مانا آپ سکندر ہیں! مقدر کے سکندر! مگر ارسطو سے محروم ہیں! کاش! حواریوں میں کوئی رجلِ رشید بھی ہوتا! وہی یک طرفہ‘ ایک طرف سے مُڑی ہوئی‘ ترچھی‘ اپروچ ہے آپ کی جو سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کی تھی! وہی Lop Sidedسوچ! پھر فرق کیا ہوا آپ میں اور آپ کے پیشرو میں! لگتا ہے حکمران اندر سے وہی ہیں۔ دکھانے کے لئے کوئی نواز شریف کی کھال اوڑھ لیتا ہے کوئی عمران خان کی! کھال کے اندر وہی ایک فرد! حکمت سے محروم ! اپنے آپ کو عقل کل گردانتا! چاپلوسی کرنے والے بونوں میں گھرا ہوا! وہی بادشاہ کے ’’لباس‘‘ کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملاتے بصارت اور بصیرت سے محروم درباری! اے زمین و آسمان کے خالق ! کوئی بچہ بھیج جو پکار اٹھے کہ بادشاہ سلامت برہنہ ہیں! مادر زاد برہنہ! الف ننگے! چار اپریل کو وفاقی اردو یونیورسٹی کا سنگ بنیاد‘ اسلام آباد میں رکھتے ہوئے وزیر اعظم نے جو کہا وہ نہ صرف مایوس کن ہے بلکہ جام جمشید ہے جس میں وزیر اعظم کے مستقبل کے پاکستان کو صاف دیکھا جا سکتا ہے۔ تین بڑے قومی اخبارات (بشمول روزنامہ 92) نے ان سے یہ فقرہ منسوب کیا ہے۔ ’’سڑکیں بنتی رہتی ہیں لیکن جب لوگوں پر پیسہ خرچ ہوتا ہے تو ترقی ہوتی ہے‘‘ چوتھے قومی اخبار نے اسے اس طرح رپورٹ کیا ہے۔ ’’پہلے سڑکوں کا افتتاح ہوتا تھا آج ہم یونیورسٹی کا سنگ بنیاد رکھ رہے ہیں‘‘ معروف انگریزی معاصر کے مطابق وزیر اعظم نے کہا Previously roads were inaugurated in the country but the nations who want to prosper invest in education. میاں نواز شریف شاہراہوں پر توجہ دیتے تھے تعلیم کا شعبہ ان کے نزدیک اہمیت نہیں رکھتا تھا۔ موجودہ وزیر اعظم (اپنے خیال میں) تعلیم کو اہمیت دے رہے ہیں جو انداز گفتگو ہے اس سے واضح ہو رہا ہے کہ سڑکیں ضروری نہیں! ’’سڑکیں بنتی رہتی ہیں‘‘کتنی حقارت ہے اس جملے میں! ’’پہلے سڑکوں کا افتتاح ہوتا تھا…‘‘ گویا پہلے ہوتا تھا! اب نہیں ہو گا! وزیر اعظم میں لیڈر شپ کوالٹی ہوتی‘ حکمت سے تعلق ہوتا۔ ترقی کا مطلب معلوم ہوتا تو کہتے‘‘ ہم سڑکیں بھی بنائیں گے اور تعلیم پر بھی توجہ دیں گے‘‘ اول تو نئی یونیورسٹیاں بنانے سے پہلے آپ پر لازم تھا کہ لاکھوں اجڑے ہوئے بے خانماں سرکاری سکولوں کی خبرگیری کرتے جہاں عمارتوں کی چھتیں ہیں تو دیواریں نہیں ہیں۔ استاد غائب ہیں۔ پینے کا پانی ہے نہ بیٹھنے کے لئے ٹاٹ! چلیے یونیورسٹیاں بنائیے‘ مگر خدا کے لئے یہ تو بتائیے کہ سڑکوں کو تعلیم کا حریف بنا کر کیوں پیش کر رہے ہیں؟ سڑکیں نہیں ہوں گی تو طلبہ اور طالبات کیا فضا میں تیر کر یونیورسٹیوں میں حاضر ہوں گے؟ عقل کے ناخن لیجیے جہاں پناہ! شاہراہیں اور پل بنیادی ضروریات میں سے ہیں۔ میاں نواز شریف میں لاکھ برائیاں تھیں مگر کون انکار کر سکتا ہے کہ موٹر وے بنا کر پنڈی میں میٹرو بس چلا کر‘ ایکسپریس وے کو کورال تک سنوار کر‘ لاہور کی رنگ روڈ بنا کر سابق وزیر اعظم نے کروڑوں پاکستانیوں کی زندگی کو آسان بنایا! ترقی کرنا‘ایک چومکھی لڑائی ہے! نواز شریف غلط تھے کہ انفراسٹرکچر پر توجہ دے رہے تھے اور صحت اور تعلیم یعنی سوشل سیکٹرز کو نظر انداز کر رہے تھے عمران خان اتنے ہی غلط ہیں کہ تعلیم پر توجہ دینا چاہتے ہیں اور انفراسٹرکچر سے تجاہل برت رہے ہیں! نہ صرف یہ کہ تجاہل برت رہے ہیں بلکہ ذکر بھی حقارت سے کر رہے ہیں! انفراسٹرکچر سے حقارت کا وزیر اعظم عمران خان عملی ثبوت پورا پورا دے رہے ہیں۔ شاہراہوں سے سوتیلی ماں کاسا سلوک کرنا انہوں نے شروع بھی کر دیا ہے۔ شاید وہ سمجھتے ہیں کہ شاہراہیں اور پل ان کے زمانے میں بنے تو یہ نواز شریف کا بالواسطہ تتبع ہو گا۔ اسے احساس کمتری کے علاوہ کیا کہا جا سکتا ہے! یکم اپریل کو دارالحکومت کے ترقیاتی ادارے کے چیئرمین نے وزیر اعظم کو تفصیلی بریفنگ دی اور ان منصوبوں کا ذکر کیا جو مستقبل قریب میں ترقیاتی ادارے کے پروگرام میں شامل ہیں‘ ان میں شیلٹر ہومز شامل ہیں کچی آبادیاں شامل ہیں۔ سربفلک عمارتوں کا ذکر ہے۔ تجاوزات کے خلاف آپریشن کا پلان ہے مگر دارالحکومت کے اہم ترین منصوبے کا جو نئی حکومت کے آتے ہی ادھورا چھوڑ دیا گیا، اس بریفنگ میں دور دور تک کوئی ذکر نہیں! گزشتہ حکومت نے دارالحکومت کو بقیہ ملک سے جوڑنے والی دو بڑی شاہراہوں پر توجہ دی تھی۔ مری روڈ پر صدر سے اسلام آباد تک میٹرو بس چلائی گئی۔ اس سے بھی زیادہ مصروف ایکسپریس ہائی وے تھی۔ اسے دو مرحلوں میں بانٹا گیا۔ پہلے مرحلے میں زیرو پوائنٹ سے لے کر کورال چوک(گلبرگ) تک آٹھ لین شاہراہ میں بدل دیا گیا۔ دوسرے مرحلے میں کورال(گلبرگ) سے لے کر جی ٹی روڈ (یعنی روات) تک تعمیر نو کا پروگرام تھا اس کے لئے گزشتہ حکومت نے پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام (P.S.D.P) میں دس ارب روپے مختص کیے تھے جن میں سے پونے تین ارب فوری طور پر ریلیز کرنے کا فیصلہ بھی کیا گیا تھا مگر تحریک انصاف کی حکومت نے آتے ہی اسے چھوڑ دیا(یا چھوڑ دینے کا حکم دیا؟) کیونکہ PSDP) میں سے اسے باقاعدہ نکال دیا گیا ہے۔ ترقیاتی ادارے کا سربراہ معذرت خواہانہ لہجے میں کہتا ہے کہ ’’ہم نے وفاقی حکومت سے دوبارہ درخواست کی ہے کہ اس منصوبے کو اگلے PSDP میں رکھا جائے‘‘ یہ ہے وزیر اعظم عمران خان کی شاہراہ دشمنی! یعنی آدھا منصوبہ مکمل ہو چکا ہے اور آدھا جو رہتا ہے اسے سبوتاژ کر دیا گیا ہے۔ ڈویلپمنٹ پروگرام ہی سے خارج کر دیا گیا ہے! میاں صاحب کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ پائوں پر کلہاڑی مارنے کے ماہر تھے۔ عمران خان دونوں پیروں پر کلہاڑی مار رہے ہیں۔ یہ شاہراہ جہلم چکوال دینہ منگلا مندرہ گوجر خان‘ کلر سیداں اور ہزاروں ملحقہ دیہات کو ہر روز دارالحکومت لاتی ہے اور شام کو واپس لے کر جاتی ہے۔ پی ڈبلیو ڈی، بحریہ‘ ڈیفنس ‘ کورنگ ٹائون‘ نیول اینکریج‘ غوری ٹائون‘ جناح ٹاؤن‘ سواں گارڈن‘ پاکستان ٹائون اور بیسیوں دوسری آبادیاں اسے حبل الورید کے طور پر استعمال کر رہی ہیں۔ کاش کوئی وزیر اعظم کو بتاتا کہ مریض‘ عورتیں‘ بچے لاکھوں مسافر‘ اس سڑک پر ہر صبح اور ہر شام گھنٹوں سسک سسک کر اذیت کے گھونٹ پیتے ہیں ہزاروں ٹرک غنڈہ گردی سے مسافروں کا حق مارتے ہیں۔ برادرم فواد چودھری کے جہلم سے ہر روز لاکھوں افراد اس شاہراہ پر جہنم کا سامنا کرتے ہیں۔ نواز شریف کی دشمنی میں اس حد تک نہ جائیے کہ خلق خدا جھولیاں اٹھا اٹھا کر آپ کو بددعائیں دے۔ سالانہ ترقیاتی پروگرام (PSDP) میں رکھے ہوئے پروگرام کو آپ کوشش کر کے منصوبہ بندی کے ساتھ باہر نکال رہے ہیں۔ عوام دشمنی کی یہ آخری حد نہیں تو کیا محض آغاز ہے؟ وہ دو نوجوان یاد آ رہے ہیں جو کچھ دن پہلے اس عزم کا اظہار کر رہے تھے کہ اگر یہ منصوبہ جاری نہ رکھا گیا تو ہم جہلم اور چکوال سے لے کر کورال تک پچاس ہزار پوسٹر بانٹیں گے جس میں عوام کو باور کرائیں گے کہ ’’شاہراہ دشمن‘‘ حکومت کو ووٹ نہ دیں! وزیر اعظم ہیلی کاپٹر کو ایک طلاق دے کر‘ بنی گالہ کے تین سو کنال وسیع قصر جانے کے بجائے ایک دن بھیس بدل کر ایکسپریس وے کے ذریعے روات تک سفر کر کے دیکھیں ۔ آپ تو یوں بھی عقل مند ہیں اور ع عقل عیار ہے سو بھیس بدل لیتی ہے!