تعجب کی بات ہے کہ چھ صدیوں تک مسجد کا کار منصبی انجام دینے اور نمازیوں کی میزبانی کرنے کے باوجود ان تصاویر کو چھیڑا نہیں گیا ہے۔ورنہ کسی مسجد میں تصویر کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی ہے۔ اگرچہ استنبول میں اس انوکھے ڈھانچے نے پوری تاریخ میں بہت سی آفات دیکھی ہیں ۔ حیرت کی بات ہے کہ آیا صوفیہ کی تباہی یا لوٹ ماردوسرے مذاہب نے نہیں بلکہ خود عیسائیوں نے انجام دی۔فاتح سلطان محمد نے استنبول کو فتح کرکے اسکو مسلمانوں کے لئے عبادت گاہ کے طور پرمختص کیا۔ اس نے عمارت میں ایک مینار کو شامل کردیا۔ بعد کے حکمرانوں نے اس کے آس پاس بڑی دیواریں بنائی، جنہوں نے اس عمارت کو گرنے سے بچا کر رکھا ہے۔ ترکوں اور مسیحیوں کے بیچ خون ریز معرکہ کے بعد جب 1453ء میں قسطنطنیہ یا استنبول فتح ہوا تو عیسائی مذہبی رہنماؤں ، عورتوں اور بچوں نے اسی کلیسا میں اس خیال سے پناہ لے لی تھی کہ کم از کم اس عمارت پر مسلمانوں کا قبضہ نہیں ہو سکے گا۔ مشہور انگریز مؤرخ ایڈورڈ گبن کا کہنا ہے کہ پادریوں نے صدیوں سے ایک جھوٹی بشارت کی تھی کہ جب دشمن قسطنطین ستون کے قریب پہنچ جائیں گے تو آسمان سے ایک فرشتہ ہاتھ میں تلوار لیے نازل ہوگا اور اس آسمانی ہتھیار کے ذریعے سلطنت ایک ایسے آدمی کے حوالے کر دے گا جو اس وقت اس ستون کے پاس بیٹھا ہوگا۔لیکن ترک فوج اس ستون سے بھی آگے بڑھ کر عمارت کے اندرونی دروازے تک پہنچ گئی ۔کوئی فرشتہ آسمان سے نازل ہوا اور نہ صلیبیوں کی شکست فتح میں تبدیل ہوئی۔ کلیسا میں جمع عیسائیوں کا ہجوم آخر وقت تک کسی غیبی امداد کا منتظر رہا۔ بالآخر سلطان محمد فاتح اندر داخل ہوگئے، اور ایک مختصر تقریر میں سب کے جان مال اور مذہبی آزادی کی ضمانت دی۔اسی دن سلطان نے نماز ظہر اسی عمارت میں ادا کی۔ عدالت میں جو قدیم دستاویزات پیش کئے گئے ، ان کے مطابق سلطان محمد نے اس عمارت کو مال کے ذریعے خریدا تھا۔ ٹرسٹ کے وکیل سلامی کارامان کے مطابق چونکہ یہ عمارت صرف عبادت گاہ نہیں، بلکہ صدیوں سے مسلمانوں کے خلاف سیاسی اور عسکری مرکز بھی تھا، اسلئے مسلمان اس کو بطور باقی رکھنے کے پابند اور مشروط نہ تھے ۔ اس بڑے چرچ کے ساتھ جو توہمات اور باطل عقیدے وابستہ تھے انھیں بھی ختم کرنا تھا۔عدالت میں دلائل پیش کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ سلطنت عثمانیہ کے خاتمہ تک تقریباً پانچ سو سال تک اس عمارت میں پنجوقتہ نماز ہوتی رہی اور اس دوران ترکی میں بسے عیسائیوں نہ یورپی ممالک میں کسی نے اس پر دعویٰ پیش کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ترکی میں اس وقت 435قدیم کلیسا آن بان اور شان کے ساتھ موجود ہیں، جن کو کسی نے کوئی گزند نہیں پہنچائی ہے۔ ان کی مزید دلیل تھی کہ سلطان نے اس عمارت کو اور آس پاس کی زمین کو اپنے ذاتی مال سے خریدا اور اس کی مکمل قیمت کلیسا کے راہبوں کو دی، علاوہ ازیں سلطان نے اس مصرف کے لیے بیت المال سے بھی قیمت بھی نہیں لی بلکہ پوری قیمت اپنی جیب سے ادا کرکے عمارت اور زمین کو وقف کر دیا۔ استنبول یونیورسٹی کے ایک سابق پروفیسر محمد عبداللہ احسن کے مطابق فاتح قسطنطنیہ سلطان محمد خلیفہ دوم حضرت عمرؓ کی تقلید کرسکتے تھے، جب انہوں نے یرشلم فتح کرنے کے بعد کلیسا میں نماز ادا کرنے سے منع کردیا تھا۔ خلیفہ کو ڈر لاحق تھا کہ کہیں مسلمان اسکو بعد میں مسجد نہ بنالیں۔ مگر ان کا کہنا ہے کہ قسطنطنیہ کی فتح کے وقت تک یورپ میں مسلمانوں کو سخت عذاب سے گذرنا پڑ رہا تھا۔ 1453میں یہ فتح اسوقت نصیب ہوئی، جب اسپین میں مسلمانوں کا ناطقہ بند کیا گیا تھا ۔ مفتوحہ علاقوں میں عیسائی مساجد کو شہید کرکے گرجا گھروں میں تبدیل کررہے تھے۔ قرطبہ شہر پر قبضہ کے بعد تو صلیبیوں نے قتل و غارت گری کی انتہا کر دی تھی اور دنیا کی اس وقت کی سب سے بڑی اور خوبصورت جامع مسجد قرطبہ میں نماز پر پابندی عائد کرکے گرجا گھر میں تبدیل کردیا گیا تھا۔ پروفیسر حسن کہتے ہیں کہ سلطان نے اس قدم سے یورپ میں مسلمانوں کا جو دبدبہ قائم ہوا، س سے کافی عرصہ تک خطے میں امن و امان قائم رہا۔ مگر ان کاکہنا ہے کہ سلطان کے قدم کو ایک رول یا قانون قرار نہیں دیا جاسکتا ۔ نظریہ ضرورت کے تحت اسکو استثناء حاصل ہوسکتا ہے۔ اب جب یورپ اور امریکہ میں مسلمانوں کی عبادت گاہیں خاصی حد تک محفوظ ہیں۔ کئی جگہوں پر تو عیسائی راہب خود ہی مسلمانوں کو گرجا گھروں میں نماز ادا کرنے کی دعوت دیتے ہیں، اسلئے اگر ترک سلطان آج زندہ ہوتے تو اپنے قد م پر نظر ثانی کرتے۔ مگر وکیل سلامی کارامان کا کہنا ہے کہ 1934ئمیں جب مصطفیٰ کمال اتا ترک کے دور میں جب کابینہ نے اس عمارت کو وزارت سیاحت کے حوالے کیا، یہ ایک طرح سے ایک پرائیویٹ پراپرٹی پر قبضہ کرنا تھا۔ اگر وزارت سیاحت نے اس وقت عمارت کو میوزیم میں تبدیل کرنے سے قبل اس عمارت کو وقف ٹرسٹ سے خرید لیا ہوتا، تو مقدمہ کی نوعیت ہی مختلف ہوتی۔ دنیا میں کہیں بھی مسلمان فاتحین نے دوسرے مذاہب کی عبادت گاہوں کو مسجدیں بنانے سے عام طور پر پرہیز کیا ہے۔ کہیں جگہوں پر ان عبادت گاہوں کے پجاریوں نے اسلام قبول کرکے خود ان کو مساجد میں تبدیل کیا ہے، جس کی مثال کشمیر ہے۔ اس پورے قضیہ کادلچسپ پہلو یہ ہے کہ جہاں جنوبی ایشیا اور دیگر ممالک میں سیکولر اور لبرل طبقہ، ترک عدالت اور صدر رجب طیب اردوان کی طرف سے آیا صوفیہ کو مسجد میں تبدیل کرنے میں عجلت سے کام لینے پر لعن و طعن کررہا ہے، ترکی کی دو اہم سیکولر پارٹیاں یعنی اتا ترک کی سی ایچ پی اور ترک قوم پرست ایم ایچ پی نے اس فیصلہ کی پر زور حمایت کی ہے۔ دراصل سلطان محمد اور اتا ترک ، مذہبی اور نظریاتی اقدار سے بالاتر ترک قوم پرستی کی نشانیان تصور کی جاتی ہیں۔سیکولر ترکوں کیلئے آیا صوفیہ ترک قوم پرستی کا مظہر ہے۔ مگر دیکھنا یہ ہے کہ خطے میں ترکی کو ایک مڈل پاور کے بطور منوانے کے بعد آیا صوفیہ کو مسجد میں تبدیل کروانا ، اردوان کے سیاسی مفادات کو کس قدر تقویت پہنچاتا ہے۔ ترکی میں بیشتر لوگ معترف ہیں کہ اردوان کے دور میں ترکی نے ترقی کے زینہ تیزی کے ساتھ طے کئے ہیں۔ 2003ئتک اپنے بجٹ کیلئے عالمی اداروں پر منحصر یہ ملک ایک دہائی میں ہی امداد دینے والا ملک بن کر جی 20 اور ترقی یافتہ ممالک کی تنظیم آرگنائزیش آف اکنامک کوآپریشن اینڈ ڈیولپمنٹ کا ممبربن چکا ہے۔ شام، لیبیا، افریقہ ، فلسطین، آذربائیجان اور دیگر خطوں کے عوام ترکی کی طرف آس لگائے بیٹھے ہیں۔ یہی پہلو آجکل اصل تہذیب، وقار، عظمت، عزت و شہرت کے آئینہ دار ہیں۔ مذہبی اور قوم پرستانہ جذبات کو برانگیختہ کرکے بس ایک حد تک ہی عوام کو متاثر کیا جاسکتا ہے، مگر اگر ان کے معاشی حالات کو بہتربناکر اور اقوام عالم میں ان کو تفخر کے ساتھ جینے اور کھڑے ہونے کے سامان مہیا کرواہیں جائیں تو یہ کامیابی دیرپا اور پائیدار ہوتی ہے۔ دنیا کی سب سے پرانی عبادت گاہ ہونے کے ناطے ، آیا صوفیہ نے 1500 سالوں سے پوری انسانیت کے لئے اپنے دروازے کھول رکھے ہیں ۔امید ہے کہ آئندہ بھی یہ عمارت رواداری ، حسن سلوک ، ایک دوسرے کو برداشت کا سبق انسانیت کو سکھاتی رہیگی ۔ اسی کے ساتھ اب عبادت گاہوں کو مسمار کرنا اور انکو تبدیل کرنے کی کارروائیاں بھی بند ہونی چاہئے۔بیشتر اقوام نے، ماضی میں جب وہ غالب رہی، کوئی نہ کوئی ایسی حرکت ضرور کی جو کسی نہ کسی کو تکلیف پہنچانے کا سبب بنی ہے۔ اگر ان تاریخی واقعات کا انتقام موجودہ دور میں لینے کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے‘ تو اس کا اختتام کہیں نہیں ہو گا ۔