آج کل پاکستانی سیاست کے دل کے پہلو میں بڑا شور اٹھا ہوا ہے۔ کہتے تو یہ ہیں کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا مگر پیپلز پارٹی کا لانگ مارچ، تحریک انصاف کا مارچ جس کو سندھ کے حقوق کی ریلی کا نام دیا ہوا ہے لیکن یہ سارا شور حصول اقتدار کے سوا کچھ نہیں۔ اس میں عوام کہیں بھی نظر نہیں آتے ، وہ سیاستدان ہی اس ملک میں نہیں رہے جن کا ہاتھ عوامی نبض پہ رہتا تھا۔ ٹی وی ٹاک شو میں اینکر پرسن اپنی ٹائی دکھا کر یا تڑکے کے طور پر دو چار پنجابی کے جملے بول کر پروگرام کی ریٹنگ بڑھانے میں مصروف رہتے ہیں، بیچارے عوام کہیں نظر ہی نہیں آتے، نہ تو حکومت کے پاس ایسا کوئی پلان ہے نہ ہی اپوزیشن کے پاس عوام کو سکھ کا سانس لینے کیلئے کوئی حکمت عملی ہے۔ بس اقتدار، اقتدار ہم نے PPP کوبھی اقتدار میں دیکھا، نواز شریف کو بھی عوام کو آسرے دیتے ہوئے دیکھا لیکن اس ملک کی عوام نے نہ کوئی سکھ دیکھا نہ کوئی انصاف ملا۔ انصاف کے نام پر بننے والی پارٹی بھی اقتدار میں آئی مگر عوام بیچارے کبھی کورونا کبھی مہنگائی کی مصیبتوں میں پستے رہے لیکن ابھی بھی تحریک انصاف کی حکومت پرامید ہے، وہ ضرور عوام کو سکھ کی راہ پر لے آئیگی۔ لیکن ایسی سیاست کی بات کرنا تو خاص لوگوں کا ہی کام ہے،اس خطے کی تاریخ بہت خوبصورت اور دل کو محصور کرنے والے ادب سے بھری پڑی ہے۔ میرا ایک دوست عامر اللہ زکوڑی،جو زکوڑی شریف درگاہ کا ہے تو گدی نشین مگر وہ روایتی پیر نہیں، وہ تو ایک باغیانہ مجاز کا نوجوان ہے،وہ پشتو شاعری کا حافظ ہے،وہ جب بھی ملتا ہے،مجھے اپنے خوبصورت اور محصور کن لہجے میں شاندار پشتو شاعری سناتا ہے ،اس دفعہ شہر اقتدار میں ملاقات ہوئی تو جاتی ہوئی سردیوں کی خنک ہوا ،جس میں نشی کے ہلکے سرور جیسی لذت میں پشتو کی شاعری نے سارے غم اور تھکن کو دور کردیا۔ اس دفعہ اس نے مجھے عبدالغنی جو ایک فلسفی اور خیبر پختونخوا کے اونچے پہاڑوں سے بھی بلند عقل اور علم کے جیتے جاگتے پہاڑ کے طور پر مشہور ہے ،اس کی شاعری سنائی،ایک اور پشتو کا شاعر شعیب صادق کی وہ مشہو رنظم جس میں وہ غنی کو مخاطب ہو کر کہتا ہے کہ الامینہ مینہ مینہ اے محبت محبت محبت محبت صرف دیوانوں کا کام ہے دیوانوں کا ایک اظہار ہے غنی دیوانوں کا یار ہے بس صرف ایک حسن کی وجہ دیوانوں کی زندگی دار پر ہے اور غنی دیوانوں کا یار ہے عقلمندوں نے کوئی نفع حاصل نہیں کیا اس دفعہ باری دیوانوں کی ہے غنی دیوانوں کا یار ہے عقلمند اس کو کہاں سمجھتے ہیں یہ تو دیوانوں کا روزگار ہے پشتون نوجوانوں میںغنی خان کی شاعری بہت مقبول ہے۔ حالانکہ خان غفار خان کے اس بیٹے نے جب سیاست میں دلچسپی لینے کے بجائے ادب اور فن کا راستہ اختیار کیا، تو باچا خان کے خاندان کے حوالے سے ایک قسم کے افسوس کا اظہار ہونے لگا تھا۔لوگوں کو یہ بات عجیب لگ رہی تھی کہ وہ خاندان جس کی شناخت پاکستان سے پہلے بھی سیاست تھی اور پاکستان کے بعد بھی سیاست ہے،اس خاندان کا تعلیم یافتہ فرد سیاست کے اسٹیج کو چھوڑ کر ادب اور فن کی دنیا میں جا کر کیا کرے گا؟ ویسے بھی ہمارے معاشرے میں فن اور ادب کو اس لیے ناپسند کیا جاتا ہے کہ اس میںدولت اور طاقت نہیں ہوتی۔سندھی زبان کے بہت بڑے شاعر شیخ ایاز نے جب اپنی کامیاب وکالت کو چھوڑ کر کل وقت ادب اور شاعری کو دیا ،تو اس کے وکلاء دوست ان سے ایک طرح کا اختلاف بھی رکھنے لگے اور انہیں کہنے لگے کہ آپ کچھ وقت وکالت کو بھی دیں توکیا حرج ہے؟ اس سوال کاجواب دیتے ہوئے انہوں نے اپنی ایک نوٹ بک میں لکھا تھا: ’’شاعری میں پیسہ نہیں ہے مگر پیسے میں بھی شاعری نہیں ہے‘‘ ایک ذہین انسان کے زندگی میں ہمیشہ ایک دور آتا ہے۔ زندگی اس سے پوچھتی ہے کہ اسے کون سا راستہ اختیار کرنا ہے؟ ولی خان کی زندگی میں یہ دور آیا تو اس نے سیاست کا انتخاب کیا مگر ان کے بھائی غنی خان نے دنیاداری کا راستہ اختیار کرنے اور سیاست کی دنیا میں جاکر جھوٹ بولنے کے بجائے شاعری اور آرٹ میں سچ بولنے کا فیصلہ کیا اور وہ آخری دم تک اپنے اس فیصلے پر قائم رہے۔ انہیں زندگی میں کبھی اس بات کا پچھتاوا نہیں رہا کہ انہوں نے سیاست کو بطور پیشہ کیوں نہیں اپنایا؟ سیاست باچا خان کے گھر میں اس طرح تھی جس طرح سرداروں کے گھروں میں سرداری ہوتی ہے۔ سیاست ان کی پہچان بلکہ اس خاندان کا اوڑھنا پچھونا رہی ۔ مگرغنی خان نے اپنے آبائی پیشہ کا حصہ بننے کے بجائے الگ راہ لی اور یہ راہ ان کے لیے پہلے تو مشکل تھی۔ کیوں کہ خان غفار خان کے خاندان کا کلچر سیاسی تھا۔ ان کے پاس آنے والے لوگ اور ان کا اٹھنابیٹھنا اور ان کا ملنا ملانا مکمل طور پر سیاسی تھا مگر جب غنی خان کی صورت میں باچا خان کے خاندان میں ایک الگ راستہ بھی پیدا ہونے لگا تو اس خاندان کی روایت نے اسے ابتدا میں پسند نہیں کیا۔ مگر ہم باچا خان کی اس بات کے متعارف ضرور ہونگے کہ انہوں نے اپنے ادیب اور شاعر بیٹے کی دل شکنی نہیں کی۔ انہوں نے غنی خان پر کسی قسم کا دباؤ نہیں ڈالا کہ اسے سیاست یا سرداری میں دلچسپی لینی چاہیے۔ پاکستان کے پشتون خاندانوں میں دو ہی راستے ہوتے ہیں۔ ایک راستہ سرداری کا ہوتا ہے اور دوسرا سیاست کا۔ مگر غنی خان نے تیسرا راستہ اختیار کیا اور وہ راستہ فن کا تھا۔ایسا نہیں کہ غنی خان دماغی طور پر ذہین نہیں تھے۔ وہ بہت ذہین تھے اور ان کی لائبریری پاکستان میں مشہور تھی۔ وہ ہمیشہ لکھنے پڑھنے میں مصروف رہتے تھے اور باچا خان کے خاندان کے خیراندیش اس بات پر افسوس کا اظہار بھی کرتے تھے کہ غنی خان کی صورت میں باچا خان کو ایسا بیٹا ملا جوکسی کام کا نہیں ہے مگر تاریخ نے ثابت کیا کہ باچا خاندان کے جن افراد نے سیاست کا راستہ اپنایا وہ وقت کے سفر میں ایک یاد بن کر رہ گئے مگر غنی خان آج بھی پشتون نوجوانوں کے دل کی دھڑکن ہے۔ انگریزوں کی تاریخ میں کتنے بادشاہ آئے اور گئے؟مگر شیکسپیئر کا نام آج بھی جس محبت اور عقیدت سے لیا جاتا ہے اس کا مقابلہ کوئی بادشاہ یا کوئی ملکہ نہیں کرسکتی۔کیوں کہ دولت اور طاقت بہت عام چیزیں ہیں۔ یہ چیزیں آتی ہیں اور چلی جاتی ہے۔ سیاست میں شہرت ہوتی ہے مگر اس شہرت کو وہ آفاقیت اور وہ دوام حاصل نہیں ہوتا جو ادب اور فن کو ملتا ہے۔ سیاستدان مفاد کو دیکھ کر بات کرتے ہیں۔ مگر ادیب اور شاعر اپنے من کو دیکھ کر بات کرتے ہیں ۔ سیاست میں سچ بولنا بہت مشکل ہوتا ہے اور شاعری میں جھوٹ بولنے کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔ اس لیے غنی خان نے سیاست کے بجائے سچ کا راستہ اختیار کیا۔ انہوں نے ہر روز موقف تبدیل کرنے کے بجائے وہ کہانی سنانا شروع کی جس کہانی میں عقل نہیں بلکہ عشق ہے۔جس کہانی میں سیاست نہیں بلکہ محبت ہے۔جس کہانی میں بلند پہاڑوںکاحسن ہے۔ سب سے اہم اور بنیادی بات جس کہانی میں دماغ کی غلامی نہیں بلکہ جس کہانی میں بغاوت ہے۔ جس کہانی میں دیوانگی ہے۔ غنی خان کی پوری شاعری کو پڑھنے سے جو لطف ملتا ہے وہ لطف خیبر پختون خوا کی سیاست میںتلاش کرنا مشکل ہے۔ سیاست بہت عارضی ہے۔ فن اور ادب دائمی ہے۔ ایک سیاستدان اپنا وقت پورا کرکے چلا جاتا ہے اور بعد میں اس کو کوئی یاد رکھنے والا بھی نہیں ہوتا۔ جب کہ ایک ادیب اور شاعر نسل در نسل اپنی قوم کے خون میں گردش کرتا رہتا ہے۔ وہ تاریخ میں ایسا مقام حاصل کرتا ہے جس کو زوال نہیں ہوتا۔ وہ مقام مستوں کا ہے۔ دیوانوں کاہے۔ غنی خان مستوں کا میت ہے۔ کیوں کہ غنی خان خود بھی مست ہے۔ غنی خان دیوانوں کا دوست ہے۔ کیوں کہ غنی خان خود بھی دیوانہ ہے۔ ایسی دیوانگی انسان کو عظمت سے ہمکنار کردیتی ہے۔ وہ عظمت جس پر کبھی زوال کا سایہ نہیں پڑتا۔