مری خوشی میں بھی میرا ملال بولتا ہے جواب بن کے کبھی تو سوال بولتا ہے کوئی بتائے اسے کس کے روبرو لائیں یہ آئینہ بھی تو الٹی مثال بولتا ہے بات سمجھانے کے لئے ابھی دو اور شعروں کا سہارا مجھے لینا پڑے گا۔کون کہتا تھا کہ غم نوش رہیںہم۔اب جو خاموش ہیں خاموش رہیں ہم۔اس نئے وقت کا کیسا ہے تقاضا۔اپنی لذت ہی میں مدہوش رہیں ہم۔اصل میں ایک دو یوم قبل میں نے اقدار کے حوالے سے گزارشات پیش کی تھیں کہ اقدار کی حفاظت قانون کرتا ہے، سب سے پہلے اقدار کو سنوارنے اور نکھارنے کی ضرورت ہے۔اس حوالے سے دوستوں کی پسندیدگی اور اظہار تشنگی نے احساس دلایا کہ اس ضمن میں کچھ اور باتیں بھی ہو سکتی ہیں، خوشی اس بات کی ہوئی کہ اہل فکر ابھی موجود ہیں۔ڈاکٹر ناصر قریشی نے اپنی گفتگو سے خیال کو جلا بخشی۔ بات کچھ یہاں سے شروع ہوئی کہ انسان کے لئے سب سے زیادہ اہم ہدایت ہے۔ظاہر ہے سارا نظام ہدایات کے تابع ہی تو ہے، وہی جو شیکسپئر نے کہا تھا کہ سب انسان اداکاروں کی طرح ہیں، جو اس دنیا کے سٹیج پر اپنا اپنا رول ادا کر کے چلے جاتے ہیں، یہاں تک تو بات درست ہے مگر اس کے بعد ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان کا وہ رول طے کون کون کرتا ہے ۔کیا اس میں وہ اپنا آپ بھی شامل کرتا ہے یا نہیں۔اگر کرتا ہے تو کتنا؟پھر حضرت علیؓ کی بات ذھن کے دروازے پر دستک دیتی ہے کہ انسان اپنی مرضی سے ایک پائوں اٹھا سکتا ہے‘دوسرا نہیں ۔میں یہاں جبر اور قدر کے مسئلے میں نہیں الجھوں گا بلکہ ہم بات کریں گے سچ اور حق کی اور اس ثلاثہ کی کہ جس کا تذکرہ چلتا رہتا ہو کہ خدا کائنات اور انسان کسی نے اللہ کی طرف رجوع کیا تو مذہب سامنے آ گیا ۔کوئی فطرت یعنی کائنات کی جانب دیکھنے لگا اور نیچری naturisکہلانا اور جو انسان پر غور کرنے لگا تو ہیومنسٹ Humenistکہلوانے لگا۔ اب ذرا غور کرنے کی ضرورت ہے کہ انسان نے مغالطہ کہاں کھایا ،اس نے انسان کے حوالے سے بہت سوچا، تو اس زاویے سے بات کی کہ انسان اس قدر اعلیٰ اور اشرف ہے کہ وہ اپنی زندگی خود کر سکتا ہے اور اپنے مسائل بھی خود حل کرنے کے قابل ہے ،یعنی وہ selfgisded ہے۔ گویا بڑے شاطرانہ انداز میں خدا سے کنارا کر لیا کہ اب اس کی ضرورت نہیں اور منزل ہدایات کو بھی پرانی بات سمجھ بیٹھا۔ تو انسان اپنے آپ کو کائنات میں تلاش کرنے لگا اور کامیابی کے تعاقب میں لگ گیا: ڈھونڈنے والا ستاروں کی گزرگاہوں کا اپنے افکار کی دنیا میں سفر کر نہ سکا بات اس سے آگے چلتی ہے تو حق اور سچ کا مسئلہ سامنے آتا ہے کہ کیا حق مفید شے کا نام ہے یا ہر مفید شے حق ہے اب اس کے لئے تو پیمانے طے کرنا ہے تو انسان نے یہاں اپنی پسند اور ناپسند کے تحت حق اور سچ کے بارے میں فیصلے کئے اپنی محدود سوچ کے تحت نتائج نکالے اب جنہوں نے ہدایت الوہی کو جانا، تو انہوں نے اسی سبیل پر چلنا مناسب سمجھا اصل میں پہلی بات تو حق اور باطل کے درمیان تمیز کرنا ہے، حلال اور حرام کا طے کرنا ہے یہ اور طرح کا مائنڈ سیٹ ہو گا۔