پنجاب میں حکومتی عدم توجہی کے بعد مختلف جعلی ادویات و بیج اور کھادوں کی وجہ سے فی ایکڑ پیداوار انتہائی کم ہو گئی۔ کھادیں اور پیسٹی سائیڈ بنانے والی کمپنیاں کسانوں کا خون چوسنے لگی ہیں۔ زراعت ہماری معیشت میں ریڑھ کی ہڈی جیسی حیثیت رکھتی ہے لیکن بدقسمتی سے 72 برس میں آج تک کسی بھی حکومت نے کسانوں کی بہتری کیلئے کوئی بھی منصوبہ پیش نہیں کیا جس کے باعث فی ایکڑ پیداوار میں کافی حد تک کمی واقع ہو چکی ہے۔ کسان مختلف کمپنیوں سے ادویات خریدتے ہیں لیکن یہ ادویات ناقص اور غیرمعیاری ہوتی ہیں جس کے باعث کسانوں کا پیسہ بھی ضائع ہوتا ہے اور فصل کی پیداوار میں بھی اضافہ نہیں ہوتا۔ وزیراعظم عمران خان نے زرعی ایمرجنسی کا پروگرام بنایا ہے۔ اس سلسلے میں زرعی شعبے کی ترقی کے لئے 20 سے زائد ورکنگ گروپ تشکیل دیئے گئے ہیں جنہیں فصلوں کی فی ایکڑ پیداوار اور زرعی برآمدات میں اضافے اور تیلدار اجناس کے زیرکاشت رقبہ اور پیداوار میں اضافے کا ٹاسک سونپ دیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں حکومت نے 300 ارب روپے مختص کئے ہیں جس سے کسانوں کو سبسڈی دی جائے گی۔ اس کے علاوہ حکومت نے کسان دوست کارڈ کے اجراء کا بھی فیصلہ کیا ہے جو خوش آئند ہے۔ پنجاب میں چارنئی منڈیوں کی تعمیر اور پرانی منڈیوں کی اپ گریڈیشن کا منصوبہ بھی ہے۔ حکومت اگر اس منصوبے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو اس سے زرعی شعبہ میں سالانہ 4 سے 5 فیصد ترقی ہو گی۔ہمارے ہاں منصوبوں کا اعلان تو ہو جاتا ہے لیکن ان پر عملدرآمد نہیں ہوتا جس کے باعث لوگ امید و یاس کی سولی پر لٹکے رہتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ یہ منصوبہ کامیابی سے ہمکنار ہو سکے۔