الیکشن کمیشن کے سامنے پی ڈی ایم نے احتجاج کیا، احتجاج یہ تھا کہ الیکشن کمیشن تحریک انصاف کے خلاف فارن فنڈنگ کیس کا فیصلہ کیوں نہیں کر رہا، اپوزیشن لیڈروں نے الزام لگایا کہ تحریک انصاف کو ہندوستان اور اسرائیل کی طرف سے فنڈنگ کی گئی ہے جبکہ پی ٹی آئی کا موقف ہے کہ ایسا کچھ نہیں، ہماری تمام فنڈنگ قانونی ہے ،بھارت یا اسرائیل سے کوئی فنڈنگ نہیں ہو ئی، پی ٹی آئی نے ن لیگ اور پی پی پر فارن فنڈنگ حاصل کرنے کاکیس کیا ہوا ہے۔اس احتجاج میں پی ڈی ایم کو شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ جتنے دنوں سے اس احتجاج کی تیاریاں ہو رہی تھیں اور لوگوں کو بلایا جا رہا تھا لیکن احتجاج دو تین ہزار سے زائد افراد نہیں آئے، اسی پر چودھری اعتزاز احسن نے کہا مجھے مایوسی ہوئی ، اس سے ظاہر ہو رہا ہے کہ لوگ اب پی ڈی ایم کی باتوں کو سنجیدگی سے نہیں لے رہے، اس احتجاج میں ایک بار پھر بلاول بھٹو شامل نہیں ہوئے۔اب اکثر یہ دیکھا جا رہا ہے کہ پی ڈی ایم کے جو جلسے اور ریلیاں ہو رہی ہیں ،ان میں جان بوجھ کر کوئی نہ کوئی لیڈر شامل نہیں ہو رہا کیونکہ کچھ چیزوں پر اختلافات ہیں، جیسے ساری اپوزیشن استعفوں پر زور لگا رہی تھی لیکن پی پی استعفے نہیں دینا چاہ رہی ، اسی طرح ضمنی اور سینیٹ کے الیکشن کے بائیکاٹ کا بہت شور ہوا لیکن پی پی ان دونوں الیکشن میں شامل رہنا چاہتی تھی۔۔اپوزیشن کا مطالبہ تھا کہ فارن فنڈنگ کیس میں تحریک انصاف کو کالعدم قرار دیا جائے ،حکومت ختم کی جائے ، فارن فنڈنگ الزام کے حوالے سے تحریک انصاف یہ دعویٰ کرتی آئی ہے،کہ ان کی جماعت نے ممنوعہ ذرائع سے فنڈز حاصل نہیں کیے بلکہ تمام حاصل ہونے والے فنڈز کی دستاویزات موجود ہیں۔وزیر اعظم عمران خان نے دعویٰ کیا کہ دو ملکوں نے انھیں انتخابات میں مالی معاونت فراہم کرنے کی پیشکش کی، جو انھوں نے قبول نہیں کی تھی۔اس کے علاوہ وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ فارن فنڈنگ کیس کی کھلی سماعت اور براہ راست ٹی وی پر نشر کرنے پر بھی تیار ہیں، بے شک فارن فنڈنگ کیس ٹی وی پر براہ راست دکھا دیا جائے بلکہ پارٹی سربراہوں کو بٹھا کر کیس سنا جائے۔ وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ فارن فنڈنگ کیس اٹھانے پر اپوزیشن کے شکر گزار ہیں، سب کے سامنے آنا چاہیے کہ تحریک انصاف اور اپوزیشن کی فنڈنگ کہاں سے ہوئی؟ اپوزیشن جماعتیں بتائیں انہوں نے پیسہ کہاں سے اکٹھا کیا؟ چیلنج کرتے ہیں سیاسی فنڈ ریزنگ صرف تحریک انصاف نے کی۔تحریک انصاف کے خلاف ممنوعہ ذرائع سے فنڈز حاصل کرنے کا معاملہ الیکشن کمیشن میں کوئی سیاسی مخالف جماعت نہیں بلکہ تحریک انصاف کے اپنے بانی رکن اکبر ایس بابر 2014 میں لے کر آئے تھے۔اکبر ایس بابر نے الزام عائد کیا تھا کہ تحریک انصاف نے بیرون ممالک مقیم پاکستانیوں کے علاوہ غیر ملکیوں سے بھی فنڈز حاصل کیے۔تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی فرخ حبیب کے مطابق اس وقت پاکستان اور دنیا بھر میں ان کی جماعت کے 40 ہزار سے زیادہ ڈونرز ہیں، جو ان کی جماعت کو چندہ دیتے ہیں۔ ان کے بقول ان تمام ڈونرز کی فہرست الیکشن کمیٹی کی سکروٹنی کمیٹی کے حوالے کی جا چکی ہیں۔ اگر بیرون ممالک سے حاصل ہونے والے چندے میں کوئی بے ضابطگی ہوئی ہے تو اس کی ذمہ داری جماعت پر نہیں بلکہ اس ایجنٹ پر عائد ہوتی ہے۔اسی جواب کو بنیاد بناتے ہوئے اپوزیشن کی جماعتوں نے یہ دعویٰ کرنا شروع کر دیا کہ تحریک انصاف نے یہ تسلیم کر لیا ہے کہ اْنھوں نے ممنوعہ ذرائع سے فنڈز حاصل کیے ہیں۔