بے شک مردانِ عزم و ہمت کسی بڑے اقدام سے پہلے خوب غورو خوض کرتے ہیں مگر فیصلے میں تاخیر اور تردّد ایک بہت بڑی آفت ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت روز کوئی نہ کوئی پتھر ٹھہرے ہوئے پانی میں پھینک کر لہروں کے ارتعاش کا اندازہ لگاتی ہے۔ وہ جب لہروں کی بڑھتی ہوئی بیتابی دیکھتی ہے تو پھر ایکشن سے ہاتھ روک لیتی ہے۔ ادھر ہم بھی اپنے وعدے پر قائم ہیں کہ 100روز سے پہلے تنقیدی تیروں سے زبان و قلم کو روک کر رکھیں گے، تاہم حکومت کو ساتھ ساتھ توجہ ضرور دلاتے رہیں گے۔دو روز پہلے وزیرِخزانہ اسد عمر کی طرف سے 400ارب روپے کے نئے ٹیکسوں اور تنخواہ دار طبقے کی مراعات میں اضافے کی بجائے کمی کی خبر آئی تھی۔ مگر گزشتہ روز وزیر اطلاعات فواد چودھری نے ٹیکسوں میں ردّوبدل یا نئے ٹیکسوں کے نفاذ کی تردید کی اور ساتھ ہی عام صارفین کو یہ نوید بھی سنائی کہ بجلی مہنگی ہوئی ہے اور نہ گیس۔ جانے والی حکومت یوں قرضے لیتی اور شہ خرچیاں کرتی رہی کہ جیسے قرضوں کا سود دینا ہے اور نہ اصل زر واپس کرنا ہے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ قوم قرضوں کے بوجھ تلے دب چکی ہے۔ تحریک انصاف کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ طرح طرح کے اقدامات کا اعلان کر دیتی ہے مگر اپنے معاشی افکار کی دنیا میں غلطاںو پیچاں وزیر خزانہ براہِ راست عوام کو اعتماد میں نہیں لیتے اس لیے ان کے مجوزہ اقدامات کی شنوائی سے پہلے ہی ان پر دہائی کا رونا دھونا شروع ہو جاتا ہے۔ مثلاً ان کی ٹیکس تجاویز میںتنخواہ دار طبقے سے کوئی مراعات واپس نہیں لی جا رہی تھیں۔ شاہد خاقان عباسی کی ن لیگی حکومت نے دمِ رخصت جو بجٹ دیا اس میں 4لاکھ سالانہ کی بجائے 12لاکھ سالانہ آمدنی والوں پر ٹیکس عائد کیا گیا۔ 12لاکھ سے نیچے آمدنی والوں کو مکمل چھوٹ دے دی گئی یوں ٹیکس نیٹ سے سات لاکھ افرادآنِ واحد میں خارج ہو گئے اور باقی صرف 7لاکھ رہ گئے۔ وزیر خزانہ کی تجاویز کے مطابق مسلم لیگ(ن) ہی کے پرانے ٹیکس نظام کو لاگو کرنے کا عندیہ ظاہر کیا گیا تھا۔ اسی تجویز کے مطابق 4لاکھ سالانہ سے اوپر آمدنی والا فرد صرف ایک ہزار روپے سالانہ ٹیکس دے گا اور آٹھ لاکھ ایک روپے سے لے کر بارہ لاکھ سالانہ آمدنی والا شخص صرف 2ہزار روپے سالانہ ٹیکس دے گا۔ اس طرح ایک بار پھر ٹیکس دہندگان کی تعداد 7لاکھ سے 14لاکھ ہو جائے گی۔ ایک ہزار یا دو ہزار روپے کا برائے نام ٹیکس دے کر اتنی بڑی تعداد ٹیکس فائلز بن جائے گی اور ٹیکس فائلز کو ملنے والی مراعات کی حقدار بھی ٹھہرے گی۔ وزیر خزانہ اسد عمر اگرچہ بیرونی یونیورسٹیوں سے تعلیم یافتہ نہیں تا ہم وہ کراچی کے ممتاز انسٹی ٹیوٹ آئی بی اے سے ایم بی اے ہیں۔ انہوں نے انسٹی ٹیوٹ سے فارغ التحصیل ہونے کے چند ماہ بعد ہی کیمیکلز کی ایک بڑی کمپنی کو تجزیہ کار کے طور پر جائن کیا۔ پاکستانی اوریجن کی اس عالمی فرم نے اپنے بزنس کی دیکھ بھال کے لیے انہیں کینیڈا بھیج دیا۔ یوں اسد عمر کو عالمی اقتصادی صورت حال سے براہِ راست شناسائی کے وافر مواقع حاصل ہوئے۔ وہ دو تین برس کے بعد ہی کراچی واپس آ گئے اور پھر اسی فرم کی ایک جدید اور وسیع کمپنی کے مدارالمہام بن گئے۔ یہ کمپنی فرٹیلائزرز، فوڈ، کیمیکلز، انرجی اور پیٹروکیمیکلز کے شعبوں میں خدمات انجام دے رہی تھی بلکہ کمپنی میں کئی نئے شعبے خود اسد عمر نے متعارف کروائے تھے۔ اگرچہ وہ معروف معنوں میں ماہر اقتصادیات نہیں مگر ملکی و عالمی معیشت و تجارت کے اتار چڑھائو سے اچھی آگہی رکھتے ہیں۔ انتخابات سے چند ماہ قبل 2017ء کے ماہِ دسمبر میں یونیورسٹی آف النائے، امریکہ میں دو تین روز ان سے ہیلو ہائے رہی اور پاکستان کے سیاسی حالات پر ایک ون آن ون ملاقات بھی ہوئی۔ ریاست النائے کی اس بڑی یونیورسٹی میں پروفیسر شہباز گل نے ’’پاک امریکہ تعلقات‘‘ کے موضوع پر ایک روزہ کانفرنس کا اہتمام کیا تھا۔ پروفیسر شہباز گل اسلام آباد سے تعلق رکھتے ہیں اور امریکہ میں پاکستانیوں اور امریکیوں میں ہر دلعزیز ہیں۔ انہوں نے ہی ہمیں مدعو کیا تھا۔ اس کانفرنس میں یونیورسٹی میں زیر تعلیم پاکستانی طلبہ کے علاوہ امریکہ سمیت دیگر ملکوں کے طلبہ و طالبات نے بھی شرکت کی۔ فقیر نے پاکستان اور امریکہ کے سیاسی تعلقات پر اپنے خیالات کا اظہار کیا جبکہ اسد عمر نے پاکستان اور امریکہ سے اقتصادی و تجارتی تعلقات و تعاون کے موضوع پر خطاب کیا۔ ان کے خطاب اور ان کی بے تکلف گفتگو سے میں نے اندازہ لگایا کہ وہ ایک ایسے صاحبِ مطالعہ شخص ہیں جو پاکستان کے حقیقی مسائل کا ادراک رکھتے ہیں اور اقتصادی اصلاح احوال کے دلکش خاکے بھی ان کے ذہن میں موجود ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ ان خاکوں میں رنگ کیسے بھرتے ہیں۔ یہی ان کی آزمائش ہے اور یہی ان کا امتحان ہے۔ اسد عمر کا سب سے اہم مسئلہ 10ارب ڈالر کا ہے جو ہمیں نادہندگی سے محفوظ رکھنے کے لیے فوری طور پر درکار ہیں۔ ہمارے خیال میں اسد عمر کو پندار کا صنم کدہ ویران کیے ہوئے آئی ایم ایف کے پاس بلاتاخیر چلے جانا چاہیے تا کہ ان کے سر پر لٹکتی ہوئی تلوار کا فوری خطرہ ٹالا جائے اور پھر اقتصادی مستقبل کی الجھی ہوئی زلفوں کو اطمینان سے سنوارنے کا عمل شروع کیا جائے۔ اب تو امریکہ نے بھی آئی ایم ایف میں ہماری درخواست کی مخالفت نہ کرنے کی یقین دہانی بھی کرائی ہے۔ دوستوں میں سے کون کتنے پیسے دے گا؟ بیرونِ ملک سے پاکستان کی لوٹی ہوئی دولت کب اور کیسے واپس لائی جائے گی یہ عرصۂ طویل کی کہانی ہے۔ اس دوران کب اور کہاں کوئی موڑ آ جائے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ تجارتی خسارے کے اٹھارہ بیس ارب روپے سالانہ کو کم بلکہ بہت کم کرنے کے اقدامات بھی ضروری ہیں اور اپنی جگہ پر جاری رہنے چاہئیں مگر اسد عمر کو اپنی ساکھ اور تحریک انصاف کی نئی حکومت کو بچانے کے لیے فوری فیصلہ کرنا ہو گا اور تردد سے بچنا ہو گا۔ مجھے بہت حیرت ہوتی ہے جب لوگ میٹرو اور اورنج لائن جیسے منصوبوں پر یہ کہہ کر تنقید کرتے ہیں کہ یہ منصوبے خود کفیل نہیں ہیں۔ دراصل ان منصوبوں پر وہ کلاس تنقید کرتی ہے جسے کبھی ویگنوں اور جون جولائی کی چلچلاتی دھوپ میں رکشوں میں دھکے کھانے کا موقع نہیں ملا۔ کبھی میٹرو میں صرف 20روپے دے کر سفر کرنے والے بندۂ مزدور سے پوچھیں، بیس بیس میل سے آنے والے طلبہ و طالبات سے پوچھیں۔ عوام الناس سے پوچھیں اور دوسرے شہروں سے آنے والے مریضوں سے پوچھیں، راولپنڈی سے اسلام آباد جانے والے ملازمین سائلین سے پوچھیں تو آپ کو معلوم ہو گا کہ عوام اس ایئرکنڈیشنڈ سواری سے کتنے خوش اور مطمئن ہے۔ گزشتہ روز وزیر اطلاعات فواد چودھری نے بتایا کہ لاہور کی میٹرو کی سالانہ سبسڈی 4ارب جبکہ اسلام آباد اور ملتان کی میٹرو زرِ تلافی دو دو ارب روپے ہے۔ غریب اور نیم متوسط طبقے کے لیے اگر صرف 8ارب روپے سالانہ میں باوقار اور خوشگوار آمدورفت کا انتظام ہو جاتا ہے تو یہ عین تحریک انصاف کا ایجنڈا ہے اسے ہر صورت میں جاری رہنا چاہیے۔ یہ بجٹ پر کوئی بڑا بوجھ نہیں۔ جہاں اربوں اور کھربوں کی کرپشن طبقۂ اشرافیہ کر رہا ہوو وہاں نظر کرپشن کے خاتمے پر ہونی چاہیے نہ کہ غربا اور سفید پوش طبقے کی سہولت چھیننے پر۔ قوم تحریک انصاف سے مائیکرو نہیں میکرو سطح کے بڑے بڑے فیصلوں کی آس لگائے بیٹھی ہے۔ وزیر تعلیم شفقت محمود نے گزشتہ روز وزیر اعظم ہائوس میں ایم فل اور پی ایچ ڈی سطح کے ایک اعلیٰ تعلیمی ادارے کے قیام کی خبر قوم کو دی جس کے لیے پی ایم ہائوس میں تعلیمی ادارے کی ضروریات کے مطابق تعمیرات بھی کی جائیں گی۔ وزیر اعظم ہائوس کو وزیر اعظم کی رہائش گاہ اور دفاتر رہنے چاہئیں یا اس میں کوئی دانش گاہ بھی بننی چاہیے یہ موضوع گہرے غور و فکر کا طالب ہے۔ البتہ شفقت محمود کو اپنی تمام تر توجہ اس طرح کے نمائشی اعلانات و اقدامات کی بجائے ان اڑھائی کروڑ بچوں پر دینی چاہیے جو زیورِ تعلیم سے محروم ہیں اور جنہیں ظالم اشرافیہ نے چائلڈ لیبر کے ذریعے اس بالی عمریا میں پرمشقت زندگی کی رتھ میں جوت رکھا ہے۔ محترم وزیر تعلیم قومی زبان میں کم از کم سکینڈری سطح تک یکساں تعلیم کا ماڈل پیش کرنے پر توجہ مرکوز رکھنی چاہیے تا کہ قوم کا دیرینہ خواب حقیقت میں بدل سکے۔ اسی طرح شفقت محمود کو وفاق، پنجاب اور کے پی کے میں ان سکولوں پر توجہ دینی چاہیے جو چھتوں، فرنیچر، لیب اور ٹائیلٹ وغیرہ کی سہولتوں کے لیے برسوں سے ترس رہے ہیں۔ ایسے سکولوں کی تعداد بھی ہزاروں میں ہے۔ اسد عمر سے نہ صرف تحریک انصاف بلکہ پڑھی لکھی یوتھ نے بہت بڑی امیدیں وابستہ کر رکھی ہیں۔ اسد عمر کو صلاح مشورے کے لیے ملکی و غیر ملکی فورسز اور ماہرین کا بھرپور تعاون حاصل ہے۔ لہٰذا انہیں ٹیکسوں میں ردّوبدل جیسی روایتی اکھاڑ پچھاڑ کے بجائے کوئی بنیادی نوعیت کے بڑے فیصلے کرنا ہوں گے۔ ایسے اقدامات جو سست رفتار اور حدّت اور حرارت سے محروم اقتصادیات کے تنِ مردہ میں ایک انقلابی روح پھونک دیں۔ ایسے منصوبے سامنے لائے جائیں جو خشک سالی کو ہریالی و شادابی میں بدل دیں۔ جو صنعتوں کے منجمد پیسے کو متحرک کریں، جو تجارتی خسارے کو تجارتی منافع میں بدلی دیں اور جو کشکول گدائی سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے نجات دلا دیں۔ ایک بار پھر یاد دلا دوں کہ بے شک مردانِ عزم و ہمّت کسی بڑے اقدام سے پہلے خوب غورو خوض کرتے ہیں مگر فیصلے میں تاخیر اور تردّد ایک بہت بڑی آفت ہے۔ دیکھیے غوطہ زن اسد عمر کیا گوہر آبدار لے کر نمودار ہوتے ہیں۔