جس کے لئے حق بات ہی مفید ہو گی اور طیب شے ہی من پسند ہو گی۔ایک صالح ذھن ہو گا جو اس پر علم کی روشنی میں عمل پیرا ہو گا، دوسرا صادق کہ جس کا مزاج اس انداز میں ڈھل جائے گا : دور رکھا ہے ہمیں حرص و ہوس سے اس نے دانہ رکھتے جو نظر میں تو کسی دام کے تھے میرے معزز قارئین:اتنا بڑا موضوع سنبھالنا مشکل ہے بس اشارے کرتا چلا جا رہا ہوں، اب آپ ایک نظر اقدار و اخلاقیات کے حوالے سے دیکھیں کہ عالمی اقدار کیا ہیں اور کن نے طے کی ہیں وہ انہیں آفاقی اقدار کہہ لیں تو اس کی مرضی وگرنہ تنزیل ہمارے پاس ہے۔ آپ ایک لمحے کے لئے دیکھیے کہ وہ سود کو مفید جانتے ہیں یا وہ سوّر کا گوشت کھاتے ہیں یا اور کئی مسائل ہیں وہ ان چیزوں کو اپنا حق سمجھتے ہیں۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے لئے یہ سب ممنوعہ اشیاء ہیں۔وہ انہی اقدار کو پروموٹ کریں گے کہ جن سے دوسروں کی دولت ہتھیائی جا سکے اور استحصال اور ظلم کا نام انٹرسٹ یعنی منافع رکھا جائے۔ انسان کے بنائے ہوئے قوانین میں بعض اوقات انسانیت ہی معدوم ہوتی ہے۔ ایک اور زاویے سے آپ دیکھیں کہ وہ اپنی اقدار اور اخلاقیات کے تحت تیسری دنیا کے غریب ملکوں کا استحصال اپنا حق سمجھتے ہیں۔وہ ہمارے ساتھ فراڈ بھی کرتے ہیں اور لوٹ مار بھی کرتے ہیں، تو وہ اسے نہایت احسن عمل سمجھتے ہیں وہ کالوں کو خیرات میں کمبل دے کر ان میں چیچک کے جراثیم بھی چھوڑ سکتے ہیں، وہ کھلونا بم پھینک کر بچوں کو اڑا سکتے ہیں۔وہ عراق کے پانچ لاکھ بچوں کو گہری نیند سلا سکتے ہیں۔یقینا ان کے اپنے بنائے ہوئے اصولوں کے تحت یہ سب کچھ درست ہی ہو گا یہ وہ اشرف انسان ہے جسے خود انسان نے کہا تھا وگرنہ جسے اللہ نے اشرف المخلوق کہا ،وہ اور انسان ہے، وہ ہدایات کے تابع ہے۔بات تو پھر مقام کی ہے یا سطح کی وہی جو غالب نے کہا تھا: جانتا ہوں ثواب طاعت و زہد پر طبیعت ادھر نہیں آتی ظاہر ہے اس لئے ریاضت اور مجاہدہ بھی تو ضروری ہے ،اچھا ایک اور انداز سے دیکھتے ہیں کہ سدھار کیوں نہیں آتا۔اصل میں جن اقدار کا نظام رائج ہے ،وہ ہمیں ہوش میں نہیں آنے دیتا یا ہوش نہیں آنے دیتا۔ اسی نظام کی ایک بری پراڈکٹ انگریزی ہے۔ انگریزی پڑھانے میں کوئی حرج نہیں مگر انگریزی میں پڑھانا غلط ہے۔نتیجتاً ہمیں اپنی قومی زبان تک سے محروم رکھا جا رہا ہے۔ زبانیں اپنی ثقافت ہی لے کر آتی ہیں۔ویسے یہ ہماری حمیت کے خلاف ہے کہ ہماری قومی زبان نہ ہو اور اگر ہو تو وہ دوسرے درجے پر بھی نہ ہو۔خیر بات لمبی ہو جائے گی۔ جس ہدایت سے بات چلی تھی وہ سورۃ طور میں ہے جہاں طوق اور زنجیروں کا تذکرہ ہے۔یہ معاملہ تو بعد کا ہے مگر ہم تو اس وقت بھی وہ طوق اور زنجیریں جو غلامی کی نشانی ہیں ہمارے گلے میں اور پائوں میں پڑی ہوئی ہیں۔بس محسوس کرنے کی بات ہے یہ طوق و سلاسل جنہیں ہم خوشی اور رضا مندی سے آئی ایم ایف کے نام پر لیتے ہیں یہ ایک طرح کی سزا ہیں۔یہ نافرمانوں کو قیامت کے روز پہنائی جائیں گی خالد احمد کا شعر یاد آ گیا: پائوں میں بیڑیاں نہیں خالد حلقۂ اختیار سا کچھ ہے