غیرتِ سادات بھی گئی،کے عنوان سے لکھے گزشتہ ہفتے کے کالم پر پہلا زبانی تبصرہ حسب معمول اسلام آباد سے پروفیسر محی الدین صاحب کا تھا‘ہمارے بستر چھوڑنے سے بہت پہلے پروفیسر صاحب۔اخبارات کھنگال کر کالم پڑھ چکے ہوتے ہیں‘عزتِ سادات بھی گئی‘ کا عنوان پڑھ کر گویا ہوئے کہ آپ کس راہ پر نکل کھڑے ہوئے ہو؟اب دونوں میں سے کسی ایک کی خبر لینا ہو گی‘اس طرح کسی ایک کے ساتھ ضروری تعلقات خراب کر بیٹھو گے!خاموشی ہمیشہ اور ہر ایک کے لئے اعلیٰ صفت مانی گئی ہے‘ خاموشی جاہل کے لئے پردہ ہے‘ عالم کے لئے زیور‘صوفی کے لئے زینہ(سیڑھی) مقتدر کے لئے رعب اور دبدبے کا باعث ہوتی ہے‘جسٹس وجیہہ الدین صاحب نے بے جا اور بے وقت خاموشی توڑ کے اپنے زیور میں سے کئی گہنے گنوا دیے‘عمران خاں بھی کم گو نہیں ہیں مگر باتونی بھی نہیں‘پارٹی اجلاس میں انہیں دیکھا ہے‘ جب وہ کسی موضوع پر بحث کے لئے حاضرین کو دعوت دیتے ہیں ،تو مقررین کی تقاریر سننے کے بعد سب کے اعتراضات یا تجاویز کا ایک ہی تقریر میں جواب دینے کی بجائے ہر ایک کا نقطہ نظر سننے کے بعد جوابی تقریر کرتے ہیں‘ اس طرح ایک مجلس میں اگر بیس(20) حاضرین خیالات کا اظہار کریں تو عمران کو بائیس تقاریر کرنا پڑتی ہیں‘ایک بحث کا آغاز کرنے‘دوسری بحث سمیٹنے اور باقی ہر تقریر کے جواب میں ان کی اس عادت سے اس چیز کا خوب اندازہ ہوتا ہے کہ وہ دوسروں کے خیالات کو غور سے سنتے ہیں اور اس پر اپنا الگ یا ملتا جلتا نقطہ نظر رکھتے ہیں‘وزارت اعظمی کا منصب سنبھالنے کے بعد مختلف اداروں میں بریفنگ کے دوران مقتدر اداروں کے لوگوں نے اس خوبی کو سراہا بھی ہے‘یہ بات انہیں دوسرے سیاستدانوں بالخصوص ان کے ہم عصر سیاست دانوں میں ممتاز کرتی ہے باوجود یہ کہ عمران خان اٹھائے جانے والے سوالات کا فوری جواب دینے کی عادت اور صلاحیت سے بہرہ ور ہیں۔الزامات پر جوابی الزامات سے مکمل اجتناب کرتے ہیں بلکہ اپنے اوپر لگائے گئے الزامات کو نظرانداز کر کے بڑے بڑوں کو کہیں کا نہیں چھوڑا: یاں لب پہ لاکھ لاکھ سخن اضطراب میں واں ایک خامشی تری سب کے جواب میں جن دنوں جج صاحب تحریک انصاف میں تشریف لائے ان دنوں اس بے چاری تحریک انصاف پر خزاں طاری تھی۔بہار کے آثار دور کہیں بہت دور تک دکھائی نہیں پڑتے تھے‘ہاں البتہ جج صاحب کی آمد بارش کا اولین قطرہ ضرور تھی ‘لاکھوں رہے دور کی بات ہزاروں کا یارا نہ تھا۔ تحریک انصاف کا دفتر یعنی مرکزی دفتر عمران خاں کے لئے الاٹ شدہ پارلیمنٹ لاجز کے دو کمروں پر مشتمل تھا‘جس کا کرایہ عمران خان کی اسمبلی ممبر کی تنخواہ سے ادا ہوا کرتا تھا۔یہ تو ہرگز نہیں کہ بنی گالہ میں بھوک کا ڈیرہ ہو مگر عمران خاں کو اپنی ضروریات کے لئے ہزاروں کے اخراجات کرتے بھی نہیں دیکھا۔عمران خاں کا یہ کہنا بالکل صحیح ہے کہ میرے گھریلو اخراجات کبھی لاکھوں میں نہیں رہے‘حفیظ اللہ خاں نیازی جو عمران خاں کے بچپن سے دوست‘ساتھی اور قریب ترین رشتہ دار ہونے کے ساتھ آج کل ان کے نقاد بلکہ نقاص بھی ہیں، وہ یا ہمارے بھائی ہارون الرشید بہت کچھ روشنی ڈال سکتے ہیں‘ جو عمران خاں کے ساتھ گھومے پھرے‘اکٹھے بیٹھے‘سفر کیا‘ چندہ اکٹھا کیا‘ ہسپتال یونیورسٹی کے اخراجات پورے کرنے کے لئے دربدر گھومے لیکن جو ہم نے براہِ راست دیکھا وہ بھی خاصے کی چیز ہے۔ ایک شام یہ رمضان المبارک کی شام تھی‘ہم تین لوگ بنی گالہ میں افطاری کے لئے مدعو کئے گئے تھے‘مہمان خصوصی جناب پروفیسر رفیق اختر صاحب تھے‘ان کے ہمراہ ہارون الرشید صاحب اور تیسرا راقم الحروف خود تھے‘یہ وہی شام تھی جب کرکٹ کا ورلڈ کپ ہو رہا تھا اور مصباح الحق نے ایک غلط شارٹ کھیل کر جیتا ہوا میچ ہار دیا تھا۔