بھٹوز کی سیاست سے اور شخصیت سے کتنا ہی اختلاف ہو۔۔۔مگر ایک بات تسلیم کرنی پڑے گی کہ حکومت سے باہر یعنی جب وہ اپوزیشن میںہوں تو ان کے انداز ِ سیاست اور خطابت میں ایک خاص محبوبیت اور والہانہ پن ہوتا ہے۔اور شاید یہی سبب ہے کہ بھٹو خاندان کی تیسری پیڑھی یعنی بلاول بھٹو فکری ، نظری اور شخصی طور پر اپنے نانا ذوالفقار علی بھٹو ،والدہ محترمہ بے نظیر بھٹو جیسی علمیت ،قابلیت اور ذہانت نہ بھی رکھتے ہوں ۔۔۔مگر آج ملک کی دوسری بڑی پارٹی کے قائد کی حیثیت سے کروڑوں نہیں تو لاکھوں دلوں پر ، خاص طور پر سندھ میں راج کر رہے ہیں۔سیاسی طور پر اپنی کم سنی یعنی طالب علمی کے زمانے میں کراچی کے نشتر پارک میںجب ایوب حکومت سے علیحدگی کے بعد بھٹو صاحب کو پہلی بار تقریر کرتے سنا تو آنکھ نہیں جھپک رہی تھی۔جیب میں بس کاکرایہ نہ ہوتامگر جہاں ان کے جلسے کی خبرملتی ،پیدل دس پندرہ کلو میٹر کا فاصلہ طے کر کے انہیں دیکھنے اور سننے پہنچ جاتے۔بینظیر بھٹو صاحبہ کو پہلی بار دیکھا تو ابھی عمر عزیز کے انہوں نے بائیس سال پورے کئے ہوں گے۔مگر اپنی ٹوٹی پھوٹی اردو میںضیاء آمریت کو للکارتیں تو ’’فوجی آمریت‘‘ کے خلاف ایک شدید مغلوبیت غالب آجاتی۔بلاول بھٹو زرداری کو اِدھر چند سال سے سیکورٹی کے حصار میں دیکھا اور ایک دو بار قریب سے بات چیت کا موقع بھی ملا۔جولائی2018کے الیکشن میں بھی ایک آدھ خطاب نے متاثر بھی کیا۔مگر 20مارچ کو نیب کے کٹہرے سے باہر نکل کر بلاول کا خطاب بے ساختہ اور بڑا سحر انگیز تھا۔اپنے نانا اور والدہ جیسے نوجوان بھٹو کو اپنی دس سالہ سیاسی زندگی میںپہلی بار احتسابی کٹہرے میں نیب کے نچلے درجے کے احتسابی افسران کا سامنا کرنا پڑا۔نوجوان بلاول نے اس بات کا اعتراف کیا کہ ’’نیب‘‘ کو اپنی حکومت کے دور میں برقرار رکھنا اُن کی جماعت کی سب سے بڑی غلطی تھی۔کچھ اس ہی طرح کا اعتراف شریف خاندان بھی کرتا نظر آتا ہے ،جس نے احتساب بیورو کی بنیاد رکھ کر بھٹو اور زرداری خاندان پر ایسے ایسے بد ترین بلکہ گھناؤنے مقدمات دائر کئے کہ جن کی وجہ سے اُن کے ہاتھ پیر ہی نہیں ،بلکہ برسوں سے گردنیں تک جکڑی ہوئی ہیں۔سیاست میں غلطیاں بلکہ سنگین اور بھیانک غلطیاں ہمارے جیسے تیسری دنیا کے پسماندہ ملک کے سیاست دانوں سے ہی نہیں بلکہ مغرب کے جہاندیدہ سیاستدانوں سے بھی ہوتی ہیں۔مگر وہاں محض حکومتی تختہ ہی الٹا جاتا ہے۔شا ذ و نادر ہی تختہ ٔ دار پر چڑھنے کی نوبت آتی ہے۔