غنی خان کی شاعری کے بارے میں کچھ کہنا یا لکھنا ایک مشکل کام ہے ۔ کئی دفعہ اس مشکل کام کو کرنے کا ارادہ کرلیتاہوں لیکن پھر ہچکچاجاتاہوں کہ ایک ایسے شاعر کے بارے میں آخر کیا لکھوں جوکسی کے ہاں فلسفی اورکسی کے نزدیک وہ ایک فلسفی شاعرتھے جبکہ خود انہوں نے اپنے آپ کوہمیشہ لیونے فلسفی کہاتھا۔جہاں تک میں نے ان کو پڑھا یا سنا ہے تو میں سمجھتا ہوں کہ مرحوم غنی خان مذکورہ تینوں صفات کے حامل شاعر تھے۔ان کی لازوال شاعری میں تصوف کے جلوے بھی ملتے ہیں اور فلسفیانہ پیچیدگیاں بھی ۔ غنی خان یہ کہنے میں بھی حق بجانب ہیں کہ وہ لیونے فلسفی ہیں ۔ پشتو کے اکثر ادیبوں نے انہیں فلسفی اور لیونے فلسفی کے نام سے یاد کیا ہے ۔ مرحوم گل باچا الفت نے ان کی کتاب '' پلوشے '' کے دیباچے میںان کے فلسفیانہ افکار اور کے بارے میںلکھا ہے کہ ''غنی خان کی مستانہ جنونیت میں ایک قسم کی شاعرانہ ہوشیاری اور بیداری پنہاںہے ، ان کے مزاح میں مقصدیت اور حکمت کے بے شمار پہلو مضمر ہیں اسی لئے تو ان کو لیونے فلسفی کہا جاتاہے ''۔ غنی خان کی شاعری پڑھتے وقت مجھے ایسامحسوس ہوتاہے کہ غنی اپنی زندگی میں کبھی بھی موت سے خوفزدہ نہیں رہے ہیں اورموت سے یہی لا پروائی ان کے صوفی ہونے کی وہ قوی دلیل ہے جس کی بنا پر ہم انہیں لیونے فلسفی کے ساتھ ساتھ لیونے صوفی بھی کہہ سکتے ہیں ۔ کیونکہ تصوف کے مسلک میں ایک صوفی کی اصل زندگی موت ہی میں مضمر ہوتی ہے ۔ اپنی مشہور نظم '' موت '' میں وہ فرماتے ہیں کہ '' موت ذات خداوندی کی حضرت انسان سے محبت کی گواہی ہے اور یہ خزاں کے ساتھ بہار کاایفا ہونے والاوعدہ ہے ۔موت ایک بڑی نیکی ہے جو انسان کے ساتھ کیا جاتاہے اور مکان کا لامکان کے ساتھ ایک خفیہ نکاح کا نام موت ہے''۔اسی طرح ''فقیروں کی غزل '' نامی نظم میں غنی خان نے اس جہان کی حقیقت کو ایک خوبصورت پیرائے میں بیان کیاہے ترجمہ :سنو اے بھائی !یہ جہاں فنا کا گھر ہے جس کیلئے آنسوبہانا اور افسوس کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ۔ یہاں پرجو کونپلیں صبح کو پھوٹتی ہیں وہ شام کو خاک ہوجاتی ہیں ۔یہاں کی مستی بھی پل بھر کیلئے ہوتی ہے اور پستی بھی دیرپا نہیں ہے ۔ یہاں ہر ذرہ فنا ہونے کا اعلان کررہاہے اورکل کی تمام تر آبادیاں آج ویرانی کے ڈھیر بنے ہوئے ہیں۔ زندگی یہاںمحض ایک خواب ہے اور جوانی محض چند لمحات کا ایک نشہ ہے''۔دوسری طرف غنی خان کی شاعری میں فلسفیانہ خیالات کی بھر مار بھی ہمیں پڑھنے کو ملتی ہے ۔