ادب اور شاعری ہمارے کلچر کا سب سے اہم حصہ ہے۔جس طرح انسانی جسم کا کوئی بھی عضو غیر اہم قرار نہیں دیا جا سکتا،مگر پھر بھی کچھ اعضاء کی اہمیت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا۔ کلچر کے ساتھ بھی ایسا کچھ ہے۔ کلچر ایک قوم کا جسم ہے۔ جس طرح حیاتیاتی جسم میں دماغ؛ دل اور آنکھوں کی بنیادی اہمیت ہوا کرتی ہے۔ اس طرح ہماری ثقافت میں فن اور فکر کی سطح بہت بلند ہوا کرتی ہے۔ فن اور فکر صرف ہماری اپنی پہچان نہیں ہوتے۔ فن اور فکر کی معرفت ہم دنیا کو جاننے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ہر قانون کلچر کی صورت اختیار نہیں کرتا۔ ہماری قدیم روایات فن اور فکر کی معرفت ایسے قوانین میں ڈھل جاتے ہیں، جن قوانین کو دنیا کے جدید قوانین تبدیل نہیں کر پاتے۔ اس لیے روس کے باغی ادیب اور ناول نگار سولزے نٹسن نے لکھا تھا کہ ’’کمیونزم ایک قانون ہے۔ یہ ایک کلچر نہیں۔ کلچر کے سامنے قوانین کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی‘‘ روس میں سوشلزم کے قوانین برسوں تک رہے مگر اب نہیں ہیں۔ اب بھی روسی ادب اور شاعری میں جو خصوصیات موجود ہیں انہیں عالمی اور داخلی صورتحال چھو بھی نہیں پائی۔ اس سلسلے میں ہم دور کیوں جائیں؟ آج ہمارے سامنے افغانستان کی مثال موجود ہے۔ کیا افغانستان کی دو سپر پاورز سے جنگ صرف ہتھیاروں سے جیتی گئی؟ نہیں۔ یہ افغان کلچر تھا۔ آزادی اور وطن سے محبت کا کلچر۔یہ افغان کلچر تھا،جو غیر ملکی تسلط سے آخری دن تک لڑتا رہا اور آج بھی اس کی جنگ جاری ہے۔ کلچر کبھی ہارتا نہیں۔کلچر وہ ہتھیار ہے جو پرانا نہیں ہوتا۔ اس ہتھیار کی دھار فن اور فکر ہوا کرتے ہیں۔ہم نے اب تک دوسری چیزوں کے بارے میں تو معلومات اکٹھی کی ہے مگر ہم یہ نہیں جانتے کہ افغانستان کی جنگ آزادی میں اس قوم کا فن اور فکر کس طرح برسرپیکار رہا؟ اس کیلیے ہمیں اب داخلی عوامل کی تحقیق کرنا ہوگی،جو کسی قوم کو اس لائق بناتے ہیں کہ وہ آخری فتح تک لڑتی رہے۔اس لیے ادب اور شاعری کی اہمیت کو کسی دانا نے کم نہیں سمجھا۔ اگر ہم پاکستان کے سلسلے میں سوچیں تو پاکستان کا تصور بھی تو ایک شاعر نے دیا تھا۔آج تک علامہ اقبال کی شاعری ہماری مشعل راہ ہے۔ برصغیر میں اردو زبان کو یہ فضیلت حاصل ہے کہ اس کی عمر دیگر زبانوں کے مقابلے میں اتنی زیادہ نہیں مگر اردو ادب اور شاعری میں جو اثر اور جو جادو ہے وہ کسی سرٹیفکیٹ کا محتاج نہیں۔اردو ادب کے گلشن میں بہت سارے پھول کھلے۔بہت سارے غنچے مہکے۔اور پھول کا رنگ اور اس کی خوشبو الگ الگ ہے۔ اس باغیچے میں ایک پھول کا نام احمد فراز بھی ہے۔وہ احمد فراز جن کی برسی برسوں کے بعد ان کی جدائی اور ان کمی کا احساس دلانے لگی۔احمد فراز کی شاعری میں جو کشش ہے وہ بیان کی محتاج نہیں۔ احمد فراز اردو زباں کے ایسے شاعرہیں جنہوں نے محبت کو اپنا موضوع بنایا۔ محبت ایک لفظ ہے۔ مگر اس ایک لفظ میں ایک پوری کائنات سانس لیتی ہے۔احمد فراز نے محبت کی اس کائنات کو الفاظ میں سمیٹا اور اس طرح سمیٹا کہ وہ کائنات ایک گیت بن گئی۔وہ کائنات ایک غزل بن گئی۔احمد فراز کی خصوصیت اور اس کی مخصوص ادا اس راز میں پوشیدہ ہے کہ انہوں نے قاری کو بہت مشکل الفاظ سے متاثر کرنے کی کوشش نہیں کی۔احمد فراز کی شاعری بہت سادہ اور سلیس زبان سے پیدا ہوئی۔