پی ٹی آئی نے بھی ن لیگ کے اثانوں کی چھان بین اور مبینہ طور پر ممنوعہ ذرائع سے فنڈز حاصل کرنے کا معاملہ 2017 میں الیکشن کمیشن میں اٹھایا تھا ۔ن لیگ پر الزام عائد کیا گیا کہ یہ جماعت برطانیہ میں بطور ’ایل ایل سی‘ رجسٹرڈ ہے ،ن لیگ کو مختلف بین الاقوامی کمپنیوں نے فنڈز فراہم کیے ہیں۔اسی طرح پیپلز پارٹی کے فنڈز کی جانچ پڑتال کرنے کا معاملہ بھی 2017 میں الیکشن کمیشن میں آیا۔ اس جماعت پر الزام عائد کیا گیا کہ سنہ 2008 کے عام انتحابات کے بعد پیپلز پارٹی نے اقتدار میں آ کر ممنوعہ ذرائع سے فنڈز اکٹھے کیے ہیں۔اس کے علاوہ ایک امریکی شہری مارک سیگل جو پیپلز پارٹی کے لیے امریکہ میں لابنگ کرتے ہیں ان کے ذریعے مبینہ طور پر ممنوعہ ذرائع سے حاصل ہونے والی رقم پیپلز پارٹی کے اکاؤنٹ میں آئی ہے۔ اس جماعت پر یہ بھی الزام ہے کہ بعض غیر ملکی کمپنیوں نے انھیں انتخابات کے لیے فنڈز دیے تھے۔پاکستان کی مختلف سیاسی جماعتوں نے بالخصوص امریکہ اور برطانیہ سمیت مختلف ملکوں میں کمپنییاں بنا رکھی ہیں، ان کے نمائندے ان ملکوں میں موجود دوہری شہریت کے حامل پاکستانیوں یا جن کے پاس نائیکوپ کارڈ ہے، سے اپنی جماعت کے لیے فنڈز اکھٹے کرتے ہیں۔پاکستان میں سیاسی جماعتوں پر مختلف ادوار میں یہ الزامات عائد کیے جاتے رہے ہیں، کہ اْنھیں فلاں دشمن ملک یا ایسا ملک مالی معاونت فراہم کر رہا ہے، جس کا پاکستان میں کوئی مفاد ہو، لیکن ملکی تاریخ میں الیکشن کمیشن نے صرف ایک سیاسی جماعت پر پابندی عائد کی تھی جس پر الزام ثابت ہو گیا تھا کہ اْنھوں نے ممنوعہ ذرائع سے پارٹی چلانے کے لیے فنڈز اکٹھے کیے ہیں۔ یہ جماعت نیشنل عوامی پارٹی تھی۔نیشنل عوامی پارٹی ایک پراگریسو سیاسی جماعت تھی اور اس کی بنیاد 1958 میں اس وقت کے مشرقی پاکستان اور موجودہ بنگلہ دیش کے دارالحکومت ڈھاکہ میں عبدالمجید خان بھاشانی نے رکھی تھی۔اس جماعت پر الزام تھا کہ اس نے مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنانے میں اپنا کردار ادا کیا، جس کے بعد سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں اس جماعت پر غداری اور انڈیا سے فنڈز حاصل کرنے کے الزامات عائد ہونے کے بعد اس پر پابندی عائد کر دی گئی۔اس کے بعد سے لیکر اب تک کسی بھی سیاسی جماعت پر پابندی عائد نہیں ہوئی۔تحریک انصاف کا موقف ہے کہ یہ فارن فنڈنگ کیس نہیں ممنوعہ فنڈنگ کیس ہے اس پراعتزاز احسن نے بھی ایک ٹی وی پرو گرام میں کہا کہ اس کیس میں اگر پارٹی کو کوئی ایک شخص 10 افراد یا 40 افراد نے تھوڑا تھوڑا چندہ دیا ہے، انفرادی طور پر تو اس کی وجہ سے کسی پارٹی پر پابندی نہیں لگ سکتی ،اسے کالعدم قرار نہیں دیا جاسکتا ،اگر تھوڑی بہت رقم کسی کی طرف سے آگئی۔ 10 یا 200 یا 600 پائونڈ تو اس سے پارٹی کو برطرف نہیں کیا جاسکتا ،پارٹی کو تحلیل نہیں کیا جاسکتا۔ یہ کسی بھی ادا رے کو اختیار نہیں کہ وہ پارٹی پر پابندی لگائے اس کے لیے الیکشن ایکٹ 2017 کا سیکش 160 خاص اہمیت کا حامل ہے کہ وہ پیسے جو کسی فارنر کے آ گئے ہیں تو وہ ضبط کئے جا سکتے ہیں ،الیکشن کمیشن یہ ہر گز نہیں کر سکتا کہ وہ پارٹی کو تحلیل کر دے ،اس کا مطلب یہ ہوا کہ پی ڈی ایم جو مطالبہ کر رہی ہے، وہ پورا نہیں ہو سکتا ۔اعتزاز احسن کی باتوں سے پی ڈی ایم کو مایوسی ہوئی ہو گی،تحریک انصاف کے فرخ حبیب کا موقف ہے کہ 200 ڈالر ایک اور 750 ڈالر ایک یوں950 ڈالر صرف ان لوگوں نے دئیے جو نہیں دے سکتے اتنی چھوٹی رقم پر پارٹی پر پابندی نہیں لگ سکتی ۔