ان کی شاعری میں ہمیں فلسفے کے ان تینوں مراحل کی جھلکیاں ملتی ہیں جس کے بارے میں فرانسیسی فیلسوف اوگوست کانٹ کہتے ہیں کہ انسانی تاریخ فلسفے کے تین مراحل سے گزری ہے ۔ پہلا مرحلہ ربانی یا دینی مرحلہ کہلاتاہے جس میں خدا اور دوسرے ماورا طبیعی قوتوں کے بارے میں خیال کیا جاتاہے جس کے بارے میں انسان کو کوئی شک نہیں ہوتا۔ دوسرا مابعدالطبیعاتی مرحلہ ہے جس میں انسان کو بہت سی اشیا کے بارے میں شکوک وشبہات پیدا ہوتے ہیں اور ہر شے کے بارے میں وہ سوال کرتاہے ۔ تیسرا مرحلہ تحقیقی مرحلہ ہے جس میںبندہ ان تمام ظاہری اشیا کے اوپر اپنے تجربے اور تحقیق کی بنیاد پر یقین رکھتاہے ۔غنی خان بھی اپنی شاعری کے دوران ان تینوں مراحل سے گزرے ہیں ۔ ان کی نظموں میں اگرچہ ایک طرف الہیات پر کامل یقین کی بے شمار مثالیں ملتی ہیں تو دوسری طرف انہوں نے بہت سی چیزوںکے بارے میں سوالات بھی اٹھائے ہیں ۔مثلا ً تقدیر کے بارے میں ان کے جابجا سوالات ، عقل وقلب اور جنت و دوزخ کے بارے میں ان کے اٹھائے گئے سوالات ان کے فلسفے کے دوسرے مرحلے کی بین مثالیں ہیں ۔نظم '' کیوں اے خدا '' میں وہ خدا سے مخاطب ہوکر فرماتے ہیں کہ '' جب عقل موجود تھی تو پھر دل دینے کی کیا ضرورت تھی کیونکہ ایک ہی ملک میں دو بادشاہ کیسے رہ سکتے ہیں ؟ اے میرے خدا تو نے بادشاہی اور فقیری کوکیوں یکجا کردیاہے۔ اسی طرح انہوں نے ہروقت موت اور زیست اور جبر وقدر کے پیچیدہ فلسفے کے بارے میں ملاکی اپروچ کی تغلیط کی ہے اوراس بارے میں نت نئے سولات اٹھائے ہیں۔ اسی حساب سے غنی خان اپنی لیونتوب(جنون ) کے دعوے میںبھی سچے ثابت ہوئے ہیں اوروہ جنون کے اس مرحلے پر جاپہنچے تھے جہاں ان کو اپنے اردگرد ماحول ایک کھیل سا لگتاتھا اور مرزا غالب کی طرح وہ بھی اس دنیا کو بازیچہ اطفال سمجھنے لگے تھے، مشہور نظم '' میرا محل '' غنی خان کی جنونی شاعری کی ایک شاہکار مثال ہے جس میں وہ کہتے ہیں کہ '' میں نے سمندر کے سفید کنکریوں سے ایک محل تعمیر کیا تو اس جہاں کے احمق لوگ اس کو حیرت سے دیکھتے رہے۔اس محل میں، میں نے گلابی پتیوں کے قالین بچھائے اور ان کی دیواریں رباب کی سازوں پر کھڑی کردیں۔پھر اس پر اپنے خوابوں کے شباب کا رنگ چڑھا دیا ۔ یہاں نرگس کے پھول بھی لائے اور رامبیل کو بھی مہمان بنایا اور شبنم کی ٹہنیوں سے ایک خوبصورت ہار بھی بنایا ''۔غنی خان چونکہ اپنے والدمرحوم باچاخان کی خدائی خدمتگار تحریک کے ایک سرگرم کارکن تھے ، یوں اسی سلسلے میں ان کو متعدد دفعہ جیل بھی جانا پڑا ۔ قید وبند کے زمانے میں اگرچہ وہ صرف شاعر تھے لیکن بعد میں وہ فلسفی بھی بنے ۔ قید وبند کی صعوبتیں جھیلنے سے پہلے وہ اپنی شاعری میں صرف پشتونوں کے غم خوار لگتے تھے لیکن قید سے رہائی پانے کے بعد ان کی شاعری میں آفاقیت پیدا ہونے لگی اور وہ پوری انسانیت کے لئے شاعری کرنے لگے۔ایک فلسفی ، صوفی اور لیونے کے ساتھ ساتھ غنی خان اپنے دور کا ایک باغی انسان بھی رہاہے ۔ملاکی روایتی باتوں سے بغاوت اور واعظوں کے نصائح سے بیزاری ان کی شاعری کامحور رہاہے بلکہ خود ان کے والد خان عبدالغفار خان بھی بسا اوقات غنی سے اس کی مذکورہ خودسری کی وجہ سے ان سے شاکی رہے تھے۔ باچاخان کی سیاسی تحریک میں اگرچہ انہوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیاتھا اور کئی دفعہ جیل کی سلاخوں کے پیچھے بھی گئے لیکن پھر بھی باچا خان ان کو مطیع بنانے میں ناکام نظرآتے ہیں ۔احمد آباد جیل سے لکھے گئے ایک خط میں انہوں نے غنی خان کو ان الفاظ میں مخاطب کیاہے '' پیارے غنی جان ! بندہ جب ایک غلطی کر بیٹھتاہے اور پھر اس کو غلطی تسلیم بھی نہیں کرتا تو میں سمجھتاہوں کہ ایسی غلطی کی اصلاح بہت مشکل ہوتی ہے ۔ ولی خان کے بارے میں آپ کے جو خیالات ہیں وہ سراسر غلط ہیں ۔ کیونکہ ولی جیسے بھائی بہت کم لوگوں کو ملتے ہیں ، وہ آپ سے حد درجہ محبت رکھتاہے ۔ میں نے ایک وقت مالی امور کا انتظام آپ کے بھی سپرد کیا اور پھر ولی کو بھی یہی ذمہ داری سونپی تھی لیکن مجھے آپ کے اور ولی کے مقرر کردہ پیمانوں کا بخوبی اندازہ ہوگیا،اورمیں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ آپ کی طرح آزاد اور بے پرواہ کوئی نہیں ہے ''۔غنی خان کے نام بھیجے گئے ایک اور خط میں وہ لکھتے ہیں'' پیارے غنی جان ! میں نہیں سمجھتا کہ آپ کو میرا فیصلہ کیوں برا لگتاہے ، میں نے آپ کے معاملے میں ہمیشہ صبر سے کام لیاہے اوراکثر اوقات آپ کی محبت مجھے صبر پر مجبور کردیتی ہے ۔ میں نے کبھی آپ سے ایک پشتون باپ سا سلوک نہیں کیا ہے بلکہ ہمہ وقت آپ کو ایک دوست کی طرح سمجھا ہے لیکن آپ نے میرے اس سلوک کا ہمیشہ ناجائز فوائد اٹھائے ہیں ''۔ غنی خان کی شاعری پشتو کے تمام کلاسیکی شعرا سے نسبتا جداگانہ اسلوب رکھتی ہے ۔اپنے لئے ایک الگ دنیا تخلیق کرنیوالے اس شاعرکا عشق بھی نرالا تھا اور نفرت بھی ۔ حسن وجمال کو بھی ایک جداگانہ زاویے سے دیکھتے تھے اور جلال بھی ان کے ہاں کچھ اور تھا ۔ فانوس ، پلوشے ، د پنجرے چغار اور لٹون ان کی لازوال شاعری کے وہ مجموعے ہیں جس نے غنی خان کو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے جاویدان رکھا ہے۔