افطاری کے لئے نہ کوئی میز سجھی نہ دستر خوان بچھا نہ انواع و اقسام کے خوان چنگے گئے‘ہم لوگ ایک کمرے میں الگ الگ کرسیوں پر بیٹھے میچ دیکھتے رہے‘اذان شروع ہوئی تو ایک ملازم پلیٹ پکڑے کمرے میں داخل ہوا‘پلیٹ پروفیسر صاحب کے سامنے رکھی انہوں نے ایک کھجور اٹھائی‘ایک ایک سب روزہ داروں نے کھائی روزہ افطار ہوا‘ایک جگ میں شربت آیا‘سب نے ایک ایک گلاس پیا اس کے بعد نماز باجماعت ادا ہوئی‘چند منٹ کے بعد چار پلیٹوں میں سادہ چاول اور دال پیش کر دی گئی‘آدھ پون گھنٹے میں نماز‘افطاری ‘ڈنر سب ہو چکا‘مہمان‘ میزبان میچ دیکھتے رہے‘آخر میں چائے اور کافی‘یہ معزز ترین مہمان اور اس زمانے میں عمران خاں کے قریب ترین دوست کا افطار ڈنر تھا‘گھر میں ان دنوں کوئی خاتون تو تھی نہیں اور گھر کا ماحول پنجاب یونیورسٹی کے ہوسٹل نمبر 7کا سا تھا۔ معمولی کھانا‘سادگی سے رہنا یہ جز رسی یا کنجوسی اور بچت کا مسئلہ نہیں‘یہ زندگی میں آپ کی ترجیحات کو ظاہر کرتا ہے‘دیکھنا یہ ہے کہ آپ کی ترجیح ذات ہے‘گھرانہ یا کوئی الگ نصب العین‘ جو شخص زندگی میں کسی اچھے مقصد یا اعلیٰ نصب العین کے ساتھ جُڑ گیا اس کے لئے اپنی ذات کوئی اہمیت نہیں رکھتی‘اس کا کھانا‘ پینا‘ رہنا سہنا سب کچھ اپنے مقصد میں ضم ہو جاتا ہے۔عمران خاں اور اس کا خاندان کئی پشتوں سے خوشحالی اور آسائش کی زندگی گزار رہا ہے‘اس کی خاندانی دولت و جائیداد بھی اسودہ اور آرام دہ بسر کے لئے کافی تھی لیکن اس نے اپنی دنیا آپ پیدا کی‘سخت ‘محنت اور کوشش کے ساتھ نام کمایا‘ابتدائی عمر میں ہی ناموری حاصل کی۔ والدہ کی وفات تک وہ عیش و نشاط کی زندگی جیا‘شہزادوں کی طرح جیا اور شہزادوں سے بڑھ کر چاہا گیا‘والدہ کی وفات کے بعد اس نے خود کو اعلیٰ انسانی جذبوں کے زیر اثر بلند تر نصب العین کے ساتھ وابستہ کیا تو سب کچھ بدل گیا‘ وہ خود ہی بدل گیا‘ڈاکٹر نیازی سعودی ولی عہد عبداللہ کے ذاتی معالج تھے‘ جو بعد میں بادشاہ بنے‘ڈاکٹر تب بھی ان کے ساتھ تھے ‘آج کل ڈاکٹر نیازی پاکستان منتقل ہو چکے ہیں، انہوں نے شوکت خانم ہسپتال کے لئے دل کھول کر ساتھ دیا‘ڈاکٹر نیازی جو عمران خان کے قریبی عزیز بھی ہیں‘ہاں ڈاکٹر اکبر خاں نیازی کہتے ہیں کہ پہلے دس پندرہ برس تک عمران خان خود ہی شوکت خانم ہسپتال کیلئے سب سے زیادہ سرمایہ دینے والے فرد تھے۔انہوں نے زندگی بھر کی کمائی‘کھیل کے بدلے ملنے والا معاوضہ رہائشی پلاٹ سب بیچ باچ کر شوکت خانم ٹرسٹ ہسپتال کی نذر کر دیے۔بقول اعتزاز احسن کے‘عمران خاں واحد سیاست دان ہے‘جس کے پاس جو کچھ تھا اس نے قوم پر نثار کر دیا‘حتیٰ کہ اپنی کئی ارب کی ذاتی اور آبائی جائیداد ہسپتال کے نام وصیت کر دی۔ عمران خاں نے جج صاحب کو رنج دیا‘سیاسی مصلحت اصول پر غالب آ گئی‘یہ ایک کمزور لمحہ تھا جو عمران خان پر گزر گیا‘جج صاحب کی انا کو ٹھیس پہنچی لیکن تحریک انصاف کے ہر ادنیٰ و اعلیٰ کارکن اپنے لیڈر کے فیصلے پر رنجیدہ تھا‘ہر جگہ ہر محفل میں پارٹی کارکنوں نے اپنے لیڈر کے فیصلے پر اظہار ناپسندیدگی کرتے ہوئے تنقید کا نشانہ بنایا۔فوزیہ قصوری اور جسٹس وجیہہ الدین کی تحریک انصاف سے رخصتی ہر ایک کے دل پر شاق گزری۔ چند دن پہلے تک جج صاحب پارٹی میں نہ ہوتے ہوئے بھی کارکنوں کے لئے ہیرو تھے’’ہیرو تھے‘‘ وائے افلاس کہ آپ نے دیکھا برتا چھوڑ کر سُنا سنایا کہہ دیا۔