کب کہا ہے مجھے خدائی دے اے خدا خود سے آشنائی دے میں محمدؐ کا ماننے والا کربلا تک مجھے رسائی دے ہمارا راستہ بھی یہی ہے اور منزل بھی یہی۔ نقش قدم پہ ان کے کٹاتے گئے ہیں سر۔اہل وفا نے صدقہ اتارا حسینؑ کا۔ہم اصل میں اپنا اصل بھولے ہوئے ہیں وگرنہ تو جو کوئے یار سے نکلے تو سوئے دار چلے۔ آپ کربلا کے رنگ میں فیض کے مصرع کو دیکھیں تو آپ فیض یاب بلکہ باریاب ہو جائیں گے۔کبھی میں نے عافیہ صدیقی کے حوالے سے نظم کہی تو آخری شعر تھا۔ یہ کربلا کا سفر ہے جو اب بھی جاری ہے کہ ایک شخص یہاں لشکروں پہ بھاری ہے یہ رستہ اہل صفاو اہل وفا کا ہے۔ یہ شہادت کہ الفت میں قدم رکھنا ہے لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلمان ہونا۔اقبال وہ نابغہ ہے جس نے صرف بیماری یا عارضہ نہیں بتایا بلکہ حل بھی بتایا کہ نکل کر خانقاہوں سے ادا کر رسم شبیری ۔ہمیشہ کی طرح باطل حق سے نبرد آزما ہے۔مگر اللہ کا اعلان ہے کہ حق غالب آ کر رہے گا۔ بھارت کے حالیہ واقعہ پہ ہر مسلمان کی طرح شدید صدمہ ہوا کہ وہاں حکومت کی ایک نمائندہ نو شرما نے آقائے نامدار ﷺ کی شان میں گستاخی کی ۔جس پر پورا عالم اسلام سکتے میں آ گیا اور اسلامی ممالک کی طرف سے شدید ردعمل آیا ۔بھارت کے طول و عرض میں بھی جیسے آگ سی لگ گئی یقینا یہ ایک مسلمان کی طرف سے ایک فطری ردعمل ہے کہ: نہ جب تک کٹ مروں میں خواجہ یثرب کی حرمت پر خدا شاہد ہے کامل میرا ایمان ہو نہیں سکتا ظاہر ہے یہ ہر مسلمان کے ایمان کا جزولاینفک ہے کہ جب تک وہ حضو ر پرنورﷺکو اپنے ماں باپ اولاد حتیٰ کہ اپنے آپ سے زیادہ محبت نہیں کرتا اس کا دین ہی مکمل نہیں۔اس جذبے نے یہود و نصاریٰ اور کفار کو حیرت میں ڈال رکھا ہے تبھی تو اقبال نے کہا تھا کہ: وہ فاقہ کش کہ موت سے ڈرتا نہیں ذرا روح محمدؐ اس کے بدن سے نکال دو یک گونہ مسرت تو یہ ہوئی کہ عرب ممالک میں ایک خاص جذبہ کہ جو ان کی اصل اور پہچان تھا بیدار ہوا ہے۔انہوں نے مودی کے بھی ہوش اڑا دیے کہ با محمدؐ ہوشیار والا معاملہ ہو گیا ہے۔ جس بات کو بنیاد بنا کر بی جے پی کی ترجمان نے دریدہ دہنی کی اس کا علماء نے پوری دلیل اور منطق سے جواب دیا ہے۔ بات اصل میں یہ ہے ہمارا قرآن حقانیت کا ایک منہ بولتا ثبوت ہے۔آپ دیکھتے نہیں کہ اس توہین اور اہانت پر جہاں کروڑوں مسلمانوں کے دل چھلنی ہوئے ہیں وہاں اہل یورپ اور دوسرے خاموش ہیں بلکہ نیدر لینڈ کے سربراہ نے تو بھارت کے ساتھ یکجہتی کی ہے وہ تو پہلے بھی گستاخ خاکوں کے حوالے سے گناہ اور جرم کے مرتکب ہیں اور نام نہاد آزادی رائے کے نام پر اپنا بغض‘ عناد اور زہر اگلتے رہتے ہیں۔