اندرا گاندھی کے نوجوان مہذب صاحبزادے راجیو گاندھی ’’تامل باغیوں‘‘ کے ہاتھوں بھرے ہجوم میں خوں ریز دھماکے کی نظر ہوگئے۔بنگلہ بندھو شیخ مجیب الرحمان جو کروڑوں عوام کے دلوں میں دھڑکتے تھے۔۔۔اقتدار میں آنے کے چند سال بعد اپنے آمرانہ طرزِ حکومت کے سبب اپنی ہی قوم کے مٹھی بھر فوجیوں کے ہاتھوں خاندان سمیت قتل ہوئے تو 48گھنٹے تک اُن کی لاش بے گور و کفن پڑی رہی۔بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی اور بنگلہ بندھو شیخ مجیب الرحمان کے سیاسی عروج اور پھر عبرتناک انجام پر سینکڑوں کتابیں لکھی جا چکی ہیں ۔ان کتابوں کے بیشتر بلکہ سارے ہی مصنفین ان کے المناک انجام کا سبب خود اُن کی اپنی کی گئیں غلطیاں بتاتے ہیں۔احتیاط کا دامن تھامتے ہوئے میں blunderیا crimeجیسا لفظ استعمال نہیںکروں گا۔مگر حقیقتاً سیاست کے حوالے سے اُ ن کے حامیوں اور چاہنے والوں کی تو مجبوری ہے۔۔۔مگر اُن کے مخالف بلکہ غیر جانبدار مبصرین انہیں ان کاblunderیاcrimeہی سے تعبیر کرتے ہیں۔نیب عدالت کے باہر بلاول بھٹو زرادی کی چیختی چنگھاڑتی تقریر جس میں انہوں نے تحریک انصاف کی حکومت پر بڑھ چڑھ کر حملے کرنے کے ساتھ اشاروں کنایوں میں پنڈی آب پارہ کو بھی لپیٹااور پھر حکومتی دور میں اُن کی قیادت کا نیب کا خاتمہ نہ کرنے کی غلطی کا بڑا معصومانہ انداز میں ذکر کیا ۔ ۔ ۔ بھٹو خاندان کے سیاسی وارث نوجوان بلاول بھٹو زرداری پر گفتگو کرتے ہوئے میں عموماً گریز ہی کرتا ہوںکہ ایک تو اُن کو سب کچھ وراثت میں ملا ہے۔ایک مہذب خاندانی نوجوان کی حیثیت سے بھی ان کا فریضہ ہے کہ وہ اپنی والدہ بے نظیر بھٹو اور نانا ذوالفقار علی بھٹو کے دورِ حکومت میںکی گئی غلطیوں پر صَرف ِ نظر کریں۔ اُن سیاسی غلطیوں کے علاوہ ان کے انجام کا سبب وہ مشیر،وزیر اور جیالے بھی تھے کہ جن میں سے بیشتر کا کردار بد قسمتی سے دودھ پینے والے مجنوؤں والا تھا۔آگے بڑھنے سے پہلے ایک اور اعتراف یہ کہ نوجوان بلاول بھٹو زرداری نے اپنے سیاسی کیریئر کا آغاز اپنی والدہ کی شہادت کے بعد اپنے والد محترم آصف علی زرداری کی سرپرستی اور رہنمائی میں کیا ہے۔اور پھر یہ تو تاریخی حقیقت ہے ہی کہ جب پی پی کو پہلی حکومت 1988ء میں ملی اور محض سال بھر بعد ہی پی پی کی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد لائی گئی تو عملاً پارٹی شہید بی بی بینظیر بھٹو کے بجائے آصف علی زرداری کو منتقل ہوچکی تھی ۔