پاکستان میں اُصولی سیاست نے وصولی سیاست کا روپ کب دھارا؟ یہ طویل داستان ہے۔ اپوزیشن کا کام اختلاف برائے اختلاف اور حکومت کا فرض ’’میں نہ مانوں ہے‘‘ ؟یہ نصف صدی کا قصّہ ہے دو چار برس کی بات نہیں۔میاں شہباز شریف کو شکوہ ہے کہ حکومت نے بجٹ میں ہماری کوئی تجویز شامل نہیں کی جبکہ حکومتی ارکان برہم ہیں کہ اپوزیشن نے بجٹ اجلاس کے دوران شور شرابے کے سوا کچھ نہیں کیا‘ کوئی ٹھوس تجویز پیش کی نہ معاشی بحران سے نمٹنے کے لئے حکومت کی طرف دست تعاون بڑھایا۔ میثاق معیشت کی تجویز پیش کی‘ خود ہی مکر گئی‘ معاشی بحران زندہ حقیقت ہے‘ جس کا اعتراف حکومت اور اپوزیشن دونوں کرتی‘ مگر ذمہ داری کا بوجھ ایک دوسرے پر ڈالتی ہیں ۔ہر ایک کا اپنا اپنا سچ ہے اور دونوں کو اس پر کامل یقین۔ تحریک انصاف کی حکومت کو یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ اُس نے معیشت کے حوالے سے تلخ فیصلے کئے جن کی جرأت قائد اعظم ثانی میاں نواز شریف کو ہوئی‘ نہ پاکستان کے نیلسن منڈیلا آصف علی زرداری کوتوفیق۔ بارہ تیرہ روپے فی یونٹ بجلی خرید کر عام صارفین کو پانچ چھ روپے فی یونٹ فراہم کرنے سے حکومت مقبولیت تو حاصل کر لیتی ہے لیکن قومی معیشت کو تباہی و بربادی سے نہیں بچا سکتی۔ بائیس ارب ڈالر مارکیٹ میں پھینک کر ڈالر کو ایک سو دس روپے کی سطح پر برقرار رکھنا کون سے معاشی اُصول کے تحت رواہے؟ ویسے بھی ڈالر کی کم یا زیادہ قیمت کے بجائے قومی معیشت کے استحکام میں اہم کردار درآمدات میں کمی‘ برآمدات میں اضافہ‘ تعلیم یافتہ ہنر مند افرادی قوت اور پیداواری صلاحیت میں بڑھوتری ادا کرتے ہیں۔ جس کی طرف پچھلے چالیس پینتالیس سال میں کسی نے توجہ نہیں دی۔ ذوالفقار علی بھٹو‘ ضیاء الحق ‘ نواز شریف‘ بے نظیر بھٹو‘ پرویز مشرف اور آصف علی زرداری کے دور حکمرانی میں قوم کو مفت خوری ‘ کام چوری ذخیرہ اندوزی‘ ملاوٹ‘ گرانفروشی‘ ناجائز منافع خوری اور فضول خرچی کی ایسی عادت ڈالی گئی کہ اب کوئی ترک کرنے کو کہے تو دشمن لگتا ہے۔ کفایت شعاری اور بچت کی عادت نہ ٹیکس دینے کا رواج ۔بیس لاکھ ٹیکس دھندگان بائیس کروڑ آبادی کے لئے وسائل فراہم کرتے ہیں اور کوئی پوچھنے والا نہیں۔ پچاس ہزار روپے ماہانہ تنخواہ پانے والا بے چارہ ٹیکس دے رہا ہے اور پچاس لاکھ روپے ماہانہ کمانے والا پراپرٹی ڈیلر‘ تاجر و صنعت کارمختلف محکموں کو رشوت ہنسی خوشی دیتا ہے‘ ٹیکس ایک پائی ادا نہیں کرتا ۔حکومت جن عوام کو تعلیم‘ صحت ‘ روزگار ‘ صاف پانی اور مناسب خوراک کی سہولتیں فراہم کرنے کے لئے ٹیکس وصولی کی مہم چلا رہی ہے وہی ’’باشعور‘‘عوام ٹیکس چوروں‘ قومی دولت لوٹ کر بیرون ملک جائیدادیں بنانے والوں‘ ذخیرہ اندوزوں اور گراں فروشوں کے لئے ڈھال بنے ہوئے ہیں۔ ہر چھوٹا بڑا گراں فروش اور ذخیرہ اندوز عمران خان کو چار گالیاں دے کر سو روپے کی چیز دو سو روپے میں فروخت کر رہا ہے مگر خریدار اس کا گریبان پکڑنے‘ مہنگی اور غیر ملکی اشیاء کا بائیکاٹ کرنے کے بجائے حکومت کو گالیاں دیئے چلا جا رہا ہے اور اس وقت کو حسرت سے یاد کرتا ہے جب حکمران اندرونی اور بیرونی قرضے لے کر اپنی جیبیں بھر رہے تھے اور لوٹ مار کے مال کا کچھ حصہ انہوں نے سہل کوش‘ مفت خوری کے عادی شہریوںکے لئے بھی وقف کر رکھا تھا۔ کیا یہ افسوس ناک بلکہ شرمناک حقیقت نہیں کہ پاک فوج تو اپنے بجٹ میں کمی پر آمادہ ہے کہ معاشی بحران پر قابو پانے میں مدد ملے مگر ہماری حکمران اشرافیہ اور اس کی مددگار اقتصادی‘ معاشی‘ تجارتی برادری عیش پسندانہ طرز زندگی میں تبدیلی تو درکنار ناجائز منافع خوری‘ ٹیکس چوری اور ذخیرہ اندوزی کی عادت ترک کرنے پر تیار نہیں۔ ڈالر کی قیمت میں اضافہ کیا ذخیرہ اندوزی کا شاخسانہ نہیں؟ فوج کا ذکر چلا ہے تو دوعملی بلکہ منافقت بھی قابل غور ہے کہ زندگی بھر سول بالادستی کا راگ الاپنے اور فوج کو حکومت کے ماتحت ادارہ ثابت کرنے والوں کو آج اس قومی ادارے اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ پر سب سے بڑا اعتراض یہ ہے کہ وہ موجودہ حکومت کے مددگار و معاون کیوں ہیں؟ماضی کی طرح اپوزیشن کی سازشوں میں شریک کیوں نہیں ؟اور ابھی تک موجودہ معاشی بحران کو بنیاد بنا کر احتساب کی بساط لپیٹنے‘ اپوزیشن کے کرپٹ عناصر کو چھوٹ دینے اور کسی نئے این آر او کی راہ ہموار کرنے پر کمربستہ نہیں؟ جب آرمی چیف جنرل راحیل شریف برابر کرسی پر بیٹھ کر مُنہ بسورنے والے وزیر اعظم کو ہدایات جاری کرتا تھا تو جمہوریت کے یہ چمپئن اسے سول ملٹری ہم آہنگی و یکجہتی کے ثبوت کے طور پر پیش کرتے تھے مگر اب جبکہ اجلاسوں کی صدارت وزیر اعظم کرتے اور آرمی چیف پروٹوکول کے مطابق سامنے بیٹھ کر خوش دلی سے عمران خان کی باتیں سنتے ہیں تو ان بے چاروں کو تکلیف ہوتی ہے۔ لندن میں پاکستانی سفارت خانے اور اسلام آباد میں نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی میں خطاب کے دوران آرمی چیف جنرل قمر باجوہ نے سخت معاشی فیصلوں بالخصوص کرپشن کے خاتمے اور ٹیکسوں کی وصولی کے حوالے سے حکومتی اقدامات کی تائید کی تو تمام ’’جمہوریت پسندوں‘‘ اور ان کے ہمنوا دانشوروں‘ تجزیہ کاروں اور بڑبولے اہل قلم و کیمرہ کو سانپ سونگھ گیا؟ یہی باتیں آرمی چیف چیدہ چیدہ صحافیوں سے آف دی ریکارڈ ملاقاتوں میں تفصیل سے کر چکے مگر مجال ہے کہ کسی نے سنجیدگی سے غور فرمایا ہو۔ حالانکہ ریاست کی طرف سے پیغام واضح ہے کہ جس نے قومی خزانے کو نقصان پہنچایا‘ اپنے اختیار کو ذاتی مفاد اور اقربا پروری کے لئے استعمال کیا اور منصب سے خیانت کی وہ قانون کے سامنے جوابدہ ہے اور جو کماتا ہے اُسے اپنی جائز کمائی کا ایک حصہ قومی خزانے میں جمع کرانا چاہیے کہ ریاست کا کاروبار چلے‘ ریاست ان بے وسیلہ‘ معذور اور مستحق لوگوں کی کفالت کر سکے جو کسی نہ کسی وجہ سے دوسروں کے محتاج ہیں۔ تعلیم‘ صحت‘ عوامی فلاح و بہبود کے لئے ٹیکس ادا کرنا ریاست پر احسان نہیں ہر شہری کا فرض ہے اور فرض کی ادائیگی میں رکاوٹ ڈالنا جرم ہے خواہ اپوزیشن روکے یا میڈیا۔ یہ بکواس بھی صرف پاکستان میں سننے کو ملتی ہے کہ ہم خون پسینے کی کمائی سے ٹیکس دے کر سرکاری اہلکاروں کو عیش و عشرت کے لئے وسائل فراہم کیوں کریں؟ اول تو یہ سوال صرف وہی کرتے ہیں جو ٹیکس دینا نہیں چاہتے‘ ٹیکس دینے والے پندرہ بیس لاکھ شہری ادائیگی کے بعد پہرہ دیتے ہیں یا شور مچاتے ہیں‘انکار نہیں کرتے۔ دوسرے منکرین ٹیکس کیوں نہیں سوچتے کہ جب وہ سرکاری اہلکاروں کو رشوت دے رہے ہوتے ہیں تو کبھی ان سے پوچھتے یا اپنے طور پر سوچتے ہیں کہ رشوت کا پیسہ کہاں خرچ ہو گا؟ ٹیکس نہ دینے پر ضمیر ملامت نہیں کرتا؟ انہیں ریاستی سہولتوں سے فائدہ اٹھانے کا حق حاصل نہیں ‘ جو کسی اورکی محنت کی کمائی سے ریاست فراہم کر رہی ہے۔ اپوزیشن مخالفت برائے مخالفت کی روش پر قائم ہے اور حکومت میں نہ مانوں کی عادی مگر تلخ فیصلوں سے حکومت نے یہ ثابت کیاہے کہ اُسے اپنی سیاسی مقبولیت اور سادہ لوح‘ جذباتی عوام کی وقتی خوشنودی سے زیادہ ملک و قوم کا وسیع تر‘ دوررس مفاد عزیز ہے‘ شاید اسی بنا پر حکومت اور فوج کے مابین ہم آہنگی بڑھ رہی ہے اور سول بالادستی کا تصور مضبوط ہو رہاہے۔ بلند بانگ دعوئوں کے باوجود وفاقی بجٹ آسانی سے منظور ہو گیا۔مولانا فضل الرحمن کی آل پارٹیز کانفرنس میں احتجاجی تحریک اور استعفوں کا فیصلہ نہ ہو سکا اور لگتا یہی ہے کہ چیئرمین سینٹ کے خلاف تحریک عدم اعتماد کا بھی وہی حشر ہو گا جو بجٹ کی منظوری روکنے کے اعلانات کا ہو ا۔ویسے بھی یہ پنجابی محاورے کے مطابق ’’ڈِگی کھوتی توں‘ غصہ کمہار تے‘‘ (گرا گدھے سے غصہ بے چارے کمہار پر)والا معاملہ ہے ‘اپوزیشن تنگ عمران خان اور تحریک انصاف کی حکومت یا محکمہ زراعت سے ہے اور عدم اعتماد کی تحریک صادق سنجرانی کے خلاف لا رہی ہے جو بے چارے آرام سے ایک طرف بیٹھے دہی کھا رہے ہیں۔ نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی میں آرمی چیف کے خطاب میں تمام سٹیک ہولڈرز کے لئے پیغام ہے‘ کاش کوئی عقلمند پڑھ‘ سن اور سمجھ سکے ؎ الفاظ کے پیچوںمیں الجھتے نہیں دانا غواّص کو مطلب ہے صدف سے کہ گہر سے جسے مگر لوٹی دولت بچانے اور ٹیکس چوری کے کلچر کو پروان چڑھانے سے فرصت نہیں وہ خاک سمجھے۔