ہر روز کی تازہ تحریر میںایک پرانا جملہ گردش کرتا ہے کہ عوام کا حافظہ بہت کمزور ہے اب یہ جملہ عمرانی ‘‘مسلمات ‘‘کا ایک مستقل مضمون ہوا چاہتا ہے خیر ایک نسیان زدہ حقیقت یہ بھی ہے کہ کچھ تاریخ فروش جان بوجھ کر بھولنے کا سبق اپنی معرکتہ الارا تصانیف میں دھراتے ہیں۔ بدقسمتی کا یہ حصہ ہماری ملی تاریخ کو نصیب ہوا ہے۔ پاکستان کیوں ناگزیر تھا؟ اور اس کی بقاء کے لئے‘ اس کی فکری و نظری ضرورت کو پیش نظر رکھنا کیوں واجب ہے؟ اور کیسے سفر بقائے وطن کا زاد راہ بچا کر اور بڑھا کر محفوظ رکھنا ہے؟ یہ تین سوال اگر مطالعہ پاکستان کی روح میں اتار کر نسل نو کی فکری اور حب الوطنی کی صلاحیتوں کو نہ بڑھایا گیا تو شعلہ نوا خطیب کی سلگتی بدنیت تقریر ہماری نسل کے اعتقادی اور عقلیاتی خرمن کو بھسم کر ڈالے گی۔ دلیل ہے کہ اب سنگھاسن پر بیٹھنے والے وہ بے شعور جذبات سفلہ سے بھرے زبان دراز ہیں کہ عوامی مزاج کو بھٹکانے کے لئے نعرہ تکبیر بھی بلند کرتے ہیں تو نعرہ تکبر کہتے ہیں۔ علم سے دور‘ عقل کے بیری اور ملت و وطن کی شناخت سے بے مہرہ لوگ ہیں۔ جاننے والے جانتے ہیں اور تڑپتے ہیں۔ تماشہ کرنے والے جب چاہیں حسب توفیق اور حسب حالات چکمہ دیتے ہیں۔ پرانے روگ زدہ ہیں کیا وہ تھے اور کیا یہ ہیں۔ کتاب اللہ کو سلیقے سے نہ پڑھنا اپنا علمی اور عقلی امتیاز بتاتے ہیں۔ اذان بجتا‘ نمازوں کے لئے صدائے اذان کی دعوت جہالت بتانا۔ دینی علوم کا ٹھٹھا کرنا۔ یہ سب ان کی ظلمت زدہ جدید روشنی کا ڈھنڈورہ ہے۔ پاکستان کیوں ناگزیر تھا؟ ریاست مدینہ کا فیضانی تسلسل جہاں پایا گیا وہاں پر سیاسی ریاست کا تقاضہ فطرت کے بطن سے برآمد ہوا۔محمود غزنوی سے مشرکین ہذا کا پنجہ لڑا۔ حالات نے کروٹ بدلی اور ریاست مدینہ کی روح جو انسانیت کو پروان چڑھانے کی عالمگیر تحریک اور دائمی قوت ہے حضرت داتا گنج بخش ؒ کی ذات اقدس کی شکل میں ایشیا کے مرکز کو میسر آئی۔امت محمدیہ میں وہ رجال عظام وقت کی ضرورت اور مناسبت سے اصلاح کار اور تعظیم انسانیت کے فروغ کے لئے بحکم خداوندی اقوام کو قیادت فراہم کرتے ہیں۔مسلمان کب کسی پرجابرانہ اور ظالمانہ وارد ہوئے۔ کچلے اور پسے ہوئے مستانسان دوست دھرم اور دھرموں کی طرف لپکتے تھے کیونکہ جبر واکراہ کے مراکز شاہی ایوان بدکردار جادوگروں کے جلو میں ظلم کا بازار گرم رکھتے تھے۔ جادو گرداتا صاحب سے ٹکرانے۔بالآخر قوت لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہؐ کے سامنے ڈھیر ہوئے۔ شاہی محلات کے کنگرے زمین بوس ہوئے اور فقیر محمد علی صاحب الصلوٰۃ و سلام کی قبر کی خاک ہی شہنشاہان وقت کیلئے کھلی البصر ثابت ہوئی اور ایک طغریٰ فکر مسلمانان عالم اسلام کو ولولہ تازہ دیتا ہے ؎ سید ہجویر مخدوم امم مرقد او پیر سنجر را حرم افغانستان سے آنے والا مسافر سنت نبویؐ کے اتباع میں ہجرت کی وادیاں طے کرتا ہوا آستان گنج بخشؒ پر معتکف ہوا اور پھر جبر و استبداد کی ہندو سلطنت کے قلب میں جھنڈا گاڑایہ علم ظفر مندی مدینہ طیبہ کی باطنی ریاست سے عطا ہوا تھا کہ اس دور کا ایک نیا پاکستان بنانا مقصود تھا۔ خوشامد پسند درباری ہردور کے حاکم کو شرمندگی کا طوق پہنا دیتے ہیں خواجہ خواجگان حضرت معین الدین چشتیؒ اپنے بلند ارادوں سے ہند میں وارد ہوئے۔ سادہ اطوار تھے۔ وجود میں بے انتہا کشش لئے ہوئے قریب شہر اپنا مسکن بنا لیا۔ مظلوموں کا حلقہ سادہ لوح درویش سے فیض یاب ہواتھا اور اپنے قلوب کو ایمان کی دولت سے معمور کر رہا تھا۔ حضرت خواجہ دین اسلام سکھاتے تھے۔ جبر و ظلم کے معاشرے کے غریب سادہ لوگ اپنے جیسے لوگوں کو دعوت دیتے تھے اور یوں جذبات ایمان سے بھری ایک سچی اسلامی دنیا آباد ہو رہی تھی۔ فقیر کی عزت مظلوم مقامی آبادی کے دلوں میں گھر کر رہی تھی۔ جبیں اقتدار پر بل تھے۔ حکومتی کارندے ستاتے تھے راجہ کی چراگاہ سے دور بھیج دیا کہ کے فقیر بیٹھنے سے راجہ کے اونٹوں کو دقت ہوتی ہے۔اقتدار کے مزاج میں بے جا تکبر بھی ہوا کرتا ہے تکبر بجا ہو یابے جا بُراہوتا ہے۔ وہ تو اسی ذات کبریا کو زیب دیتا ہے جس نے سب کو عزتیں بخشی ہیں اگر کسی کا احساس جاگے اقتدار کے سنگھاسن پر بیٹھنے والے کبھی کبھی خوف سے دہل جاتے ہیں تو جادوگروں اور شریر مزاج کی کھیپ تیار رہتی کہ اپنے آقائوں کو مزید ظلم کی قوت فراہم کریں۔ ایک اقتداری رواج ہے کہ ہر دور میں کسی گورو رجنیش کا سہارا تلاش کرتے ہیں۔ خواجہ غریب نواز پر ایسے کتنے ہی ہتھکنڈے آزمائے۔ کبھی پانی پر قبضہ کیا جاتا اور کبھی جبر کی قوت سے خواجہ کی آماجگاہ پر قبضہ جمایا جاتا تھا اور آخر میں ایک جادوگر نے ہوا میں اڑ کر اپنی فسوںکاری کا فضائی مظاہرہ کیا تو غیرت فکر کا سراپا خدائی رحمتوں میں ڈوبا دست بدعا تھا کہ فقیر کی نعلین ہوا میں اٹھیں اور اس شریر جادوگر کی سرکوبی کرتے ہوئے اسے نیچے اتار کر لے آئیں۔ قارئین حق و باطل کا معرکہ فرعون و موسیٰ کے عہد میں ہو یا خدائی قوت کا مظاہرہ کسی بھی خطے اور کسی بھی زمانے میں ہو۔ غلبہ حق کی خدائی قوتوںکا مظاہرہ ایسے ہی ہوتا ہے۔برصغیر میں اسلام کا اجرا احیاء اور تجدید کا متبرک اور تاریخی کارنامہ ہمیشہ خانقاہ اور اس بلند خانقاہ سے سرانجام پایا ہے جس میں زندہ ایمان اور حرارت ایقان کی سرمدی طاقت موجود ہوتی ہے۔ یہ پاکستان اور پاکستان کی بقاء کا نسخہ اسی ایمانی سوز کا نتیجہ ہے جس ایمانی سوز کی قوت تحریک پاکستان کے قائدین اور کارکنان کو حاصل تھی۔ یہ جذباتیت یا محض رواداری بیانات نہیں ہیں۔ ایک سچی اور کھری حقیقت لے کر پاکستان کی بنیاد توحید و رسالت کی امانت پر بھی استوار ہے اور اولیاء اسلام کی نظری و عسکری قوت کا یہ ثمرہ ہے۔ ظاہری سپاہ اور عسکری آلات حرب بھی اسی روحانی نظام سے وابستہ ہیں جس روحانی نظام نے ظاہری قوتوں کے لئے بدری فضائیں پیدا کرنے کے لئے اپنی ایمانی تگ و دو کی تھی۔ خواجہ غریب نواز نے فرمایا تھا کہ ہم نے پرتھوی کو زندہ گرفتار کر لیا اور پھر شہاب الدین غوری کو خواب میں ہندوستان پر حملہ کرنے کی دعوت دی اور حالات سازگار ہوتے گئے۔ یہ اس درد کا ایک نیا ماحول تھا۔ مظلومین کے لئے تائید غیبی کا ایک نیا مظہر تھا ۔نووارد جو حلقہ اسلام میں اطمینان محسوس کرتے تھے ‘ان کی غلامی کی زنجیر یں کٹ رہی تھیں اور اسلامی معاشرہ تشکیل پا رہا تھا۔ آہستہ آہستہ شرکستانِ ہند اسلامی ہند میں تبدیل ہوا۔ فقر کی سلطنت اور اس کا سایہ نور اگر خطوں کو میسر ہو تو انسانوں کی قسمت بدلتی ہے اور سلطنتوں کو خدائی برکت نصیب ہوتی ہے۔آج پاکستان کے تازہ حالات بھی کسی اورفقیر کی استقامت ایمانی کا انتظار کر رہے ہیں اور ظالمین و منافقین سے چھٹکارے کا وقت نزدیک آ رہا ہے۔