عالمی شہریت یافتہ الغوزہ نواز سئیں حاجی غلام فرید کنیرہ غربت اور بیماری کے باعث الغوزہ کی جوڑی اور غیر ملکی کی بورڈ فروخت کرنے پر مجبورہو گئے ۔ الغوزہ سندھ تہذیب اور وسیب کا ثقافتی ساز ہے، شادی بیاہ اور ہر خوشی کے موقع پر بجایا جاتا ہے، بانسری اور الغوزہ کی آواز کو پسند کرنے والے وسیب کے ہر علاقہ میں موجود ہیں ، مگر افسوس وسیب کے ہیرے اور لعل مٹی میں مل گئے۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ وسیب میں الغوزہ کے حوالے سے سندھ میں جو مقام مصری خان جمالی اور خمیسو خان جمالی کو حاصل ہے ۔ وسیب میں وہی مقام حاجی غلام فرید کنیرہ کو حاصل ہے۔ فرق یہ ہے کہ مصری خان جمالی اور خمیسو خان جمالی کو حکومت سندھ کی سرپرستی حاصل ہے ، مزید یہ کہ سندھ کے وڈیروں کی سرپرستی حاصل ہے، مگروسیب کیلئے نہ حکومت توجہ کرتی ہے اور نہ ہی وسیب کے صاحب حیثیت لوگ ۔ یہی وجہ ہے کہ وسیب کے فنکار طرح طرح کی مشکلات کا شکار ہیں ۔ حاجی غلام فرید کنیرہ کی حالت سب کے سامنے ہے۔ گزشتہ ایک سال سے بیمار ہیں ۔ علاج پر سب کچھ لگ گیا ، گھر میں فاقے شروع ہو گئے ، سانحہ المناک یہ ہوا کہ حاجی غلام فرید کنیرہ صاحب کاجواں سالہ بیٹا کامران فرید کنیرہ 2019ء میں ٹریفک حادثے میں شہید ہو گیا ، اس کی ایک ماہ بعد شادی تھی ۔اس حادثے نے علیل رہنے والے حاجی غلام فرید کنیرہ کی کمر توڑ دی ۔ بیماری کے ساتھ ساتھ بیٹے کا صدمہ بھی شامل ہو گیا ہے ، سخت مشکل حالت میں ہیں ، ان کو مدد کی ضرورت ہے۔ حکومت توجہ کرے ، وزیراعظم ، وزیر اعلیٰ سردار عثمان خان بزدار فوری توجہ کریں کہ یہ عظیم فنکار ملک و قوم کا سرمایہ ہونے کے ساتھ ساتھ دیرہ غازی خان میں سردار عثمان بزدار کا ہمسایہ بھی ہے ۔ میں امید کرتا ہوں کہ سرائیکی کے عظیم فنکار کو بغیر علاج سسک سسک کر مرنے سے بچا لیا جائے گا ۔ الغوزہ کا ذکر آتے ہی مصری خان جمالی اور خمیسو خان جمالی کا نام ذہن میں آتا ہے ۔ دونوں فنکاروں کا تعلق سندھ سے تھا اور انہوں نے اپنے فن کے ذریعے پوری دنیا میں اپنے فن کا لوہا منوایا۔ وسیب میں الغوزہ کے حوالے سے ایک نام حاجی غلام فرید کنیرہ کا ہے ۔ جنہوں نے اس فن کو نہ صرف آگے بڑھایا بلکہ اپنے اساتذہ مصری خان جمالی اور خمیسو خان جمالی کے نام کو زندہ رکھا ۔ ملک کے بڑے شہروں کے ساتھ ساتھ حاجی غلام فرید کنیرہ کو بیرون ممالک کویت ، مصر ، دوبئی ، قطر اور سعودی عرب میں پاکستانی ثقافت کو اجاگر کرنے کا موقع ملا ۔ حاجی غلام فرید کنیرہ یکم جنوری 1944 ء کو دیرہ غازی خان کے نواحی علاقے لاڈن میں محمد یار کنیرہ کے گھر پیدا ہوئے ۔ والد صاحب غریب تھے اور گزر اوقات کا وسیلہ مال مویشی پالنا تھا ۔ وہ اپنے بیٹے کو سکول نہ بھیج سکے۔ غلام فرید کنیرہ کو بچپن سے بانسری کا شوق تھا ،وہ کہتے ہیںکہ ابھی عمر چھ سات سال ہوگی کہ ہم جب شہر جاتے تو سب بچے اپنی اپنی پسند کی چیزیں خریدتے ، کوئی پستول ، کوئی جہاز اور کوئی ٹرک تو میں باجا یا بانسری لیتا تھا ، اور جب میں جنگل میں مال چرانے لگا تو بانسری میرے ہاتھ میں ہوتی تھی، کچھ بڑا ہوا تو مجھے سب سے زیادہ بانسری کی آواز متاثر کرتی ، شوقیہ بانسری بجانے والے ’’ رانجھے ‘‘ بہت تھے اور بانسری سن کر بے خود ہو جاتا ، مقامی طور پر استاد ظفر خان سے بانسری سیکھتا رہا۔ استاد غلام فرید کنیرہ بتاتے ہیں کہ فن سیکھنے کے بعد میں واپس آیا تو مختلف جگہوں پر میں نے اپنے فن کا مظاہرہ کیا ۔ ایک پولیس افسر متاثر ہوئے اور انہوں نے مجھے پولیس میں سپاہی بھرتی کر دیا ۔ ڈی جی خان اور ملتان میں میری پوسٹنگ رہی ، دس سال کے بعد میں نے استعفیٰ دے دیا اور دن رات اپنے فن کی خدمت میں مصروف رہا ۔ میں نے اُن سے پوچھا کہ بانسری اور الغوزہ کا فرق کیا ہے تو انہوں نے بتایا کہ بانسری اکیلی ہوتی ہے اور دو بانسریاں مل کر الغوزہ بنتا ہے ۔ بانسری بجانے میں کم طاقت استعمال ہوتی ہے ، الغوزہ یعنی جوڑی بجانے میں دوہری طاقت کا استعمال ہوتا ہے۔ ایک بانسری بڑی ہوتی ہے اور ایک چھوٹی دونوں ملکر الغوزہ بنتے ہیں،بانسری پہاڑوں میں اگنے والی خاص لکڑ سے تیار ہوتی ہے اور اسے ماہر کاریگر لوگ بناتے ہیں ۔ سندھ میں بنانے والے بہت ہیں لیکن خانپور رحیم یارخان بانسری بنانے کے حوالے سے مشہور ہیں ۔ بانسری کی ذیبائش کیلئے سپیشل کپڑا، ریشمی، دھاگہ اور خوبصورت موتیوں سے جھالر بنائی جاتی ہے ۔ الغوزہ کے مختلف ریٹ میں جو 10 ہزار سے 20 ہزار تک چلے جاتے ہیں ۔ چھوٹی بانسری کے قریباً چھ سراخ اور بڑی بانسری کے دس سراخ ہوتے ہیں ۔ ایک بانسری کی لمبائی تقریباً ڈھائی فٹ اور چھوٹی بانسری کی ڈیڑھ فٹ ہوتی ہے ۔ وہ بتاتے ہیں کہ مجھے ریڈیو سننے کا بہت شوق تھا ، ریڈیو پاکستان لاہور سے پروگرام آتے تھے ،مصری خان کی آواز میں الغوزہ سنا تو میں رہ نہ سکا اور یہ شوق مجھے سندھ لے گیا ۔ میں ان کے پاس سیکھتا رہا ، اس دوران میرا سندھ میں آنا جانا رہا ، مصری خان کی وفات کے بعد میں نے خمیسو خان جمالی کو اپنا استاد بنایا اور ان کی خدمت میں کافی عرصہ یعنی تیرہ چودہ سال گھوٹکی میں سیکھتا رہا ۔ خمیسو خان جب گھر میں ہوتے تو شاگردوں کو دو تین گھنٹے ریاض کراتے تھے اور جب وہ باہر پروگراموں میں ہوتے تو ہم اپنے طور پر ریاض کرتے ۔ خمیسو خان نے مال مویشی رکھے ہوئے تھے ‘ ایک تو سرائیکی کہاوت ہے کہ عشق میں دوسروں کے ’’گابے‘‘ چرانے پڑتے ہیں ۔ جبکہ میں نے عملی طور پر سندھ کے جنگلوں میں استاد خمیسو خان کے مال مویشی جن میں گائے اور بیل بھی تھے ،چراتا تھا ۔ استادوں کی بہت خدمت کی ، میںنے دیکھا کہ مصری خان اور خمیسو خان کا تعلق گوّیا خاندان سے تھا ، وہ موسیقی کے فن سے مکمل طور پر آشناتھے ، سندھ کے لوگ فنکاروں سے محبت کرتے ہیں ‘ اس لئے انہوں نے کبھی ان کو ’’ گوّیا ‘‘ نہیں بلکہ جمالی کے نام سے پکارا ۔ ہم دیکھتے تھے بڑے بڑے سردار ،وڈیرے اور وزراء ان کے پاس آتے اور ان کو جھک کر ملتے اور رات کو محفل کرتے ، بھاری نذرانے اور تحائف دے کر جاتے ۔ جبکہ وسیب میں فنکار کو وہ عزت نہیں ملتی جو سندھ میں ملتی ہے۔