عمران خان جب یہ کہتے ہیں کہ جب انہیں سادہ اکثریت بھی حاصل نہیں ہوئی تھی تو ان کیلئے یہی بہتر تھا کہ اقتدار میں نہ آتے' کیونکہ بہت سی بیساکھیوں سے کھڑی حکومت کبھی بھی جراتمندی سے آزادانہ فیصلے نہیں کرپاتی۔ بلکہ قدم قدم پر مصلحت کا شکار رہتی ہے۔ 2018ء کے انتخابات سے پہلے اگر آپ جسٹس وجیہہ الدین کی رپورٹ پڑھ لیں تو اندازہ ہوجائے گا کہ تمام حقائق عمران خان کے سامنے روز روشن کی طرح عیاں تھے' لیکن کیا کیجئے کہ اس وقت اقتدار میں آنے کا جوش ان کے سر پر سوار تھا۔ جہانگیر ترین جو ایک کیس میں نااہل قرار دیئے جاچکے تھے۔ عمران خان کو اقتدار میں لانے کیلئے وہ اپنی جماعت کے منتظم اعلیٰ تھے۔ عمران خان نے اس وقت جسٹس وجیہہ الدین جیسی اعلیٰ شہرت کے بندے کو نکال دیا۔ حامد خان الگ ہوگئے' اس وقت بہت سے لوگوں نے عمران کو بڑے صائب مشورے دیئے' لیکن اس وقت عمران خان کسی کی بات سننے کو تیار نہیں تھے۔ جب 2013ء کے انتخابات میں عمران خان کی جماعت قابل لحاظ کامیابی حاصل نہیں کرپائی تھی، اس کے بعد جہانگیر ترین عمران خان کو لے بیٹھے۔ ایک چارٹ ان کے سامنے رکھا اور انہیں ایک ایک حلقے کے متعلق بتایا کہ وہ ان حلقوں سے کیوں ہارے۔ عمران کو ہر چیز معلوم تھی' انہیں معلوم تھا کہ وہ جو الیکٹ ایبل لائیں گے ظاہر ہے ان کے مفادات ہوں گے۔ انہوں نے جانتے بوجھتے وہ کیا جس کو وہ غلطی کہتے ہیں' ممکن ہے وہ ان کی ناتجربہ کاری ہو' مصلحت تھی یا حماقت تھی' لیکن انہوں نے اسی طریقہ کار اور انداز کو اپنایا۔ اس لئے جب وہ اقتدار میں آگئے تو ان کا رہن سہن اور انداز سیاست بدل گیا۔ لیکن اس حقیقت سے کون انکار کرسکتا ہے کہ ان پر جب بھی کوئی کرائسس آیا جہانگیر ترین اور علیم خان انہیں اس کرائسس سے نکال کر لائے ہیں۔ اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ عمران کو یہ بات ما ننی چاہئے یہ اعتراف کرنا چاہئے جیسے وہ بہت سی دیگر باتوں کا کررہے ہیں کہ انہوں نے متعدد مواقع اور موڑ پر اپنے انتہائی وفادار ساتھیوں کی رائے کو اہمیت نہ دے کر غلطی کی تھی۔ پھر یہ بھی کہ انہیں جہانگیر ترین اور علیم خان کے ان احسانات کا پاس رکھنا چاہئے تھا۔ شاید آج عمران خان یہ سمجھ کر کہ وہ شہرت اور مقبولیت کے سرپٹ دوڑتے گھوڑے پر سوار تمام حدود پھلانگتے چلے جارہے ہیں۔ کسی کی حمایت ' تعاون یا دوستی ان کیلئے کوئی معنی نہیں رکھتی۔ ان سے مزید غلطیاں کراسکتی ہے' جبکہ وہ خود کہتے ہیں کہ اچھے ساتھی وہی ہوتے ہیں جو مشکل اور آزمائش کے وقت میں ساتھ کھڑے رہیں۔ عمران تاریخ کا یہ سبق بھی یاد رکھیں کہ سیاست میں بے لچک موقف اور دوسروں کو برداشت نہ کرنے کی سوچ بالآخر آپ کو تنہا کرتی ہے۔ عمران خان اس اعتبار سے خوش قسمت ہیں کہ اپنی پونے چار سالہ حکومت کی کمزوریوں' خامیوں اور غلطیوں پر پردہ ڈال کر انہوں نے لوگوں کو کسی ایسے راستے پر ڈال دیا ہے کہ ان کے موقف کی تائید میں پاکستان کے طول و عرض میں انہیں زبردست حمایت حاصل ہوگئی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہوگا کہ آنے والے دنوں میں اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا۔ لگتا یہ ہے کہ گزشتہ اڈھائی ماہ میں ہماری سیاست میں جو کچھ ہوا ،اس نے ہمارے پورے سسٹم کو ایکسپوز کردیا ہے۔ ہمیں اندازہ ہونا چاہئے کہ ہم سے کہاں کہاں غلطیاں ہوئیں۔ اس دوران بے شمار سوالات اٹھ رہے ہیں کہ جس بچے کو گود سے اتارا وہ مچلنے لگتا ہے' رو رو کر آسمان سر پر اٹھالیتا ہے۔ پھر جو سب سے زیادہ تقسیم ہوئی وہ ہمارا اپنا شعبہ ہے یعنی میڈیا۔ اس میں تقسیم در تقسیم ہوگئی۔ صف بندی ہوگئی۔ نہ جانے کہاں کہاں سے دلیلیں لاتے ہیں۔ ایک دوسرے کو ناک آؤٹ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کہیں توصیف و تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملادیتے ہیں' کہیں تنقید کے تیز و تند تیروں سے مخالفین کو چھلنی کردیتے ہیں۔ یہ درست ہے کہ جو آپ درست سمجھتے ہیں وہی کہنا چاہئے' وہی لکھنا چاہئے،لیکن آزاد صحافت یہ تونہیں کہ آپ اپنی خواہش اور آرزو کو خبر بنانے کی کوشش کریں۔ یہ تو آپ مختلف جماعتوں کے فین کلبس کے ممبر بن گئے۔ صحافت کا مطلب تو یہ ہے کہ اچھے کو اچھا اور برے کو برا کہیں۔ کسی کے ساتھ زیادتی ہو تو اٹھ کھڑے ہوں۔ تمام سیاسی جماعتوں کے طریقے کار اور انداز کو دیکھیں۔ ان سب کو بلاتخصیص اپنے مفادات کی پڑی ہوئی ہے۔ یہ سیاست کا کونسا رنگ ہے کہ آپ ایک دوسرے کو دھمکیاں دے رہے ہیں' گالیاں دے رہے ہیں' اخلاقیات کی جس طرح دھجیاں بکھیر رہے ہیں کہ تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ ایک دوسرے سے ہاتھ ملانا تو دور بات شکل دیکھنا نہیں چاہتے۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ عمران خان نے جس طرح کی سیاست شروع کی ہے وہ جمہوری نظام کیلئے درست نہیں۔ عام حالات میں وہ خود کو اس طرح پیش کرتے ہیں جیسے کوئی دیوتا ہوں' جو دودھ سے دھلا ہو' جس سے غلطی ممکن نہ ہو۔ پھر جب وہ آزمائش میں آئے تو ہر طرح کے کمپرومائز کرنے لگتے ہیں۔ یہ طرح طرح کی مصلحت کا شکار ہوجاتے ہیں۔ عمران خان کو ہٹانے کیلئے تحریک عدم اعتماد کا جو طریقہ کار اپنایا گیا۔ وہ کسی بھی طور پر غیر آئینی نہیں تھا۔ ان کو ہٹانے کیلئے ان کی جماعت کے کسی بھی رکن کا ووٹ استعمال نہیں کیا گیا۔ جب انہیں اندازہ ہوگیا تھا کہ وہ اکثریتی ارکان کی حمایت سے محروم ہوگئے ہیں تو اسپورٹسمین اسپرٹ کا تقاضہ تھا کہ وہ اس کو تسلیم کرتے۔ باوقار انداز سے اپوزیشن میں جابیٹھتے' لیکن انہوں نے اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کو استعمال کرکے ''میں نہ مانوں'' کی پالیسی اختیار کرلی۔ بات سپریم کورٹ تک گئی۔ عمران خان نے سپریم کورٹ کے فیصلے کو بھی تسلیم نہیں کیا' مزاحمت کرتے رہے۔ ووٹنگ کرانے میں انہوں نے جو حربے استعمال کئے وہ بھی ایک مقبول سیاسی لیڈر کے شایان شان نہیں تھے۔ ادارے حرکت میں آئے تو پھر بادل نخواستہ انہیں جانا پڑا۔ اس سارے معاملے میں یہ مزاحمت ناقابل فہم تھی۔ اس کا مطلب بالکل واضح تھا۔ وہ براہ راست کہہ رہے تھے کہ انہیں حکومت میں رہنے دیا جائے۔ ورنہ وہ علم بغاوت بلند کریں گے۔ وہ پورے سسٹم کومفلوج کرنے کیلئے وہ سب کچھ کریں گے جو ان کے باس میں ہوگا۔ اب وہ ایسا ہی کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ انہوں نے صحیح یا غلط جو بیانیہ بنایا اسے عوام کی قابل لحاظ تعداد نے قبول کیا۔ ان کی گرتی ہوئی ساکھ کو نہ صرف سنبھالا دیا بلکہ ان کے ساتھ ہمدردی کی ایک لہر نے ان کی مقبولیت میں بے پناہ اضافہ کیا۔ پہلے انہوں نے خط کو جس حد تک لہراسکتے تھے لہرایا۔ پھر جب خط کی افادیت کمزور پڑنے لگی تو انہوں نے اپنے بیانیے کو خالصتاً اینٹی امریکن کا لبادہ پہنایا اور خط کے جادو کو بتدریج قوم کی آزادی اور خود مختاری کی طرف موڑ دیا۔ وہ بڑے یقین سے اپنی بات کہنے اور بار بار کہنے میں مہارت رکھتے ہیں۔ اس پورے Episode میں سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ انہوں نے بڑی ہوشیاری سے لوگوں کے جذبات کو ابھارا اور اپنے موقف میں وہ ایک بار پھر یہ بات بڑی ہوشیاری سے گول کرگئے کہ اپنے پونے چار سال کے دور حکومت میں ان کی گورننس کا معیار کیا تھا۔ انہوں نے لوگوں کو ریلیف دینے کیلئے کیا اقدامات کئے۔ ہوشربا مہنگائی' بیروزگاری اور ہر شعبے میں سکڑتے مواقع نے جس طرح عوام کی زندگی اجیرن کی یہ تو ان کے خلاف چارج شیٹ ہے' وہ اس کا جواب کیوں نہیں دیتے۔