جو اُس زمانے میں بڑے یقین سے کہتے تھے کہ ’’شریف خاندان‘‘ کو سیاسی میدان میں ہم اُسی وقت شکست دے سکتے ہیں جب شریفوں کے ایک سو کروڑ کے مقابلے میں دو سو کروڑ روپے سے اپنے ارکان کی سیاسی وفاداریاں تبدیل نہ کرنے کے وسائل رکھتے ہوں۔زیادہ تفصیل میں نہیں جاؤں گا مگر میرے صحافتی استاد بھٹوخاندان کے انتہائی قریب سینئر صحافی محترم بشیر ریاض جو Bashکے نام سے شہرت رکھتے ہیں۔۔۔بہت تفصیل سے اپنی کتاب ’’بھٹو خاندان: جہدِ مسلسل ‘‘ میں لکھ چکے ہیں کہ نومبر1989ء میں تحریک عدم اعتماد کے وقت خود اُن کی اپنی جماعت کے جیالے ارکان اسمبلی اپنی قربانیوں کا تاوان طلب کرنے کے لئے بے چین و بے قرار ہونا شروع ہوگئے تھے۔اور پھر انہیں قابو کرنے کے لئے ’’پیسوں اور پلاٹ‘‘ سے نوازا بھی گیا۔ان میں سے بیشتر کے نام ہمارے Bashنے لکھ بھی دئیے ہیںمگر ان میں کچھ اب اس دنیا سے رخصت ہوگئے ہیں۔اس لئے اپنے استادوں کے نصاب کی روایت پر چلتے ہوئے دل آزاری سے گریز کروں گا۔اگر یہ کہوں تو تاریخی طور پر غلط نہ ہوگا کہ جنرل ضیاء الحق کی حکومت کے خلاف دس سالہ جدو جہد اور قربانیوں کے بعد 1988میں جو پیپلز پارٹی کی قائد محترمہ بے نظیر بھٹو نے مشروط اقتدار لیا ۔در اصل وہ پہلی غلطی تھی ۔اسٹیبلشمنٹ کے ستون ،غلام اسحاق خان صدر،صاحبزادہ یقوب خان ،وزیر خارجہ اورپھر آرمی چیف جنرل مرزا اسلم بیگ کو رضامند رکھنے کے لئے لیاقت باغ میں اُن کو تمغہ ٔ جمہوریت سے نوازنا وہ پہاڑ جیسی غلطیاں تھیں کہ جن کے بعد معروف اصطلاح میں پی پی کی قیادت نے پلٹ کر نہیں دیکھا۔بصد احترام نومبر 1989ء کے بعد بھٹوز کی پارٹی ،زرداریز کی پارٹی ہوچکی تھی۔جن کی جرأت و بہادری کی افسانوی کہانیاں اپنی جگہ۔مگر جنہوں نے سیاست میں ’’دوست نوازی‘‘ کی وہ بنیاد رکھی کہ آج ہمارے صاف و شفاف وزیر اعظم بھی اُسی روایت پر گامزن ہیں۔اس وقت پاکستان پیپلز پارٹی کی ساری قیادت، بالخصوص زرداری خاندان جس احتسابی عمل سے گزر رہا ہے اُس میں یقینا نوجوان بلاول کے پاس اتنا وقت نہ ہو گاکہ وہ اپنی پارٹی کی قیادت کی ماضی کی غلطیوں کا جائزہ لیں اور مطالعہ کرسکیں۔ نوجوان بلاول کو اتنا مشورہ دینے میںتو مضائقہ نہیں کہ محض ’’نیب کا خاتمہ‘‘ نہ کرنا ہی اُن کی جماعت کی ایک غلطی نہیں ۔کالم آخری دموں پر ہے اس لئے غلطیوں کا بستہ نہیں کھولوں گا۔مگر اتناکہنے کی ضرورجسارت کروں گا کہ غلطیوں کے اعتراف کے ساتھ ان سے سیکھنا بھی ضروری ہوتا ہے ۔کیا وہ اس کے لئے تیار ہیں؟