اسلام آباد(غلام نبی یوسف زئی)مولانا فضل الرحمن کی سیاسی جماعت کے نام کا تنازع الیکشن کمیشن پہنچ گیا۔خیبر پختون خواہ سے جمعیت علماء اسلام سے تعلق رکھنے والے شجاع الملک نے الیکشن کمیشن میں ایک درخواست دائر کی ہے جس میں مولانا فضل الرحمٰن کی سیاسی جماعت جمعیت علماء اسلام کے نام سے لفظ ف حذف کرنے کو چیلنج کرتے ہوئے موقف اپنایا ہے کہ جمیعت علماء اسلام پاکستان اور جمیعت علماء اسلام پاکستان(ف) دو الگ الگ سیاسی جماعتیں ہیں اور الیکشن کمیشن نے نام کی تبدیلی کی فضل الرحمٰن گروپ کے کامران مرتضٰی کی درخواست حقائق کا درست جائزہ لیے بغیر کیا ہے ۔درخواست میں الیکشن کمیشن کے سولہ مارچ 2020کے فیصلے کو کالعدم کرنے اور مولانا فضل ارحمٰن کو اپنی جماعت کے لیے جمیعت علما ء اسلام پاکستان استعمال کرنے سے روکنے کی استدعا کی گئی ہے ۔درخواست ذوالفقار بھٹہ ایڈووکیٹ کے ذریعے دائر کی گئی ہے جس میں جمیعت علماء الاسلام ف کے قانونی ایجنٹ کامران مرتضیٰ اور جمیعت علما ئاسلام س کے مولانا حامد الحق کو فریق بنایا گیا ہے ۔درخواست میں کہا گیا ہے کہ جمیعت علمائاسلام ف نے انیس فروری 2020کو الیکشن کمیشن میں ایک درخواست دائر کی جس میں پارٹی کے نام سے لفظ ف حذف کرنے کی استدعا کرتے ہوئے موقف اپنایا گیا کہ پارٹی کا اصل نام جمیعت علمااسلام پاکستان ہے لیکن غلطی سے اس کے ساتھ لفظ ف کا اضافہ کیا گیا ہے جس سے جمیعت علمائاسلام پاکستان فضل الرحمٰن گروپ مراد لیا جاتا ہے حالانکہ ملک میں صرف ایک ہی جمیعت علمائاسلام پاکستان ہے ۔درخواست میں کہا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن نے تمام فریقین کو سنے بغیر سولہ مارچ کو یہ درخواست منظور کرلی اور جمیعت علماء اسلام پاکستان ف سے لفظ ف کو حذف کردیا گیا۔درخواست گزار نے موقف اپنایا ہے کہ وہ جمیعت علمائاسلام پاکستان کے شوری ٰکا رکن ہے اور الیکشن کمیشن کے فیصلے سے متاثرہ فریق ہے اس لیے کمیشن تمام فریقین کو سن کر معاملے کا از سر نو جائزہ لے اور جب تک فیصلہ نہیں ہوتا جمیعت علمائاسلام ف کو جمیعت علمائاسلام پاکستان کانام استعمال کرنے سے روک دیا جائے ۔