وفاقی حکومت کا اخراجات کا پلڑا اس قدر بھاری ہے کہ ہر سال ایک خوفناک بجٹ خسارہ معیشت کو مزید زیر بار کر جاتا ہے۔ یہ بجٹ خسارہ پورا کرنے کے لئے حکومت کو لا محالہ اندرونی اور بیرونی قرضوں پر انحصار کر نا پڑتا ہے۔ پاکستان کی معیشت ہر گزرتے سال قرضوں ، ان کی ادائیگی اور سود کی واپسی کے پھیر میں پھنس کر رہ گئی ہے۔جو معاشرے یا قومیں اپنے پائوں پر کھڑا ہونے کی کوشش نہیں کرتے اور صرف بھیک، قرضہ اور امداد کے مرہون منت رہتے ہیں وہ ہمیشہ غلاموں کی طرح زندگی گزارنے پر ہی مجبور ہوتے ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارا شمار بھی انہی معاشروں، قوموں اور ممالک میں ہوتا ہے جنہوں نے نہ ماضی کے تجربات سے کچھ سیکھا ہے اور نہ سیکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ پاکستان میں نہ ہی ٹیکس نظام کواس کی صحیح روح کے ساتھ نافذ ہونے دیا گیا اور نہ ہی قرضوں و امداد کی پالیسیوں سے کنارہ کرتے ہوئے اپنے وسائل کو استعمال کرکے معیشت کو مضبوط ومستحکم بنانے کی جانب قدم بڑھایا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ پچھتر سال بعد بھی بائیس کروڑ آبادی کے ملک میں انکم ٹیکس ادا کرنیوالوں کی تعداد صرف 28 لاکھ ہے۔ اسی لئے ہمارے سالانہ بجٹ کا انحصار متوقع قرضوں، بھیک، امداد اور بیرون ملک پاکستانیوں کی ترسیلات پر ہوتا ہے جبکہ اگر ہم چاہیں توپاکستان کے ٹیکس کے نظام میں اصلاحات کرکے اور ٹیکس کے دائرہ کار کو بڑھاکراپنے ٹیکس ریونیو میں اضافہ کرسکتے ہیں اورسالانہ بجٹ خسارے میں خاطر خواہ کمی بھی لاسکتے ہیں۔ٹیکسوں کی کم وصولی کی ایک وجہ وقتاً فوقتاً جاری ہونیوالی ٹیکس ایمنسٹی اسکیمیں بھی ہیں جس کی وجہ سے لوگ اربوں روپے کا ٹیکس بچاتے ہیں اور جب ٹیکس ایمنسٹی اسکیم لائی جاتی ہے اس سے مستفیض ہوتے ہوئے انتہائی کم رقم کے عوض اپنا اربوں کا اثاثہ جائز کروالیتے جو کہ سرکاری خزانے پر سراسرظلم ہے اور ان لوگوں کے ساتھ بھی ناانصافی جو اپنا ٹیکس باقاعدگی سے ادا کرتے ہیں۔ سالانہ اربوں روپے کرپشن اور بدعنوانی کی نذر ہوجاتے ہیں ،افسران کی جیبیں تو بھاری ہوتی جاتی ہیں مگر سرکاری خزانہ خالی۔ عالمی بینک کی رپورٹ کے مطابق بدعنوان افسران، کمزور نظام اور بدانتظامی کی وجہ سے ٹیکس کی مد میں پاکستان کو سالانہ 3 کھرب سے زائد کا نقصان ہورہا ہے۔معلوم نہیں کہ حکومتی اربات اختیار کو یہ بات کیونکر سمجھ نہیں آتی کہ ٹیکسوں میں کم وصولی اور کرپشن کی ایک بڑی وجہ گورنمنٹ کی اپنی پالیسیاں ہیں۔وطن عزیز کیلئے دن رات محنت کرکے کھربوں روپے اکٹھا کرنے والے ایف بی آر ملازمین خود بنیادی حق سے بھی محرومی پر سراپا احتجاج ہیں۔پاکستان میں آج تک منصفانہ نظام کو رائج نہ ہونے دیا گیا،حال ہی میں ایوان صدر اور پی ایم سیکریٹریٹ کے تمام ملازمین کا 2015ء سے منجمد الائونس ڈی فریز کردیا گیا ہے جبکہ ایف بی آر جیسے اہم ترین ادارے کے سی ایس پی افسران بھی تنخواہوں اور الاونسز میں اضافے سے محروم ہیں، ٹیکس ہدف مکمل کرنے کے باوجود اس حق سے محروم رکھنا سراسر زیادتی ہے۔