روزنامہ 92 نیوز کی خبر کے مطابق ادویات کی قیمتوں میں اضافہ کے باوجود فارما سیوٹیکل کمپنیوں نے حکومت پر دبائو بڑھانے کے لیے مارکیٹ سے الرجی اور جان بچانے والی ادویات غائب کردی ہیں۔ شہریوں کو مناسب داموں ادویات کی بلاتعطل فراہمی کے لیے ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کے نام سے ایک خودمختار ادارہ موجود ہے مگر ڈرگ ریگولیٹری کی اتھارٹی کا یہ عالم ہے کہ یہ ادارہ بجائے اس کے کہ ملک کی فارما سیوٹیکل انڈسٹری کو کنٹرول کرے ادویہ ساز کمپنیاں الٹاڈریپ کو انگلیوں پر نچاتی رہی ہیں۔ اس کی وجہ ادارے کے سربراہ کی بیشتر ادویہ ساز اداروں میں حصہ داری بتائی جاتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ فارماسیوٹیکل کمپنیاں ادویات کی مارکیٹ میں قلت پیدا کر کے حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیتی ہیں۔ 2016ء میں قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں حکومت کو ادویہ ساز کمپنیوں کو ادویات کی من مانی قیمتوں میں اضافہ سے روکنے کے لیے ایک کروڑ سے دس کروڑ جرمانہ اور تین سال کی سزا کے قانون کا مسودہ حکومت کو بھجوایا گیا تھا مگر بدقسمتی سے یہ بیل بھی منڈھے نہ چڑھ سکی۔ یہی وجہ ہے کہ اب ایک بار پھر حکومت کی طرف سے ادویات کی قیمتوں میں اضافہ کے باوجود ادویہ ساز اداروں نے مارکیٹ سے ادویات غائب کردی ہیں۔ بہتر ہوگا حکومت ادویہ ساز اداروں کی مانیٹرنگ کے لیے قابل عمل قانون سازی کرے تاکہ عوام کو مناسب داموں معیاری ادویات کی فراہمی یقینی بنائی جا سکے۔