سال 2011ء میں ہمارے سلامتی کے اداروں پر مغربی دبائو اپنے عروج اورپاک افغان سرحد کے دو اطراف بر سرِ پیکار افواج کے مابین بد گمانی اپنی انتہاوں پر تھی۔ جنرل کیانی پاکستانی علاقوں میں دہشت گردوں کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کے لئے قومی حمایت کے طلب گار تھے۔ پاکستان میں مگر مذہب کے نام پر غارت گری کرنے والے جتھوں کو پاکستان کی اکثر سیاسی جماعتوں اور بالخصوص نو آموزالیکٹرانک میڈیا کے ذریعے راتوں رات شہرت پانے والے میڈیا اینکر پرسنز کی حمایت حاصل تھی۔ آج کی طرح تمام مسائل کا سبب ان سے لڑنے والی پاکستانی افواج کو ہی ٹھہراتے تھے۔اسی دور میں پاکستان کے دفاعی اداروں نے’کولڈ سٹارٹ‘ نامی بھارتی جارحانہ نظرئیے سے پیدا ہونے والے خطرات کا نئی آپریشنل سوچ کے ذریعے موثر توڑ کیا۔ٹینکوں اور توپوں کے ذریعے خطے میں اپنے تزویراتی عزائم کی تکمیل ہوتے نظر نہ آئی تو جنگ کی ایک نئی جہت متعارف کرواتے ہوئے پاکستان پر معاشی دبائو بڑھانے کا فیصلہ ہوا۔مقصود پاکستان کو معاشی طور پر اس قدر کمزور کرنا تھا کہ ملک مضبوط عسکری صلاحیت برقرار رکھنے کے قابل نہ رہے۔ ففتھ جنریشن وار کہلانے والی جنگ ،تصورات اور معلومات کی جنگ کہلاتی ہے۔اس جنگ میں میڈیا عوام کی آراء کو بنانے اور بگاڑنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔اس بے چہرہ جنگ میںحملہ آور متعین ہوتا ہے نا ہی لڑائی سرحدوںکی محتاج ہوتی ہے۔ حملہ آو ر اپنے ہدف کی مذہبی فکر، کلچر اور قومی اداروں کے بارے میںعوام کی آراء کو بدلتا ہے یا تشکیل نو کرتا ہے۔ قومی اداروں کے خلاف ایک کے بعد ایک منظم مہم برپا کی جاتی ہے۔ فیک نیوز پھیلائی جاتی ہیں، سائبر حملے کئے جاتے ہیں ۔ منی لانڈرنگ اور جعلی بینک اکائونٹس کے ذریعے جہاں ملکی معیشت کو ناقابلِ تلافی پہنچایاجاتا ہے ،وہیں علیحدگی پسند،فرقہ وارانہ اور انتہا پسند جتھوں کی فنڈنگ بھی کی جاتی ہے ۔پاکستان کے خلاف یہ جنگ حالیہ برسوں میں اپنے عروج پررہی ہے۔ افغانستان میں اپنی ہزیمت کے لئے ذمہ دار اور چین کے مقابلے میں بھارت کو علاقائی تھانیدار بنانے کے ہدف کی راہ میں پاکستانی سکیورٹی اداروں کو رکاوٹ سمجھتے ہوئے،کئی برسوں سے انہیں غیر موثر کرنے کے لئے ان کے خلاف بے چہرہ مگر منظم جنگ جاری ہے کہ جس میں روائتی ہتھیاروں کی جگہ اعصاب شکن نفسیاتی ہتھکنڈے بروئے کار آتے ہیں۔اب جبکہ ناکامی کے زخم چاٹتے ہوئے امریکی افغانستان سے روانہ ہونے کو تیار ہیں توجن افغان طالبان کو وہ خود شکست نہیں دے سکے، اب ان پر زور زبردستی کی توقعات پاکستانی اداروں سے باندھ رہے ہیں ۔اس مقصد کے پیشِ نظر پاکستانی اداروں پر دبائو برقرار رکھنا ضروری ہے۔ 2013ء میں نئی حکومت بر سرِ اقتدار آئی تو اس کے سربراہ کا دل غم و غصے سے لبریز اور چہرے پر قومی اداروں کے لئے حقارت عیاں تھی۔ مشرف کا نام لے لے کر حواری جرنیلوں کو للکارتے۔پاکستان کے وجود سے بیزار مودی اور اس کے زہر میں بجھے کارندوں سے خفیہ ملاقاتوں میںافواج پاکستان کو امن کی راہ میں رکاوٹ بتایا جاتا۔ اوسط فہم و فراست کے مالک ایک صحافی پر قاتلانہ حملہ ہوا تو ’ بندوق نہیں غلیل‘ کے ساتھ کھڑے ہونے کا اعلان کیا گیا۔ان اعصاب شکن برسوں میں اپنے ہی اداروں سے مخاصمت کی بناء پر ایک سیاسی خاندان کو عالمی اسٹیبلشمنٹ، حسین حقانی نیٹ ورک اور مقامی مغرب زدہ لبرلز کی غیر مشروط حمایت حاصل ہو گئی۔ جہاں ’ڈان لیکس ‘ کے ذریعے اداروں کی بدنامی کی سازش رچائی گئی وہیں ا س حکومت کے آخری دنوں میں ایک نوخیز جماعت کے دھرنے کے بعد ایک ’بے باک ‘ عدالتی فیصلہ سامنے آیا ،جس کو لے کرپاکستان کے قومی ادارے کے خلاف آج بھی زہر اگلا جاتا ہے۔ 2018 ء کے انتخابات میں شکست کے بعد اداروں پر غم و غصہ کی گونج مزید مربوط اور بلند آہنگ ہو گئی۔غیر ملکی نشریاتی اداروں کی ’اردو سروس ‘ کے مقامی کارندے ان حملوں میں پیش پیش رہے۔ گروہی مفادات کی آبیاری کی خاطرایک’مزاحمتی بیانیہ‘ عام کیا گیا۔ کچھ عرصے بعدملازمت میں توسیع کے بل کی حمایت کے بدلے میں ایک پیغام رساں کے ذریعے انعام طلب کیا گیا۔ توقعات پوری نہ ہوئیں تو ایک ’وارننگ‘ جاری کی گئی۔ ایک سنسنی خیز تقریر سے شروع ہونے والی ہیجان خیز تقاریر کے سلسلے نے مینارِ پاکستان کے سائے میں دم توڑ دیا ، قومی اداروں پر حملے مگر جاری رہے۔کئی نام نہاد صحافیوں نے ٹویٹر اور یو ٹیوب پر مورچے سنبھال لئے۔ اس دوران دارالحکومت سے نچلے درجے کے ’ صحافی ‘بھونڈے انداز میں اغوا ہوتے اور تشد کا نشانہ بنتے رہے ۔اس باب میں ادارے ففتھ جنریشن وار کی دہائی دے ہی رہے تھے کہ حال ہی میں ایک عدالتی کارروائی کے دوران ہمیں اس بے چہرہ جنگ کی ایک نئی تشریح سننے کو ملی۔مالی بدعنوانی کے ایک صدارتی ریفرنس کی شنوائی کے دوران، خود اپنے حق میں دلائل دیتے ہوئے بتایا گیا کہ اس بے چہرہ جنگ کا مقصد کچھ اور نہیں پاکستان کی عدلیہ اور متحرک میڈیا کی آزادی کو سلب کرنا ہے۔حال ہی میں ایک فحش گو یو ٹیوبرکی کچھ افراد نے اس کے گھر میں گھس کر پٹائی کی تو تشدد کرنے والوں نے اسے خود بتایا کہ وہ کس ادارے سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس سے آئی ایس آئی زندہ باد اور بھارت اور اسرائیل مردہ باد کے نعرے لگوائے گئے۔اس موقع پر دہشت گردی کی جنگ کے دوران قومی اداروں کے خلاف آگ اگلنے والے مخصوص اینکر پرسن نے ایک بار پھر جہاں اداروں کے خلاف حسب ِ معمول بے سروپا مگر پہلے سے کہیں بڑھ کر بے ہودہ گفتگو کی ہے،وہیں ففتھ جنریشن وار کی نئی تشریح کرتے ہوئے ہمیں بتایا ہے کہ اس جنگ کا ہدف عدلیہ اور میڈیا کی آزادی کو سلب کرنا ہے۔ کیا عدالت میں بیان کی گئی ففتھ جنریشن جنگ کی نئی تشریح اور اس صحافی کے خیالات میں کامل یکسانیت کو محض اتفاق ہی کہا جائے؟ طالبان حالیہ دنوں میں افغانستان کے تیس فیصد حصے پر قابض ہو چکے ہیں۔ سرحد پار پڑے ٹی ٹی پی کے کارندے ایک بار پھر عذاب بن کر ہماری طرف نازل ہونے کو پر تول رہے ہیں۔اس دوران برسوں پہلے قوم کو دہشت گردی کی جنگ کے دوران فکری خلجان میں مبتلا کئے رکھنے والے نیم خواندہ ’میڈیا سٹارز‘ اب ففتھ جنریشن وار کی بھی گمراہ کن تشریحات سامنے لا رہے ہیں۔قوم بشمول سلامتی کے اداروں نے دہشت گردی کی بے چہرہ جنگ بے مثال قربانیاں دے کر ہی جیتی تھی ۔اب ایک دوسری جہت کی بے چہرہ جنگ میں دشمن کے آئے روز بڑھتے حملے عام پاکستانیوں ، بالخصوص از کارِ رفتہ سپاہیوں میں شدید اضطراب کا باعث بن رہے ہیں۔دیگر غیر روائتی جنگوں کی طرح ، ففتھ جنریشن جنگ کا ایک بڑا ہدف بھی اعلیٰ قیادت کے خلاف وسیع پیمانے پر صفوں میںبے چینی اوربد گمانی پیدا کرنا ہی ہوتا ہے۔