حالیہ وفاقی بجٹ میں بہت سے وفاقی اداروں کے ملازمین کی تنخواہوں اور مختلف الائو نسز میں بھی اضافہ کیا گیا۔ایسے میں ایف بھی آر ملازمین کو تنخواہوں اور الاونسز میں اضافے سے محروم رکھنا امتیازی سلوک کے مترادف ہے۔حکومت نے بجٹ سے پہلے ایف بی آر کے ملازمین کی تنخواہوں میں اضافے کو ایجنڈے میں شامل کیا تھا لیکن بجٹ اعلان کے دوران اضافے کو پس پشت ڈال دیا گیا۔ملازمین اور افسران کے آئی جی پی الائونس فریز ہونے کی وجہ سے وہ ہر سال بجٹ میں کسی بھی قسم کا الائونس لگنے کا فائدہ اٹھانے سے قاصر ہیں، نہ تو انہیں کوئی اضافی الائونس دیا جاتا ہے اور نہ ہی ان کا آئی جی پی الائونس ڈی فریزر کیا جارہا ہے۔جس کی وجہ سے وہ سخت مالی مسائل اور ذہنی اذیت کا شکار ہیں ۔ موجودہ اقتصادی سال میں ایف بی آر نے پچھلے سال سے 28.4 فیصد بہتر کلیکشن کی ہے اور ٹوٹل 4164 بلین روپے ٹیکس کی مد میں اکھٹے کیے ہیں جو کہ ایک شاندار کارکردگی ہے۔ اسی طرح پچھلے سال بھی کورونا کے باوجود ایف بی آر نے اپنے ہدف سے زیادہ ٹیکس اکھٹا کیا۔ یہ بات قابل تعریف ہے کہ جب تقریبا تمام سرکاری ونجی ادارے چھٹی پر تھے تو کورونا کے دوران بھی ایف بی آر کے ملازمین دفتر آتے رہے اور اپنا ہدف مکمل کیا۔ ایف بی آر پچھلے کئی سالوں سے ناصرف اپنا ٹارگٹ نہایت احسن طریقے سے پورا کرتا آرہا ہے بلکہ ہر سال اضافی ٹیکس کلیکشن کرکے وطن عزیز کی ترقی و کامرانی میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ سپیشل ریوینیو الائونس اور فیول الائونس سمیت جائز مطالبات کو ماننا ضروری ہے تا کہ ایف بی آر کے ملازمین و افسران جانفشانی سے پاکستان کے لیے ریونیو اکٹھا کرسکیں۔ایف بی آر اگر ایمانداری اور پوری محنت سے نئے افراد کو ٹیکس نیٹ میں لانے اور مکمل ٹیکس اکٹھا کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے تو یقینی طور پر آئی ایم ایف سمیت بیرونی قرضوں سے نجات حاصل کرکے باعزت اور ترقی کرتے پاکستان کے خواب کی تعبیر دور نہیں۔ٹیکسوں کی کم وصولی کے بارے میں اس تیسرے پہلو کی طرف شاید سب سے زیادہ توجہ کی ضرورت ہے۔اگر اس تیسرے پہلو پر غور کیا جائے تو اس نظام میں بہتری کے بہت سے امکانات دکھائی دینے لگ جاتے ہیں۔حکومت اس بات کو نظر انداز نہیں کر سکتی کہ مناسب تنخواہوں سے ہر قسم کی کرپشن کا خاتمہ کیا جا سکتا۔ پاکستان کو مضبوط معیشت کے لئے ٹیکسوں کو متوازن انداز میں نئے سرے سے ترتیب دینے ، بے لاگ انداز میں اس کے اطلاق ، ہمہ گیر ، شفاف اور کرپشن سے پاک نظام کی طرف پیش رفت ایک اختیاری فیصلہ نہیں بلکہ اب یہ معاشی استحکام کی ناگز یر ضرورت ہے۔ ملک کو درپیش معاشی چیلنجز سے نمٹنے کے لئے ٹیکس کے نظام کو دیگر ترقی یافتہ اور ترقی پذید ممالک کی طرح رو بہ عمل لانے کے لئے سیاسی و انتظامی پختگی اختیار کرنے کے سوا ہمارے پاس کوئی اور چارہ نہیں۔