بارہویں صدی عیسوی جب ملت ِ اسلامیہ سلاطین وخلفاء کی ناکامیوں کی بدولت رُو بہ زوال تھی اور سلطنت مستحکم ہونے کی بجائے کمزور ہورہی تھی۔مسلم حکمران محلاتی اختلافات اورسازشوں کی وجہ سے باہم دست وگریبان تھے جب کہ دوسری طرف طاغوتی طاقتیں ا ن کی سر کوبی کے لیے متحد ہورہی تھیں۔ ماسوائے ہندوستان میں غوری سلطنت کے ،بغداد میں سلجوکی و عباسی خلفائ،مصر میں فاطمی،ہند میں غزنی ، افغانستان میں غزنوی اور عرب میں ریاست ترک وزنگی حکومتیں اپنا عروج کھو رہی تھیں۔ کفر اورعالم عیسائیت مسلمانوں کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے لئے ایک پیج پر جمع ہوکر صلیبی جنگیں مسلط کرچکے تھے ۔ ایسے میں اسلام کے وہ سپاہی میدان جہاد میں کمر بستہ داخل ہوئے جنہوں نے اسلام کاپرچم چہار دانگ عالم میں لہرا یا۔ جنہوں نے اسلام کی خاطر برس ہا برس نہ اچھا لباس پہنا نہ اچھا کھایا بلکہ میدان کارزار میں گھوڑوں کی پیٹھ پر اور پاؤں رکاب میں ڈال کر اپنی زندگیاں اسلام کی سربلندی کے لئے وقف کردیں۔ جو دشمنانِ اسلام پرضرب کاری تھے اور جن کا نام آج بھی ایک ضرب المثال ہے ۔ ایسے عظیم کردار مجاہدین اور حکمرانوں میں سے ایک نمایاں بے مثال اور باکمال نام سلطان صلاح الدین ایوبی رحمۃ اللہ علیہ کا ہے ۔ وہ بڑے مبارک اور خوش نصیب والدین تھے جنہیں تاریخ اسلام کے اس عظیم سپوت کے ماں باپ ہونے کا اعزاز حاصل ہوا۔ تاریخ عالم اسلام و انسانیت کے مشہور بہادر فاتح،حکمران، ایوبی سلطنت کے بانی صلاح الدین ایوبی رحمۃ اللہ علیہ موجودہ عراق کے شہر تکریت میں 1138ء میں پیداہوئے جو اس وقت کردستان میں تھا۔ ان کے والد کا نام نجم الدین ایوب تھا اسی نسبت سے ’ ایوبی‘ کہلائے ۔آپ نسلا ًکرد خاندان سے تعلق رکھتے تھے ۔آپ کے والد ِگرامی عماد الدین زنگی رحمۃ اللہ علیہ کے لشکر جرارمیں سپہ سالار تھے جبکہ آپ کے چچا کانام شیرہ کوہ تھا جو ایک عظیم سپہ سالار اور مجاہد تھے ۔ آپ کو اپنے چچا سے دلیری،جرات اور بہادری سیکھنے کو ملی اور دشمنانِ اسلام کے خلاف ڈٹ جانے کا حوصلہ اور عزم ملا۔ آپ کے بچپن اور نو عمری کا دور تاریخ کے اوراق میں محفوظ نہیں مگر آپ کی عظمت کردار اور جوانمردی اس بات کی شاہد ہے کہ آپ کا بچپن بھی بہترین مربی اتالیق کی زیرتربیت گزرا۔جنہوں نے آپ کے اندر جذبہ وحرارت ایمانی اور شوق جہاد کوٹ کوٹ کر بھردیا۔ جس سے مستقبل میں آپ عالم اسلام کا عظیم مجاہد ثابت ہوئے ۔ ابتدا میں آپ سلطان نورالدین زنگی علیہ الرحمۃکے ہاں ایک فوجی افسر تھے ۔ مصر کو فتح کرنے والے لشکر میں آپ بھی موجود تھے جس کے سپہ سالار آپ کے چچا شیر کوہ تھے ۔ فتح مصر کے بعد سلطان صلاح الدین مصر کے حاکم مقرر کئے گئے ۔ کچھ عرصے بعد آپ نے یمن بھی فتح کرلیا۔ ایک روایت کے مطابق سلطان نورالدین زنگی کا وہ عظیم کارنامہ جس میں انہوں نے خواب میں بشارت پاکر مدینہ منورہ جا کر دو نام نہاد عیسائیوں کو بے نقاب کیا جو سید عالم نبی آخرالزماں جناب محمد کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے روضہ انور کی نقب زنی میں مصروف تھے تاکہ سیدعالم سرور کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جسد انور اپنے علاقے میں لے کر جا سکیں۔ ان کو بے نقاب کرنے اور واصل جہنم کرنے والے اس سفر مدینہ میں صلاح الدین ایوبی علیہ الرحمہ بھی سلطان نورالدین زنگی کے ہمراہ بحیثیت سپاہی تھے ۔ نورالدین زنگی کے بعد ان کی کوئی قابل اور لائق اولاد نہیں تھی اس لئے ملت اسلامیہ کے اس عظیم سپوت کو سلطنت کا حکمران و وارث بنایا گیا۔ نورالدین زنگی کا وارث بننے کے بعد صلاح الدین نے خود کو محل میں مقید نہیں کیا بلکہ اپنا اوڑھنا بچھونا جہاد کو بنایا اور 1182 ء تک آپ نے شام حلب،موصل اور اس سے متصلہ کئی علاقے فتح کرکے اپنی سلطنت میں شامل کرچکے تھے ۔ اور اپنے کارناموں سے یہ ثابت کیا کہ نورالدین زنگی کا نائب صلاح الدین ایوبی سے زیادہ بہتر کوئی نہیں ہوسکتا تھا۔ باوجود صلیبی سپہ سالار رینالڈ کے ساتھ معاہدہ امن کے صلیبوں کی درپردہ سازشیں اور تخریب کاریاں طشت ازبام ہورہی تھیں۔ جس میں وہ نہ صرف مسلمانوں کے تجارتی وسفری قافلوں کو لوٹ رہے تھے بلکہ مسلمانوں کے خلاف اشتعال انگیز ی پھیلا کر عالم کفر کو متحد کیا جارہا تھا۔ اس کی ایک کڑی جنگ حطین ہے جس نے سلطان صلاح الدین ایوبی کی بہادرانہ لیاقت اور مجاہدانہ صلاحیت اور عظیم قیادت کو صلیبی دنیا پر واضح کردیا۔ 1186ء میں رینالڈ کئی دیگرصلیبی اتحادیوں کے ساتھ مدینہ منورہ پر فتح کے ناپاک عزائم کے ساتھ حملہ آور ہوا۔ سلطان صلاح الدین ایوبی اور رینالڈ کا آمنا سامنا حطین کے مقام پر ہوا۔ دشمن کو نیست ونامود کرنے اور عبرت ناک شکست دینے کے لئے صلاح الدین ایوبی نے دشمن کے لشکر پر آتش گیر مادہ پھینکوایا۔ اس جنگ میں کم ازکم تیس ہزار صلیبی ہلاک ہوئے اورکم وبیش اتنے ہی قیدی بنا لئے گئے ۔ رینالڈ گرفتا ر ہوکر سلطان کے سامنے پیش کیا گیا اور حرمین شریفین پر ناپاک حملہ کرنے کی جسارت کرنے کی پاداش میں سلطان نے اپنے ہاتھوں اس کا سرقلم کرکے اس کو جہنم رسید کیا۔ اس فتح سے اسلامی افواج کی دھاک بیٹھ گئی اور وہ عیسائی علاقوں پر فتح وکامرانی کے جھنڈے گاڑنے لگیں۔ اس عظیم معرکہ حطین کے بعد سلطان صلاح الدین ایوبی نے بیت القدس کی طرف پیش قدمی کا آغاز کیا جہاں پر کم وبیش ایک ہفتہ تک خونریز جنگ کے بعد عیسائیوں نے رحم کی درخواست کرتے ہوئے ہتھیار ڈال دیئے ۔ یوں تقریباً90سال بعد بیت المقدس میں دوبارہ مسلمان بحیثیت فاتح داخل ہوئے ۔ صلاح الدین ایوبی کا یہ عظیم کارنامہ تاریخ عالم کے عنوان پر ایک سنہری باب ہے ۔اور حسن اتفاق کہ عظیم فتح کا وہی دن تھا جس دن نبی آخرالزامان علیہ الصلوٰۃ والسلام نے انبیاء کرام علیہم السلام کی امامت کروائی۔سلطان نے نورالدین زنگی کی سب سے بڑی خواہش اور وصیت کو پورا کرنے کے لئے ان کے ہاتھ سے بنایاگیا محراب مسجد کے اندر خود رکھا۔ بیت المقدس کو فتح کرنے کے بعد سلطان نے صلیبیوں کی طرح قتل وغارت اور بربریت کا بازار گرم نہیں کیا بلکہ فدیہ لے کر سب کو عام معافی دیتے ہوئے آزاد کردیا گیا اور تاریخ عالم نے اک بار پھر وہ منظر دیکھا جب سلطان اور اس کے کئی امراء نے ہزاروں مسیحیوں کو جو فدیہ ادا نہ کرپائے اپنی جانب سے فدیہ دے کر آزادی کا پروانہ جاری کروایا۔ بیت المقدس کی فتح کے بعد عالم عیسائیت میں کہرام مچ گیاجرمنی کا بادشاہ فریڈرک انگلستان کے بادشاہ رچرڈاور فرانس کے بادشاہ فلپ آگسٹس اپنے اتحادی یورپی ممالک کے لاکھوں کی تعداد میں مسلمانوں سے مختلف مقامات پر نبردآزما ہوئے مگر ان کو ناکوں چنوں چبوائے گئے ۔ سلطان صلاح الدین ایوبی صالح تہجد گزار تھا۔ نہایت مدبر زیرک اور دانا تھا وہ مختلف مزاج اور مختلف نسلوں کے سپاہیوں کو قابو رکھنے کی صلاحیت رکھتا تھا۔اس کی فوج میں کرد، موصلی، دیاربکری، کچھ عراقی، کچھ شامی اور کچھ مختلف علاقوں اور جزیروں سے تھے جن کے سپہ سالار کی حیثیت سے اس نے پوری یورپی صلیبی طاقتوں کو مقابلہ کیا۔وہ جرأت بہادری، حسن معاملات،فیاضی و سخاوت، حسن اخلاق وکرداراور فرض شناسی میں اپنی مثال آپ تھا الغرض اسلام کی مضبوط ڈھال تھا۔ آپ کے ان اوصاف کی وجہ سے شدید مخالفین بھی انھیں احترام اور قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے ۔ فاتح بیت المقدس عظیم مجاہد اسلام اور عادل حکمران، شام، مصر،عراق،حجاز اور دیار بکر کے عظیم فرمانروا سلطان صلاح الدین ایوبی علیہ الرحمۃ 20 سالہ حکومت میں مسلسل حالت جنگ میں رہنے کی وجہ سے 55 سال کی عمر میں بخار کی وجہ سے 4 مارچ 1193 ء بمطابق 27 صفر589ہجری میں انتقال کرگئے انہیں شام میں مسجد بنو امیہ کے ساتھ سپرد خاک کیا گیا۔ سلطان کے بعد حکومت ان کے تین بیٹوں میں تقسیم ہوگئی مگر وہ اس کو قائم رکھنے میں ناکام رہے اور 60 سال بعد ایوبی سلطنت کا خاتمہ ہوگیا۔ عالم اسلام کو پھر سے ایسے عظیم مجاہد اور فاتح کی ضرورت ہے جوکفر کے سامنے ڈھال بنے اور قبلہ اول میں پھر سے آزادی کا سورج طلوع ہو۔ آمین (مآخذومصادر: مسلمان حکمران، مسلمان فاتحین، تاریخ اسلام، عظیم مسلمان شخصیات، صلاح الدین ایوبی،النوادرالسلطانیہ)