مجھے اچھا نہیں لگتا کوئی تجھ سا نہیں لگتا میں ایسے بات سنتا ہوں کہ تو جھوٹا نہیں لگتا امید ہے آپ شعروں کے اختصار و اعجاز کو محسوس کر سکیں گے کہ کوشش تو میں نے یہی کی ہے کہ بات کا ابلاغ اشارے کنائے ہی میں ہو جائے کہ پی ٹی آئی کے شعلہ نوا مقررین کے بلاغت نظام کی مجھے بات کرنا ہے۔ ابلاغ میں بعض اوقات پوری بات بھی ادھوری لگتی ہے اور کبھی ادھوری بھی پوری یگانہ یاد آئے ’’بات ادھوری مگر اثر دونا ۔اچھی لکنت زبان میں آئی لیجیے ایک عنفوان شباب کا شعر بھی ذھن و دل پر دستک دینے لگا۔ ایک بھی نہیں دو شعر: مجھ کو اچھی نہیں لگتیں یہ شعوری باتیں ہائے بچپن کا زمانہ وہ ادھوری باتیں تجھ سے ملنا بھی بہت کام ہوا کرتا تھا روز ہوتی تھیں ترے ساتھ ضروری باتیں یہ کچی عمر کتنی اچھی ہوتی ہے کہ بندہ کچھ بھی بونگی مار لے‘ سننے والے گوارہ کر لیتے ہیں آپ اس عمر سے اور پیچھے چلے جائیں تو بات اور واضح ہو جائے گی۔ دو تین سال کا بچہ بلکہ ایک سال کا بچہ جب جھولے میں پڑا ہاتھ پائوں مارتا ہے تو کتنا پیارا لگتا ہے آپ اس کے ہاتھ پائوں چومتے ہیں یہ ہاتھ پائوں چلانا بچے پہ جچتا ہے اور آپ اس پر ٹھیک فریفتہ ہوتے ہیں۔ اب اگر یہی کام کوئی سیاناکرے یعنی لیٹ کر ہاتھ پائوں چلانے لگے تو گھر والے پہلے پریشان ہونگے اور پھر اسے اٹھا کر پاگل خانے لے جائیں۔ یہ فضول سا خیال مجھے موجودہ سیاسی منظر دیکھ کر آیا ہے کہ سب کچھ بچگانہ سا لگ رہا ہے۔ تقریریں ہی تقریریں ‘ وعدے ہی وعدے اور دعوے ہی دعوے۔ حاصل حصول کچھ نہیں۔ جھوٹ کی ایسی ’’گٹھیں‘‘ بنائی جاتی ہیں کہ جھوٹ کا نام ’’عمرانی بیانیہ‘‘ پڑ گیا ہے اور اس کے بعد پیچھے امام کے جو کچھ کہا جا رہا ہے کچھ نہ پوچھیے۔ ایک شہر یار آفریدی کا معاملہ ہی لے لیں کہ رانا ثناء اللہ کے کیس میں کیا اودھ نہیں مچایا گیا۔ محترم نے قسمیں اٹھا اٹھا کر اور بار بار اللہ کو جان دیتے ہوئے کہا کہ رانا ثناء اللہ 15کلو ہیروئن کے ساتھ رنگے ہاتھوں پکڑا گیا ہے کہ اے این ایف کے پاس ویڈیو اور فوٹیج موجود ہے۔ اس انداز میں چیخ چیخ کر قوم کو باور کرایا گیا کہ شہر یار آفریدی کی بات میں ایک فیصد بھی جھوٹ کا گمان نہ ہوتا تھا اور سب سمجھتے ہیں کہ ایسی صورت میں یہ ناقابل ضمانت جرم اور سزا بھی آپ جانتے ہیں پھر ہوا کیا: بہت شور سنتے تھے پہلو میں دل کا جو چیرا تو اک قطرہ‘ خون نہ نکلا رانا صاحب رہا ہو گئے اور لوگ ششدر رہ گئے۔ اب آفریدی صاحب کہہ رہے ہیں ضمانتیں ہوئی ہیں۔ بلی کھمبا نوچ رہی ہے۔ پتہ نہیں ایسا انہوں نے کیوں کہا اور اتنے وسوخ کے ساتھ کہ اللہ کو جان دینی ہے۔ ان کا یہ جملہ تاریخ کا حصہ بن گیا کہ’’اللہ کو جان دینے والا‘‘ سمجھ سے باہر ہے کہ باقی لوگوں نے کس کو جان دینی ہے۔ ہاں Dr Foustomمیں پڑھتے تھے کہ اس نے شیطان کو جان دینے کا وعدہ کیا تھا۔ خیر بات ہو رہی تھی شہر یار آفریدی کی۔ انہوں نے خود تو بلنڈر کیا مگر ساتھ ہی اینٹی نار کو ٹکس فورس کے فوجی افسروں کو بھی دائو پر لگا دیا۔ رانا ثناء اللہ یہی کہہ رہے تھے کہ انہوں نے چیف آف دی آرمی سٹاف کو درخواست کی ہے کہ وہ اس بات کا نوٹس لیں کہ فوجی افسر کن گھٹیا لوگوں کے ہاتھ میں استعمال ہو رہے ہیں۔ انہوں نے یہ بہت ہی خوفناک بات کی آفریدی کو مرتے وقت کلمہ نصیب نہیں ہو گا۔ یہ بات سخت ہے مگر جب ایک بے گناہ کو آپ ایسے پکڑیں گے تو وہ کتنا زچ ہو گا۔ رانا ثناء اللہ کی بیوی نے جو کہا سب نے سنا کہ اس نے پہلے پرویز مشرف کو خدا کے سپرد کیا تھا اور اب شہر یار آفریدی کو۔دلچسپ بات یہ کہ آفریدی صاحب ابھی بھی فرما رہے ہیں کہ ثبوت انہوںنے اپنی آنکھوں سے دیکھے اور یہ بھی کہا کہ یہ ضمانتوں کا موسم ہے۔ ضمانتوں کا موسم تو قبلہ ایک مذاق بن گیا ہے۔ آپ ادھر مجرم پکڑتے ہیں ادھر وہ چھوٹ جاتا ہے۔ معاملہ تو یہ ہے کہ آپ اس کے ٹھوس ثبوت پیش کریں۔ ہمیں تو ایسے لگتا ہے جیسے آپ ایک ہاتھ سے پرندہ پکڑتے ہیں دوسرے ہاتھ سے اڑا دیتے ہیں۔ آپ الزام کسی کو نہ دیں کہ آپ کی اپنی بنائی ہوئی ٹیمیں بتاتی ہیں کہ پچھلی حکومت نے جو قرض لیے وہ صحیح طور پر منصوبوں پر خرچ ہوئے۔ نواز شریف کے ضمن میں خود عمران خاں نے بتایا کہ ان کے اپنے ہسپتال کے ڈاکٹر نے نواز شریف کو سیریس بیمار بتایا۔ اگر خواجہ آصف نیب نیازی گٹھ جوڑ کی بات کرتے ہیں تو اب وہ غلط نہیں لگ رہے۔چلیے چھوڑیے ان باتوں کو کہ ہمیں تو اسد عمر اچھے لگے کہ انہوں نے اپنے بیٹے آصف عمر کی شادی پر دل کھول کر بھنگڑا ڈالا۔ لوگ حیران رہ گئے مگر اب بھنگڑے ڈالنا ہی رہ گیا ہے۔ ’’ہم تو ناچیں گے‘‘ اور پھر پی ٹی آئی کا تو یہ فعل پسندیدہ’’ اج مرا نچنے نوں جی کردا‘‘ رونا تو اس بات کا ہے پی ٹی آئی کے نمائندہ رہنمائوں کا کوئی سنجیدہ چہرہ نہیں بنتا۔ آپ شہر یار آفریدی کے علاوہ کئی اور بھی دیکھ لیں۔ آپ کو بڑھکیں ہی نظر آئیں گی۔ قسمیں اٹھا اٹھا کر بات کرنے والے بھی عجیب لگتے ہیں۔ مراد سعید کے دعوے سنیں تو ہنسی آتی ہے مگر پی ٹی آئی والے اسے خطیبِ وقت اور دانش حاضر سمجھتے ہیں۔ اس کی باتوں پر سر ہلا رہے ہوتے ہیں وہ تو باہر کے قرضے بھی ان کے منہ پر مار چکا۔ فیاض الحسن کو دیکھیں اور پھر دیکھتے رہیں۔ ہم نے تو اس قحط الرجال کا کبھی سوچا بھی نہ تھا۔ ابھی میں نے شیخ رشید کا تو تذکرہ ہی نہیں کیا کہ وہ ویسے پی ٹی آئی کا ہے ہی نہیں مگر خان صاحب اس سے چھٹکارہ حاصل نہیں کر سکتے۔ اور شیخ صاحب نہ جانے کس مٹی کے بنے ہوئے ہیں۔ اب وہ بلاول کے پیچھے پڑے ہیں کہ وہ ابھی بچہ ہے بچ کر کھیلے۔ ویسے بچے سے لڑنے والا بھی بڑا نہیں ہوتا۔ فرما رہے ہیں سندھی بھائی پنڈی نہ آئیں۔ کیوں بھائی پنڈی والوں نے آپ کو بھی تو برداشت کیا ہوا ہے۔ میرے معزز قارئین میں کسی اور طرف نکل گیا۔ آپ میری باتوں کی تلخی کا ذائقہ برداشت کریں کہ درد آج مرے دل میں سوا ہوتا ہے کہ پی ٹی آئی نے ہماری ساری امیدوں پر پانی پھیر دیا ہے: چاند نکلا ہے نہ روشن ہے ستارا کوئی شب گزرنے کا مرے دوست اشارہ کوئی اور تو اور آج سورج کو بھی گرہن لگ رہا ہے یعنی یہ اتفاق ہے۔ ہمیں تو اپنے ملک کی فکر ہے کہ جسے 70سال سے برے حالوں میں رکھا جا رہا ہے۔ ہر آنے والا نجات دھندہ لگتاہے اور پھر اس سے نجات حاصل کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ ان نجات دھندوں کو لانے والے خود بھی آتے ہیں تو وہ بھی عذاب ثابت ہوتے ہیں۔ شاید ہمارا مقدر ہی ٹھیک نہیں۔ قصور اصل میں ہمارا ہی ہے۔ ہم خود کون سا اس ملک کے ساتھ مخلص ہیں۔