چینی دفتر خارجہ نے ایک بیان میں امریکہ کو افغانستان میں اپنی ذمہ داریوں سے اغماز برتنے کا مرتکب قرار دیا ہے۔ چین کا کہنا ہے کہ امریکہ نے عجلت میں فوجی دستے واپس بلائے اور اپنی ناکامی کا ملبہ افغان عوام اور خطے کے دیگر ممالک پر ڈال دیا، امریکہ افغان تنازع کا اصل مجرم اور مفاد پرستی کے پالیسی پر گامزن رہاہے۔ دوسری عالمی جنگ کے فاتحین نے کروڑوں انسانوں کو قتل کیا اس لئے نئے عالمی نظام میں اس بات کو اہمیت دی گئی کہ تنازعات کو جنگ کے بغیر حل کرنے کا راستہ تلاش کیا جائے۔ اقوام متحدہ کے ذریعے یہ کوشش کئی بار کامیاب رہی لیکن جب کبھی ویٹو کی طاقت رکھنے والے ممالک کے خلاف شکایت لائی گئی اس پر خاطر خواہ کارروائی نہ ہو سکی۔ امریکہ دوسری جنگ عظیم میں سب سے کم معاشی نقصان اٹھانے والا ملک تھا اس نے نئے عالمی نظام کی تشکیل سے پہلے اس نے ایٹمی صلاحیت کے ذریع ساری دنیا کو اپنے بے رحم ارادوں سے خوفزدہ کر دیا۔ دنیا کو سوشلزم کے خلاف جمع کیا‘ ڈالر کو عالمی کرنسی بنایا‘ ورلڈ بنک اور آئی ایم ایف کے ذریعے سرمایہ دارانہ نظام کو پھیلایا۔ آج جس عہد کو افغانستان میں امریکی غلطیوں سے یاد کیا جا رہا ہے وہ بطور سپر پاور امریکہ کے غیر ذمہ دارانہ طرز عمل سے عبارت ہے۔ امریکی تاریخ کا یہ دلچسپ پہلو ہے کہ ویت نام ہو‘ عراق ہو یا پھر افغانستان اس نے ہمیشہ اپنی سرزمین سے ہزاروں کلو میٹر دور جا کر جنگیں لڑیں۔ حیرت انگیز بات یہ کہ امریکہ نے جنگوں کو کبھی معاشی مفادات کا منصوبہ ظاہر نہیں کیا بلکہ ہمیشہ ان کا جواز انسانیت کی بہتری اور دنیا کو محفوظ بنانا بتایا گیا۔ عراق جنگ کا بہانہ ان رپورٹس کو بنایا گیا جن کے مطابق عراق ایسے حیاتیاتی ہتھیار بنا رہا تھا جو بڑے پیمانے پر ہلاکتوں کا باعث بن سکتے تھے‘ امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک نے اس زمانے میں جراثیمی اور گیسی ہتھیاروں پر اس قدر پروپیگنڈہ کیا کہ بہت سے لوگ حقیقت میں صدام حسین کو عالمی امن کے لئے خطرہ سمجھنا شروع ہو گئے۔ افسوسناک امر یہ تھا کہ اس کام میں برطانیہ اور نیٹو ممالک کے ساتھ ساتھ اقوام متحدہ جیسا ادارہ بھی شریک رہا۔ خلیج جنگ کے اختتام کے کئی برس بعد برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیئر نے اعتراف کیا کہ عراق پر حملے کا جواز بتائی گئی رپورٹس غلط ثابت ہوئی ہیں۔ امریکہ نے عراق پر حملہ کر کے ناصرف ایک آزاد ریاست کی خود مختاری اور اقتدار اعلیٰ کو نقصان پہنچایا بلکہ لاکھوں افراد کے خون میں ہاتھ رنگے‘ ہزاروں عراقی بچے خوراک و ادویات نہ ملنے پر جاں بحق ہوتے رہے۔ ایک سپر پاور کے طور پر امریکہ نے اپنی حیثیت کا غلط اور غیر ذمہ دارانہ استعمال کر کے خلیج کے علاقے میں بحران پیدا کر دیا۔ افغانستان پر حملہ کرنے کی وجہ یہ بتائی گئی کہ نائن الیون واقعات میں ملوث تنظیم القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن افغان طالبان کی پناہ میں تھے۔ طالبان نے اسامہ بن لادن کو امریکہ کی طاقت سے مرعوب ہو کر اس کے حوالے کرنے سے انکار کر دیا۔ امریکہ دنیا کے 30ممالک کی فوج لے کر افغانوں پر چڑھ دوڑا‘ طالبان اقتدار کا خاتمہ ہوا۔ ہزاروں طالبان کو گرفتار کر کے قلعہ جنگی جیسے عقوبت خانوں میں قید کر دیا گیا۔ بعدازاں انہیں بے رحمی سے قتل کیا جاتا رہا۔ گوانتانا موبے کے قید خانے میں امریکہ نے اپنے مخالفین کو کیا کیا ایذا نہیں دی۔ امریکی فوجی طالبان قیدیوں پر پیشاب کرتے‘ کھانے میں غلاظت ملا دی جاتی۔ برہنہ کر کے شرمسار کیا جاتا‘ قیدیوں پر خونخوار کتے چھوڑ دیے جاتے۔ ایسی تصاویر ریکارڈ پر ہیں جن میں امریکی اور آسٹریلوی فوجی چھ سات برس کے افغان بچے اور بچیوں کے خنجر سے گلے کاٹ رہے ہیں۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو پہلے بگرام ایئر بیس پر قید رکھ کر ہر طرح کی اذیتیں دی گئیں بعد میں انصاف کا خون کرتے ہوئے امریکی عدالت نے انہیں طویل قید سنا دی۔ امریکی ڈرون طیارے شادی کی تقریبات‘ جنازوں اور سکول کے بچوں کے اجتماع پر میزائل پھینکتے رہے۔ یہ سب کچھ اس عہد میں ہوتا رہا ہے جب انسان خود کو مہذب اور پرامن قرار دیتا ہے۔ جب عالمی عدالت انصاف ‘ اقوام متحدہ ‘ انسانی حقوق کے ادارے اور کئی طرح کی تنظیمیں ناانصافی اور ظلم کے خلاف آواز اٹھانے کے لئے موجود ہیں۔المناک پہلو یہ ہے کہ خلیج جنگ کی طرح امریکہ افغانستان میں اپنے ظلم‘ جبر اور ناانصافی پر بھی شرمسار دکھائی نہیں دیتا۔ افغانستان سے امریکی انخلا لگ بھگ مکمل ہو چکا ہے‘ امریکہ کی اتحادی حکومت طالبان سے ڈر رہی ہے۔ انخلاء سے پہلے نہ کوئی پاور شیئرنگ کا منصوبہ متعارف کرایا گیا نہ طالبان اور باقی گروپوں کو اعتماد میں لے کر سیاسی نظام کی تشکیل کی گئی۔ پینتالیس سال تک افغانستان میں موجود رہنے کے بعد امریکہ چاہتا ہے کہ اسے شکست خوردہ نہ کہا جائے لیکن اس کے جانے کے بعد افغانستان جس طرح کے خطرات کا شکار ہو سکتا ہے اس پر توجہ دینے کے لئے امریکہ تیار نہیں۔ دنیا کی قیادت اسی کو ملتی ہے جو عالمی تنازعات اور مسائل کو حل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ تاریخی طور پر یہ ثابت ہو چکا ہے کہ امریکہ کسی کا دوست نہیں‘ وہ اپنے مفادات کاشت کرتا ہے اور مطلب نکلنے پر اجنبی بن جاتا ہے۔ افغانستان کے ہمسایہ ممالک یقینا نئے سکیورٹی بحران سے نمٹ لیں گے لیکن دنیا امریکہ کو ہمیشہ ایک عجلت پسند ‘ مطلب پرست اور غیر ذمہ دار ریاست کے طور پر یاد رکھے گی۔