انہوں نے مشکل الفاظ کا سہارا نہیں لیا۔ان کے الفاظ ہماری عوامی زبان کے عکس تھے۔ اس لیے احمد فراز کا پیغام بہت دور تک گیا۔ احمد فراز خاص بھی تھے اور عام بھی تھے۔ اپنے فکر میں وہ بہت خاص تھے۔ان میں عوام دوستی اور جمہوریت پسندی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی مگرانہوں نے اپنے سادہ پن میں ایسے پھول کھلائے کہ دنیا حیران رہ گئی۔انہوں نے ہمیں محبت کے کئی مطلب سمجھائے۔ انہوں نے ہمیں محبت کے حوالے سے وہ بات سمجھائی جو اب تک ہمارے دلوں میں دھڑکتی ہے۔ اور وہ بات یہ ہے کہ ’’وہ محبت ہی نہیں جس میں دیوانگی نہ ہو‘‘ احمد فراز کی شاعری میں دیوانگی کی جو خوشبو رچی ہوئی ہے وہ خوشبو دلوں کو مست کردیتی ہے۔ احمد فراز کی شاعری کا طلسم کچھ ایسا تھا کہ وہ محبت کے وعدے کی طرح انسان کو ہمیشہ یاد رہتا ہے۔ایسے اشعار صرف احمد فراز ہی لکھ سکتے ہیں : ’’اب کہ ہم بچھڑے تو شاید کبھی خوابوں میں ملیں جس طرح سوکھے ہوئے پھول کتابوں میں ملیں‘‘ کس نے محبت نہیںکی اور کس کی کتا ب میں محبت کے سوکھے ہوئے پھول موجود نہیں؟ یہ لہجہ اور یہ اظہار صرف احمد فراز کے حصے میں آیاکہ آپ ان کا شعر پڑھیں اور لوگ آپ کو خود بتائیں گے کہ یہ شعر کس کا ہے؟ ’’رنجش ہی سہی؛ دل ہی دکھانے کے لیے آ آ پھر سے مجھے چھوڑ کے جانے کے لیے آ‘‘ احمد فراز نے آخر تک رومانوی شاعری سے اپنا رشتہ نہیں توڑا۔ انہوںنے اپنی شاعری کے ذریعے یہ ثابت کر دکھایا کہ عشق کا عمر سے کوئی تعلق نہیں۔عشق کسی بھی عمر میں ہو سکتا ہے۔ اگر ان کے دل میں محبت کے نت نئے پھول نہ کھلتے تو کیوں لکھتے؟ ’’سنا ہے درد کی گاہک ہے چشم ناز ان کی سو ہم بھی اس کی گلی سے گزر کے دیکھتے ہیں سنا ہے اس کو بھی ہے شعر و شاعری سے شغف سو ہم بھی معجزے اپنے ہنر کے دیکھتے ہیں سنا ہے اس کے لبوں سے گلاب جلتے ہیں سو ہم بہار پر الزام دھرکے دیکھتے ہیں سنا ہے اس کے شبستاں سے متصل ہے بہشت مکیں ادھر کے بھی جلوے ادھر کے دیکھتے ہیں احمد فراز نے صرف محبت کی شاعری نہیں کی۔ احمد فراز کی محبتی شاعری میں جو بغاوت کی نہ بجھنے والی آگ ہے اس کے بارے میں پوری دنیا آگاہ ہے۔ احمد فراز نے محبوب کو وفا کے رشتے میں قید کرنے کی کوشش نہیں کی۔ انہوں نے محبت کو آزادی سے ہم آہنگ کیا۔ انہوں نے محبت کی غیرت کو آشکار کیا۔ انہوں نے وطن سے محبت کی۔ انہوں نے عوام سے عشق کیا۔ انہوں نے خواب دیکھنے کی تمنا کا گلا نہیں گھونٹا۔ انہوں نے محبت کو تازہ ہوا کا ترنم بخشا۔ انہوں نے عوام کو خوبصورت انداز سے سمجھایا کہ یہ وطن ان کا ہے اور اس وطن کی حفاظت ان کا فرض ہے۔ احمد فراز کی شاعری صرف عاشقوں کی ملکیت نہیں۔ احمد فراز کا فن اور فکر اس دیس کے مزدروں اور کسانوں کی امانت ہے ۔ انہوں نے اس امانت میں کبھی خیانت نہیں کی۔ انہوں نے ’’محاصرہ‘‘ جیسی نظم لکھ کر عوام کی رگوں میں توانائی بھری۔ انہوں نے محبت میںسچائی کی وہ شمع روشن کی جس کو کوئی طوفاں بجھا نہیں پایا۔ احمد فراز جسمانی طور پر تو ہم سے جدا ہیں مگر وہ فن اور فکر کے حوالے سے روحانی طور پر اب تک ہمارے لیے اس شعر کے مانند ہیں: ’’ہر کوئی دل کی ہتھیلی پر ہر صحرا رکھے وہ کس کی پیاس بجھائے کسے پیاسا رکھے؟‘‘ ان کی شاعری ایک آبشار کی طرح بھی ہے اور اس دریا کی طرح بھی ہے جو وطن کی پیاس کو اپنا وجود مٹا کر سیراب کرتا ہے۔