امیر تیمور گورگانی نے اپنی خودنوشت سوانح عمری میں طاقت اور کمزوری کا فلسفہ سادہ الفاظ میں بیان کیا ہے’’میری کمزوری دراصل میرے دشمن کی طاقت ہے اور دشمن کی کمزوری میری حقیقی قوت‘‘ اپنی قوت کے مکمل ادراک اور دشمن کی کمزوری سے سوفیصد واقفیت کے بغیر کوئی کامیابی و کامرانی کا سنگ میل عبور نہیں کر سکتا۔ فرد ‘گروہ‘ ملک اور قوم کوئی بھی اس سے مستثنیٰ نہیں۔ سوویت یونین کی افغانستان میں ذلت آمیز شکست اور پسپائی کے بعد خیال یہی تھا کہ کم از کم اگلی ایک صدی تک کوئی دوسری ریاست اور قوم اس حماقت کا اعادہ نہیں کریگی جو کمیونسٹ ریاست سے سرزد ہوئی اور جس نے ایک نظریاتی‘ فلاحی مگر سخت گیر سپر پاور کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا۔ امریکہ کے صدر بش جونیئر مگر افغانستان میں سوویت یونین کی شکست کو امریکی قوم کی ذہانت‘ فوجی طاقت اور ناقابل تسخیر جنگی ٹیکنالوجی کا کارنامہ سمجھ کر اس دلدل میں کود پڑے جس میں انیسویں صدی کی دو سپر پاورز برطانیہ اور سوویت یونین پھنس کر رسوا ہوئیں ؎ آفاق کی منزل سے گیا کون سلامت اسباب لٹا راہ میں ہر سفری کا افغان عوام یا زیادہ درست الفاظ میں طالبان کی کامیابی کا سبب کیا تھا؟۔ عزم راسخ اور دشمن کی کمزوری کا مکمل ادراک۔ افغان عوام کی جدوجہد کا سہرا طالبان کے سر اس لیے بندھتا ہے کہ امریکہ اور اس کے طاقتور‘ مالدار اور بااثر اتحادیوں کے مدمقابل صرف یہی ڈٹے رہے۔ ازبکوں‘ تاجکوں ‘ ہزارہ وال کی نمائندگی کے دعویدار تو شمالی اتحاد کی شکل میں امریکہ کے آلہ کار بنے اور پختونوں میں سے ظاہر شاہ‘ حامد کرزئی اور ڈاکٹر اشرف غنی نے امریکی غلامی کا طوق گلے میں ڈال لیا۔ گلبدین حکمت یار نے بھی عصر کے وقت روزہ توڑ کر کٹھ پتلی حکومت سے ہاتھ ملایا اور شامل باجا کہلایا۔ طالبان سے مذاکرات کی بھیک مانگ کر امریکہ نے اپنی کمزوری عیاں کر دی ہے اور پاکستان کی قیادت کو باور کرایا ہے کہ وہ بھی چاہے تو طالبان کی طرح عزم راسخ اور ایمان کامل کے سہارے وہ سب کچھ حاصل کر سکتی ہے جو ریاست مدینہ نے اپنے وقت کی دو سپرپاور فارس و روم کے مقابلے میں حاصل کیا‘ شان و شوکت‘ عزت و عظمت اور وسعت و قبولیت ۔ امریکہ پاکستان پر دبائو ڈال رہا ہے کہ وہ طالبان کو کٹھ پتلی حکومت کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بٹھائے اور شریک اقتدار کرنے میں سپر پاور کی مدد کرے۔ طالبان اپنے دشمن سے مذاکرات شروع کر چکے ہیں مگر ملّت کے غداروں سے ہاتھ ملانے پر تیار نہیں۔ ماضی کے تلخ تجربات کی روشنی میں پاکستان پرائی جنگ نہ لڑنے کا فیصلہ تو کر چکا ہے مگر اقتصادی و معاشی مجبوریوں کی بناء پر ہر امریکی مطالبہ ٹھکرانے کی پوزیشن میں نہیں۔ اگر عمران خان اور جنرل قمر جاوید باجوہ اس گرداب سے نکلنے میں کامیاب رہے تو سوویت یونین کی پسپائی کے بعد پاکستان کمزور‘کم عقل‘ اور کرپٹ اور اقتدار پرست سیاسی قیادت کی وجہ سے 1989ء میں جنگ کے جو ثمرات نہ سمیٹ سکا ‘اب مضبوط ‘ پرعزم اور ایماندار قیادت ان سے بآسانی فیضاب ہو سکتی ہے۔ مگر امریکہ و یورپ کو پہلی بار یہ احساس ہوا کہ خطے کا اہم ملک بھارت نہیں‘ پاکستان ہے اور پاکستان سے معاملہ اب ایک نوآبادی سمجھ کر نہیں آزاد‘ خود مختار‘ باعزت‘ باوقار‘ ریاست کے طور پر کرنا پڑے گا۔ ٹرمپ اور ان کے ساتھیوں کو یہ ادراک ہے‘ نہیں تو ہو جائے گا کہ وہ زمانہ لد گیا جب امریکی نائب وزیر خارجہ کرسٹینا روکا پاکستان آتی‘ سیکرٹری خارجہ‘ وزیر خارجہ سمیت کسی کو علم نہ ہوتا‘ محترمہ ایئر پورٹ سے سیدھا ایوان صدر کا رخ کرتی۔ جنرل پرویز مشرف سے گپ شپ لگاتی اور صحافیوں کے سامنے من پسند باتیں کر کے واپس چلی جاتی۔ ہمارے وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی امریکی ایئرپورٹ پر جامہ تلاشی دیتے اور ہرگز بدمزہ نہ ہوتے۔ جنرل پرویز مشرف کے ساتھ سرکاری دورے پر جانے والے وزیر تجارت رزاق دائود اور صدر کے پریس سیکرٹری میجر جنرل راشد قریشی کو بھی ایک بار جامہ تلاشی کے عمل سے گزرنا پڑا۔ ہم اور ہمارے حکمران یہ ذلت محض اس لئے برداشت کرتے کہ مُنہ کھائے‘ آنکھ شرمائے ۔جب اقتدار غیر ملکی طاقتوں کا مرہون منت ہو‘ جنرل پرویز مشرف اور محترمہ بے نظیر بھٹو کے مابین صلح صفائی امریکی وزیر خارجہ کنڈولیزا رائس کرائے اور میاں نواز شریف و فاروق لغاری کے مابین رابطوں کے دوران رابن رافیل کی مری میں اپوزیشن لیڈر سے ملاقات ضروری قرار پائے تو پھر امریکی ہمارے‘ سرکاری افسروں حتیٰ کہ وزیروں‘ مشیروں سے جو سلوک کریںان کی مرضی ۔امریکہ‘ طالبان مذاکرات سے یہ سبق ملا ہے کہ اگر ہم قومی عزت و وقار پر کوئی سمجھوتہ نہ کرنے کا عزم کر لیں‘ امریکہ کو رازق ‘ مالک اور علیٰ کلِ شیٔ قدیر نہ سمجھیں اور مومنوں جیسی پامردی دکھائیں تو دنیا کی آٹھویں بڑی فوجی‘ چھٹی نیو کلیر اور چونسٹھ فیصد نوجوانوں پر مشتمل ریاست اتنی بھی کمزور نہیں کہ کوئی ہمیں پھونک مار کر اُڑا دے۔ رسول اللہ ﷺ نے ایک موقع پر فرمایا۔ ’’ایک وقت ایسا بھی آئے گا جب مسلمانوں پر ان کے دشمن اس طرح ٹوٹ پڑیں گے جس طرح شہد کے پیالے پر مکھیاں یلغار کرتی ہیں‘‘صحابہ کرامؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ کیا ہم تعداد میں اس قدر قلیل ہوں گے’’آپؐ نے فرمایا’’نہیں ‘ تمہاری تعداد انگنت ہو گی‘‘ ’’اس کے باوجود ہمارا یہ حال ہو گا مگر کیوں‘‘صحابہؓ نے جسارت کی ‘فرمایا ’’وہن کی وجہ سے‘‘ زندگی سے پیار اور موت سے فرار کی عادت تمہیں اس حال تک پہنچا دے گی‘‘خوف اور کمزوری کی اس مہلک اندرونی بیماری نے صرف پاکستانی عوام نہیں‘ اُمہ کو بھیڑوں کا ریوڑ بنا دیا ہے جس کی کوئی حیثیت ہے نہ منزل۔ دو دن اسلام آباد میں گزارے۔ مختلف ملاقاتوں میں یہ سننے کو ملا کہ ہم خوف کی اس بیماری سے نجات حاصل کرنے کی تگ و دو کر رہے ہیں۔ آئی ایم ایف سے ہم نے کہہ دیا ہے کہ ڈالر پر کنٹرول ختم نہیں ہو گا۔ فری فلوٹنگ کا مشورہ قبول نہیں‘ سزائے موت اور انٹرنیشنل این جی اوز کے حوالے سے یورپی یونین کی شرائط پر چار حرف بھیجے جا چکے ہیں کہ ہمارے آئین‘ مذہب اور سماجی اقدار کے منافی شرائط ہیں اور وزیر اعظم عمران خان فی الحال صدر ٹرمپ کی دعوت پر امریکی دورے کا ارادہ نہیں رکھتے۔ ایسا دورہ جس کا مقصد فوٹو سیشن کے سوا کچھ نہ ہو‘ اس سے بہتر ہے کہ صدر ٹرمپ جو کہنا چاہتے ہیں وہ عمران خان کو فون پر کہہ دیں۔ عمران خان کی اہلیہ کو میلانیا ٹرمپ کے ساتھ تصویر کھنچوانے کا شوق ہے نہ وزیر اعظم کے صاحبزادے وائٹ ہائوس دیکھنے کو بے تاب ہیں اور نہ خود وزیر اعظم کو سیون سٹار ہوٹلوں اور لیموزین گاڑیوں میں گھومنے کی لپک۔سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان اور قطری حکمران کی پاکستان آمد کا انتظار البتہ شدت سے کیا جا رہا ہے دونوں کے ساتھ سرمایہ کاروں کی کھیپ ہو گی اور اربوں ڈالر کے معاہدوں کی سوغات‘ غیرت مند افغانوں نے ایک صدی میں‘ تین سپر پاورز برطانیہ‘ سوویت یونین اور امریکہ کو شکست دے کر ثابت کیا کہ ؎ غیرت ہے بڑی چیز جہانِ تگ و دو میں پہناتی ہے درویش کو تاجِ سرِدارا دیں ہاتھ سے دے کر اگر آزاد ہو ملت ہے ایسی تجارت میں مسلماں کا خسارہ بے تیغ افغان عوام نے عہد حاضر کی ’’نیو کلیئر ریاست مدینہ‘‘ کو محض شمشیر کے بجائے قوت بازو‘ جذبہ ایمانی‘ عزم صمیم‘ مومنانہ فراست اور قادر مطلق کی قوت پہ بھروسے کی راہ دکھائی ہے اور ہم اتنے کمزور‘ بے آسرا ‘ بے وسیلہ اور بے عقل و بے حمیّت ہرگز نہیں کہ محض ترنوالے کے شوق میں ڈھلوان کا یہ سفر جاری رکھیں‘ جس نے ایک غیرت مند قوم کو کشکول بردار بنا دیا ۔ ؎ اپنے رازق کو نہ پہچانے تو محتاج ملوک اور پہچانے تو ہیں تیرے گدا‘ داراوجم دل کی آزادی شہنشاہی ‘ شکم سامان موت فیصلہ تیرا‘ ترے ہاتھوں میں ہے دل یا شکم؟