بات پھر قرآن کی حقانیت اور اس ملت کفر کی ہے جوسب اسلام کے خلاف ملت وحدہ یعنی ایک ملت بن چکے ہیں۔اللہ تو خالق ہے جو سب جانتا ہے۔اس نے واضح بتا دیا کہ یہ یہود و نصاریٰ خود آپس میں بے شک لڑتے رہیں مگر مسلمانوں کے خلاف ایک ہیں۔ بات پھر ہم پر آتی ہے کہ اسلام دشمن یکمشت اور مجتمع ہیں او رہم پارہ پارہ ذاتوں اور فرقوں میں بٹے ہوئے ایک دوسرے کے خلاف زہریلے باغ کھلاتے ہوئے: میر سپاہ ناسزا لشکریاں شکستہ صف آہ وہ تیر نیم کشجس کا نہ ہو کوئی ہدف وہ بات کہاں کہ سرمہ ہے میری آنکھ کا خاک مدینہ و نجف۔ سب سے بڑی غلطی ہماری کہ قرآن کو طاق نسیاں کر دیا۔وہ معزز تھے زمانے میں مسلمان ہو کر اور ہم خوار ہوئے تارک قرآن ہو کر ۔وہی پرانی بات کہ اللہ نے تو کہا تھا کہ اس رسی کو مضبوطی سے پکڑ لو۔وہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے۔ہزار سجدوں سے دیتا ہے آدمی کو نجات۔ہمیں خود کو بدلنا ہو گا مسلمان اگر صحیح مسلمان بن جائے تو ان ہندوئوں کی کیا جرأت کہ کوئی جسارت کر سکیں۔بعد توہین رسالت کسی کو سزا نہ ہو تو اس کا مطلب ہے کہ ایمان میرا مردہ ہے۔ یہ ہمیں سوچنا ہو گا کہ ہمیں اسی نام یعنی نام محمدؐ کے صدقے اسی نام پر اکٹھے ہونا ہے۔فروعی اختلافات بھلا کر سب مسلمانوں کو کو ایک ہوناہے۔ یعقوب پرواز نے کہا تھا: جس طرح ملتے ہیں لب نام محمدؐ کے سبب کاش ہم مل جائیں سب نام محمدؐ کے سبب مسلمان ڈرتا نہیں۔ آپ ذرا بھارت کے اسدالدین اویسی کو سن کر دیکھیں۔ہماری زندگی کا مقصد دین کی سرفرازی تھا اور یہی ہونا چاہیے میں مسلمانوں کی حالت پر بعض اوقات سوچنے پر مجبور ہوتا ہوں۔کربلا کربلا ہی کرتے ہو اور ڈرتے ہو تیر کھانے سے۔اب آخر میں مجھے اپنے ملک کا تذکرہ کرنا ہے کہ جہاں پوری دنیا میں مسلمانوں نے احتجاج کیا می۔ پاکستان کی گلی گلی میں لوگوں نے حضور نبی کریمﷺ سے اپنی والہانہ محبت کا اظہار کیا۔ہماری کالونی مرغزار کالونی لاہور میں بھی یہاں کے ہر دلعزیز صدر چوہدری محمد شہزاد چیمہ نے جمعہ کے روز احتجاجی ریلی کا اہتمام کیا ،جس میں ہر مکتب فکر کے علماء اور لوگوںنے شرکت کی،ایک ریلی نکالی گئی۔چوہدری محمد شہزاد چیمہ تو ویسے بھی فلاحی میں جتے رہتے ہیں انہوں نے کالونی کے داخلی دروازے کو بھی ختم نبوت کے نام سے موسوم کیا ہے۔سب کا یہی کہنا تھا کہ مسلمان اپنے آپ کو صحیح معنوں میں مسلمان بنائے۔اقبال نے کہا تھا: فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں موج ہے دریا میں اور بیرون دریا کچھ نہیں