2018میںکئی ا نقلابی تبدیلیوں کے دعوؤں کیساتھ خسارے سے دوچار سرکاری اداروں میں جامع اصلاحات کا اعلان کیا گیا تھا۔وزیراعظم عمران خان نے اس مقصد کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کیلئے ڈاکٹر عشرت حسین کو مشیربرائے ادارہ جاتی اصلاحات وکفایت شعاری تعینات کیا۔ کابینہ کمیٹی برائے ادارہ جاتی اصلاحات قائم کرتے ہوئے وزارتوں اور سرکاری اداروں میں اصلاحات کاعمل شروع کردیا گیا۔ ڈاکٹر عشرت حسین نے اعلیٰ سطح اجلاس کے شرکاء کو پاکستان انٹرنیشنل ائیرلائن سے متعلق بریفنگ میں انکشاف کیاکہ 2010سے 2019 کے دوران پی آئی اے کو 405ارب روپے کے نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔نقصان کی بنیادی وجوہات میںانتظامیہ میں بار بار تبدیلی‘سیاسی اثرورسوخ‘احتساب کا فقدان‘غیر منافع بخش روٹس‘زائد سٹاف کی تقرری اور جعلی ڈگری کے حامل افسران کی تقرری شامل ہے۔پی آئی کی منفی ایکویٹی 460ارب روپے کی خطرناک حد تک پہنچ چکی ہے۔پی آئی اے نے سول ایوی ایشن اتھارٹی اور PSOکو118ارب روپے جبکہ حکومتی قرضوں کی مد میں 326ارب روپے ادا کرنا ہیں۔پی آئی اے کے مقابلے میں غیر ملکی ایئر لائنز کو اضافی سلاٹس بھی خسارے کی اہم وجہ ہیں۔پی آئی اے میں 14ہزار ملازمین کام کر رہے ہیں۔پی آئی اے کا ایئر کرافٹ ٹو ایچ آر تناسب دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔ایک طیارہ کیلئے450ملازمین ہیں۔کیٹرنگ اور کورئیر سروس کے باعث پی آئی اے کے نقصان میں ا ضافہ ہو رہا ہے۔افرادی قوت کی تنظیم نو کے تحت ’رضا کارانہ علیحدگی سکیم‘ کے تحت ملازمین کی تعداد میں 25فیصد کمی کی تجویزتیار کی گئی ہے۔آؤٹ سورسنگ کے ذریعے 4000ملازمین کو ملازمت سے برطرف کیا جائے گا۔جن میں فوڈ سروس سے متعلقہ 633 ‘ٹیکنیکل گراؤنڈ سپورٹ کے628‘بیس مینٹیننس انجینئرنگ کے1967‘پری سیشن انجینئرنگ کمپلیکس کے429‘سپیڈکس کوریئر کے320ملازم شامل ہیں۔پی آئی اے کے موجودہB777‘A320اوراے ٹی آر ہوائی جہاز پرانے اور تنگ ہیں۔جن پر فیول کی لاگت بھی زیادہ آتی ہے۔پرانے ہوائی جہازوں کی جگہ نئے ہوائی جہاز خریدنے سے ماہانہ15سے20ملین روپے کی بچت کی جا سکتی ہے۔مرمت کی لاگت میں بچت کے ذریعے 20کروڑ روپے کی بچت متوقع ہے۔ ترکش ایئر لائن‘تھائی ایئر ویز‘اتحاد ایئر ویز اور پگاسس ایئرلائن کے ساتھ کو ڈ شیئرنگ انتظامات کے تحت نیٹ ورک میں اضافہ اور توسیع کی جا سکتی ہے۔پی آئی اے کے آپریٹ نہ کرنے والے نیٹ ورکس تک انتظامات کو توسیع دی جا سکتی ہے۔حالیہ75فیصد سیٹ فیکٹر کو 2023تک82فیصد تک لے جانے کی منصوبہ بندی کرلی گئی ہے۔ برطانیہ اور سپین میں پی آئی اے کے آپریٹ نہ کرنے والے علاقوں میں مسافروں کی معاونت کیلئے مقامی ٹرین اور بس آپریٹرز کے ساتھ معاہدے کیے جائیں گے اور ان آپریشنز کو مزید آپریٹر تک وسعت دی جائے گی۔نقصان والے روٹس کا خاتمہ کرکے منافع بخش روٹس کو فوکس کیا جائے گا۔جس کے نتیجے میں نئے منافع بخش روٹس شروع کیے گئے ہیں۔منافع بخش روٹس پر فلائٹس میں اضافہ کیا گیا ہے۔ چیف ایگزیکٹو آفیسر پی آئی اے ائیرمارشل ارشد ملک نے تمام تر رکاوٹوں اور سازشوں کے باوجود دوسالوں کے دوران پی آئی اے کو اربوں روپے خسارے میں ڈوبنے سے توبچالیا ہے ۔ کورونا وائرس کے باعث دنیابھر کی ائیرلائنز بدترین مالی بحران سے دوچار ہوچکیں‘کئی ائیرلائنز کو بیل آؤٹ پیکج بھی حاصل کرنا پڑا تاہم پی آئی اے نے مالی سال 2020 میں 2ارب 40کرو ڑ روپے گراس منافع کمایا۔مالی سال 2019میں پی آئی اے کا خسارہ 6ارب 13کروڑروپے تھا تاہم بہتر مینجمنٹ سے مالی سال 2020میں یہ خسارہ 68روڑ روپے تک محدود کردیا گیا ہے۔تاہم 457ارب روپے کا ناقابل برداشت بوجھ بدستور قائم ہے،جس سے نمٹنے کیلئے پی آئی اے کی بیلنس شیٹ کی ری سٹرکچرنگ زیرغور ہے۔ حکومت پاکستان کی جانب سے پی آئی اے کے ذمے واجب الادا رقم کا تخمینہ 457ارب روپے لگایا گیا ہے۔یہ رقم حکومت اپنے ذمے لے تو نئی بیلنس شیٹ کے ذریعے پی آئی اے مارکیٹ سے سرمایہ حاصل کرنے کے قابل ہو سکے گا۔یہ ہے بنیادی طور پر ڈاکٹر عشرت حسین کا آؤٹ آف دی باکس سلوشن۔ڈاکٹر عشرت حسین نے وزیراعظم سے پرزور سفارش کی ہے کہ حکومت پاکستان پی آئی اے کی مدد کیلئے کردار اداکرے جس کے بعد پی آئی اے کے بزنس ماڈل اور کارپوریٹ سٹرکچر میں ا صلاحات لائیں جائیں گی۔وزیر خزانہ شوکت ترین ڈاکٹر عشرت حسین کے آؤٹ آف دی باکس سلوشن سے اتفاق کرتے دکھائی نہیں دے رہے۔وزیرخزانہ نے ٹھوس موقف اپنا رکھا ہے کہ جب تک کنسلٹنٹ کی جانب سے پی آئی اے کا کارپوریٹ بزنس پلان ترتیب نہیں دیا جاتا اس وقت تک حکومت مقامی اور بین الاقوامی بزنس گروپ کو پی آئی اے کو آپریٹ کرنے کیلئے مینجمنٹ کنٹریکٹ میں شمولیت کیلئے امکانات کا جائزہ لے سکتی ہے۔ پی آئی اے پاکستان کا تزویراتی اثاثہ ہے جس کی ری سٹرکچرنگ یقینا ناگزیر ہے مگر پی آئی اے کو 400ارب روپے نقصان سے دوچار اور لوٹ مار کرنے والوں کا احتساب کئے بغیر یہ اقدام نہ صرف غریب عوام کیساتھ ناانصافی ہوگی بلکہ حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف کی اساس اور منشور کی کھلی خلاف ورزی بھی۔متعلقہ حکام اس اسکینڈل کی تہہ تک پہنچیں تو افسرشاہی اور انوکھے لاڈلوں کی وارداتوں کے دل دہلا دینے والے کارنامے سامنے آئیں گے۔ وگرنہ عدیم ہاشمی کہہ ہی چکے ہیں: مصلحت نے اجنبی ہم کو بنایا تھا عدیم !! ورنہ کب اک دوسرے کو ہم نے پہچانا نہ تھا