شفیق الرحمن اُردو ادب کا وہ درخشندہ ستارہ ہے جو ساٹھ برس تک آسمانِ ادب پر پوری آب و تاب کے ساتھ روشن رہا۔ انھوں نے لکھنے کا آغاز اس وقت کیا جب ترقی پسند تحریک کا غلغلہ ابھی تازہ تازہ بلند ہوا تھا اور ہمارے بے شمار نئے اور پرانے لکھنے والے اس سے بالواسطہ یا بلا واسطہ متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ شفیق الرحمن نے ان حالات میں بھی کہانی کو سماج کی بجائے مزاج کے تابع رکھا۔مزاج ان کا مزاح سے لگّا کھاتا تھا۔یہی وجہ ہے کہ افسانہ اور مزاح ہی ان کی دو بنیادی محبتیں قرار پاتی ہیں۔ ان محبتوں کو انھوں نے آخر عمر تک نبھایا۔انھوں نے اپنی زندگی میں کوئی خاکہ لکھا یا تبصرہ ، سفرنامہ تحریر کیا یا افسانہ، وہ اُردو ادب میں کسی پیروڈی کے مرتکب ہوئے، یا کوئی نظم ان کے شریر قلم سے سر زد ہوئی، افسانوی اسلوب یا مزاح کی شوخی کو کسی مقام پر انھوں نے اپنے ہاتھ سے جانے نہیں دیا بلکہ ان کی اکثر تحریروں میں تو افسانہ، مزاح اور شفیق الرحمن میں من تُو شدی، تُو من شدم والی کیفیت پیدا ہو گئی ہے۔ جناب سید ضمیر جعفری اُردو ادب کے اس منفرد مزاح نگار کی بابت لکھتے ہیں:’’ریٹائرڈ میجر جنرل شفیق الرحمن ساٹھ برس کی عمر میں دوبارہ سیکنڈ لفٹین بھرتی ہو سکتے ہیں۔ اُردو ادب آج تک اس سے خوش تر ’سوہنا مُنڈا‘ اور ستواں بوڑھا پیدا نہیں کر سکا۔ شفیق ا لرحمن کی ایک امتیازی خوبی یہ ہے کہ وہ اچھی تحریر اتفاقاً یا حادثاً نہیں لکھتے، عادتاً لکھتے ہیں۔‘‘ اُردو ادب کا یہ ’سوہنا مُنڈا‘ نو نومبر ۱۹۲۰ء کو مشرقی پنجاب کے ضلع روہتک کے قصبے کلانَور میں انجنیئرراؤ عبدالرحمن کے ہاں پیدا ہوا۔ چار بہن بھائیوں میں ان کا نمبر دوسرا تھا۔ ابتدائی تعلیم کا کلانَور سے شروع ہونے والاسفر لاہور میں آ کے مکمل ہوا۔ یعنی پرائمری کلانَور، مڈل بہاول پور (جہاں یہ محمد خالد اختر کے کلاس فیلو اور احمد ندیم قاسمی کے سکول فیلو رہے۔ محمد خالد اختر کے بقول: ’ان دنوں کا شفیق ایک گل گوتھنا گول مٹول سا لڑکا تھا جو ترکی ٹوپی پہنتا تھا اور بچوں والے سائیکل پر سکول آتا تھا۔ وہ فضل بک ڈپو کے سنسنی خیز اور راتوں کی نیند حرام کر دینے والے جاسوسی ناولوں کا بڑی شدت سے مطالعہ کیا کرتا تھا‘) میٹرک سٹیٹ ہائی سکول بہاول نگر، ایف ایس سی روہتک اور ایم بی بی ایس کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج لاہور سے کیا۔ بچپن میں رغبت اور تسلسل کے ساتھ چٹ پٹی کہانیاں پڑھنے کے شوق نے لاہور کے زمانۂ طالب علمی میں شگفتہ رومانی افسانے لکھنے پر اُکسایا۔ اسی زمانے میں ان کی پہلی کہانی ’چاکلیٹ‘ ماہنامہ ’خیام‘ میں چھپی تو لوگوں نے پلٹ کے دیکھا۔جناب مشتاق احمد یوسفی نے ایک بار ٹیلیفونی گپ شپ کے دوران راقم کو بتایا کہ ’جب یہ کہانی چھپی تو مَیں بھی لکھنے کا آغاز کر چکا تھا۔ اس کہانی سے اتنا متاثر ہوا کہ کچھ عرصے کے لیے مَیں نے لکھنا چھوڑ دیا اور تہیہ کیا کہ آیندہ اس وقت لکھوں گا، جب اس طرح کا لکھ سکا۔‘ ان کے افسانے ’فاسٹ باؤلر‘ کی اشاعت نے تو ادبی دنیا میں دھوم مچا دی۔ ’ادبِ لطیف‘ کے اس زمانے کے مدیر میرزا ادیب ان سے کہانی کا مطالبہ کرنے ان کے ہاسٹل جا پہنچے، جو اپنا پہلا تاثر ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں:’’سیڑھی پر قدم رکھا تو ایک تیز خوشبو نے ہمارا خیر مقدم کیا۔ دروازے پر ایک دراز قد وجیہہ نوجوان نے اپنے پورے چہرے پر مسکراہٹیں بکھیرتے ہمیں خوش آمدید کہا۔ کمرے میں پڑی میز اپنی موجودات کے اعتبار سے ایک نوبیاہتا کے سنگھار میز کا نقشہ پیش کر رہی تھی۔ میرا پہلا تأثر یہ تھا کہ یہ شخص دنیا میں صرف مسکرانے کے لیے آیا ہے۔‘‘ شفیق الرحمن کے میڈیکل کالج کے زمانۂ طالب علمی (۴۲۔۱۹۳۷ئ) کا لاہور، برِ عظیم کا ایک بہت بڑا ادبی مرکز تھا، جہاں سے ہمایوں، ادبی دنیا، ادبِ لطیف، عالمگیر اور نیرنگِ خیال جیسے معیاری ادبی رسائل باقاعدگی سے شا ئع ہو رہے تھے۔ میرزا ادیب سے باقاعدہ تعارف کے بعد ان کا ’ادبِ لطیف‘ کے دفتر میں باقاعدہ آنا جانا شروع ہوگیا۔ وہاں ان کی فیض، کرشن چندر، راجندر سنگھ بیدی، باری علیگ، اوپندر ناتھ اشک، سعادت حسن منٹو، دیوندر ستیارتھی، ساحر لدھیانوی اور یوسف ظفر وغیرہ سے ملاقاتیں ہونے لگیں۔ کالج میں ڈرامیٹک کلب کے سیکرٹری اور علمی و ادبی مجلّے کے مدیر بھی رہے۔کرکٹ، باکسنگ، پیراکی میں کلرز حاصل کیے۔ مصوری، فوٹو گرافی اور کارٹون بنانے کے کے مشاغل بھی چلتے رہے۔ورزش، کھیل اور سیر و سیاحت کا ہمیشہ شوق رہا۔ ۱۹۴۲ء ان کی تعلیم کی تکمیل اور عملی زندگی کے آغاز کا سال ہے۔ اسی سال انڈین آرمی میں بطور لیفٹیننٹ کمشن حاصل کیا، اور افسانوں کا پہلا مجموعہ ’کرنیں‘ بھی شائع ہوا۔ اس کے بعد شگوفے اور لہریں (۱۹۴۳ئ) مدوجزر (۱۹۴۴ئ) پرواز (۱۹۴۵ئ) پچھتاوے (۱۹۴۶ئ) حماقتیں (۱۹۴۷ئ) مزید حماقتیں (۱۹۵۴ئ) انسانی تماشا (جنگِ عظیم دوم کے پس منظر میں آرمینیا کے تارک الوطن امریکی ادیب ولیم سروین کی لکھی رقت انگیز ’ہیومین کامیڈی‘ کا باکمال اُردو ترجمہ،۱۹۵۶ئ) دجلہ (۱۹۸۰ئ) اور دریچے (۱۹۸۹ئ) آتے چلے گئے۔ شادی کچھ تاخیر سے یعنی ۱۹۵۷ء میں آرمی کے معروف سرجن ڈاکٹر شوکت حسن کی بہن امینہ بیگم سے ہوئی۔ جنرل ایوب خاں اور جنرل برکی ان کے باراتیوں میں شامل تھے۔ بیگم راولپنڈی کے سیٹلائٹ ٹاؤن کالج میں انگریزی کی استاد، صدرِ شعبہ اور بعد ازاں پرنسپل رہیں۔ فوج کی نوکری اور مزاح کی افسری عمر بھر چلتی رہی۔ اولاد میں قدرت نے تین ذہین بیٹوں (عتیق الرحمن: ۱۹۵۹ئ، خلیق الرحمن: ۱۹۶۱ئ، امین الرحمن: ۱۹۶۳ئ)سے نوازا لیکن نہ جانے اس ہنستے بستے گھرانے کو کس کی نظر لگ گئی کہ چھوٹے دونوں بیٹے ناگہانی موت سے دوچار ہوئے۔ ستر کی دہائی میں ہلالِ امتیاز کے تمغے سے نوازے گئے، اور ستمبر ۱۹۷۹ء کو پاک بحریہ سے سرجن ریئر ایڈمرل کے عہدے سے ریٹائر ہوئے۔ ۱۳ دسمبر ۱۹۸۰ء سے ۹ دسمبر ۱۹۸۶ء تک اکادمی ادبیات پاکستان کے پہلے چیئر مین رہے۔ ۱۹ مارچ۲۰۰۰ء کو اناسی سال، آٹھ ماہ اور دس دن کی عمر میں ہمارا یہ مزاح نگار راہیِ ملکِ عدم ہوا۔ اس عظیم مزاح نگار کو انھی کی تحریروں سے ہدیۂ لطافت: ٭ مصیبت تو یہ ہے کہ آج کل کے نوجوان ایک خوشنما تل پر عاشق ہو کر سالم لڑکی سے شادی کر بیٹھتے ہیں۔٭ اونٹ کی گردن اس لیے لمبی ہے کہ اس کا سر اس کے جسم سے خاصا دور ہے۔ اونٹ کی طبیعت میں انکسار پایا جاتا ہے، وہ مغرور بالکل نہیں ہوتا، شاید اس لیے کہ اس کے پاس مغرور ہونے کو کوئی چیز ہی نہیں۔٭ آج ریلوے کے بڑے بڑے افسروں کی ایک کانفرنس ہوئی، جس میں یہ طے ہوا کہ ریل کے آخری ڈبے میں چونکہ بہت جھٹکے لگتے ہیں، اس لیے آیندہ ریل میں آخری ڈبہ نہ لگایا جائے۔٭ اس نے علی بابا کو بتایا کہ اس کے دو بھائی ہیں ، ایک ادیب ہے اور دوسرا بھی بے کار ہے۔٭ برادرِ مُشفق! میری شکل تم سے اتنی نہیں ملتی جتنی تمھاری شکل مجھ سے ملتی ہے، یہاں تک کہ مَیں صبح صبح آئینے کی جگہ تمھاری تصویر رکھ کر شیوکیا کرتا ہوں۔ ٭ یہ تھے میرے زندگی کے حالات! اگر ان میں سے کچھ ایسے ہوں جو تمھیں پسند نہ آئے ہوں تو مَیں انھیں دوبارہ بسر کرنے کو تیار ہوں۔ جناب سرفراز شاہد سچ فرماتے ہیں: حرف لکھے ہیں یا شگوفے ہیں ایک سے ایک کھل اُٹھا پڑھ کر صاحبو! ہم نے تو لڑکپن میں عقل سیکھی ’حماقتیں‘ پڑھ کر