چالیس برس پر تین اوپر ہوئے کہ ایک بچہ اپنے والد کی گود میں کراچی کے کینٹ ریلوے سٹیشن پر اترا۔ اس پر بچپن، لڑکپن اور جوانی کا عرصہ اسی شہر میں گزرا۔ اس نے دیکھا کہ کراچی آنے والا ہر نیا شخص چند ہی روز میں اپنے حصے کی یہ گواہی ضرور دیتا کہ اس شہر میں زندگی کی رفتار بہت تیز ہے۔ زندگی کی اس تیز رفتار سے ہر شخص کا وقت بہت اچھا گزرتا۔ اتنا اچھا کہ ’’غریب پروری‘‘ اس شہر کا استعارہ بن گیا اور کیوں نہ بنتا کہ یہ ہندوستان سے آنے والے ان مہاجرین کا شہر بن چکا تھا جن کی زکوٰۃ و عطیات نے صدیوں تک صحرائے عرب کے بدوؤں کی پرورش کی تھی۔ آل سعود آج بھی ہندوستانی مسلمانوں کی اس سخاوت کے حوالے دیتے نظر آتے ہیں جو تحریک پاکستان کی ہنگامہ خیزیوں تک جاری رہی۔ تحریک پاکستان کی دھول بیٹھی تو ان مہاجرین نے دیکھا کہ جو عالم عرب پانی کے کنوئوں کو ترسا کرتا تھا وہاں تیل کے کنوئیں پوری دنیا کی مشینوں کو سیراب کرنے کے لئے منہ کھول چکے۔ اب عرب بدو غریب نہ رہے تھے۔ ہندوستان سے لٹ پٹ کر کراچی پہنچنے والوں کے جیسے ہی قدم جمے۔ ان کی دولت سے کراچی شہر میں پہلے ایسے کارخانے لگے جو ملک کے طول عرض سے مزدوروں کو دعوت کار دینے لگے اور پھر انہی کے سرمائے سے ایسے مدارس بنے جو پاکستان کے ہر ضلع سے طالب علموں کو مقناطیس کی طرح کھینچتے چلے گئے۔ یوں اپنے خون سے قیام پاکستان کی حقیقت لکھنے والوں نے اپنے سرمائے سے ایک ایسا شاندار "منی پاکستان" بھی کھڑا کر کے دکھا دیا جسے عروس البلاد کا تاج ملا۔ مدارس و مساجد پورے ہوئے تو انہوں نے پاکستان کی سب سے بڑی ویلفیئر آرگنائزیشنز کھڑی کردیں۔ کراچی آج پاکستان کا وہ شہر بن چکا جہاں پاکستان کے سب سے بڑے کارخانے اور سب سے بڑے مدارس ہی نہیں، سب سے بڑے خیراتی ادارے بھی پائے جاتے ہیں۔ اس ملک کا شاید ہی کوئی مدرسہ اور خیراتی ادارہ ہو جو اہل کراچی کی مدد کے بغیر چل رہا ہو۔ یہ دینی منصوبوں پر خرچ کرنے والوں کے شہر کے طور پر متعارف ہوا اور یہ ضرورت مند کی ہر ضرورت اس شان سے پوری کرنے لگا کہ خود غریب اسکی غریب پروری کا گواہ ہوا۔ یوں ہر نظر کراچی پر پڑ گئی۔ جب ہر نظر اس پر پڑی تو نظر تو لگنی تھی۔ یہاں سیاست کے سورج کو عصبیت کا گہن لگ گیا جس سے زندگی کی رفتار ہی نہیں خود زندگی غیر یقینی ہو کر رہ گئی۔ یہاں ایسے ماہ و سال آنے لگے جن کے آنے کا پتہ چلتا اور نہ ہی جانے کا۔ اب یہاں وقت رک رک کر چلتا اور زندگی چل چل کر رکتی۔ ماں سے آیت الکرسی دم کرائے بغیر نکلنے والے خون میں لت پت لوٹنے لگے۔ جن انسانوں کی حرمت انکے مالک نے حرمت کعبہ سے بڑھ کر طے کی تھی وہ ایسے بے قیمت ہوئے کہ انکی زندگی کے سودے صرف پانچ ہزار میں طے ہونے لگے۔ ایسی آہ و فغاں بلند ہوئی کہ شہر قائد میں واقع مزار قائد کے گنبد سے روح قائد نے پوچھا۔ "یہ شور کیسا ؟ یہ چیخیں کیوں ؟ یہ آہیں کاہے ؟" جواب آیا "قائد ! تیرے شہر میں ایک نیا قائد آیا ہے، اس کا فلسفہ عام کیا جا رہا ہے" ایک ایسا فلسفہ جسے بیاں فاروق ستار کرتا اور عیاں صولت مرزا کرتا۔ جس کا متن حیدر عباس رضوی پڑھتا اورحاشیہ اجمل پہاڑی لکھتا۔ جس کا پروف ریڈر وسیم اختر ہوتا اور سرخ پرنٹ ندیم نصرت نکالتا۔ جس کو شروع فیصل سبزواری کرتا اور خاتمہ عبید کے ٹو پر ہوتا جس کا ایک رخ تنویر الحق تھانوی اور دوسرا فیصل موٹا ہوتا۔ مگر ظلم و عدوان تابکے ؟ نواز شریف کا تیسرا دور شروع ہوا تو کراچی میں ڈھیل کا عرصہ تمام ہوا۔ عزیز آباد اور اس کے اطراف زندگی کی رفتار ایک بار پھر اسقدر تیز ہوگئی کہ چَین ہی چَین لکھنے والا راوی چِین ہی چِین لکھنے لگا۔ واقعات اس تیزی سے رونما ہوتے گئے کہ گوشوارے ترتیب دینا دشوار ہو چلا۔ انسانیت کے دشمن چن چن کر بلوں سے نکالے گئے۔ پراسیکیوٹر کیس ترتیب دیتا رہا اور جج اپنے ہتھوڑے سمیت انتظاری۔ جلاد کے منہ پر چھینٹے مار کر ہوش میں لایا گیا اور پھانسی گھاٹ کے لیور کو تیل دیا گیا۔ شہر قائد کے جس قائد نے قیام پاکستان کو بلنڈر کہہ کر اپنی غداری پر مہر تصدیق ثبت کردی تھی، اس کا طوطا اور طوطی سب پراں ہوتے نظر آئے۔ اس بار آپریشن اس سمجھداری سے آگے بڑھایا گیا کہ سانپ تو مرتے رہے مگر لاٹھی کی صحت برقرار رہی۔ جس مرکز کی چوکھٹ کو کوئی نظر بھر کر نہ دیکھ سکتا تھا اس کا فرش بھاری بوٹوں کے لمس سے آشنا ہوا۔ اس محفوظ ٹھکانے سے محفوظ ترین لوگ برآمد ہو گئے مگر ہڑتال گزیدہ شہر میں زندگی کی رفتار لمحے کو بھی نہ تھمی۔ 2018ء کے آتے آتے کراچی آپریشن اپنی کامیابی منوا چکا تھا مگر شہر میں ایک خاموشی سی تھی۔ لوگ اس جماعت اور اس کے سربراہ کے مستقبل پر بات سے گریزاں رہتے۔ چہروں پر بے یقینی اور آنکھوں میں شک کے ڈیرے صاف نظر آتے کہ آپریشن پہلے بھی تو دو بار ہوا تھا۔ الیکشن ہوچکا تو پہلی بار لوگ بات کرنے لگے ہیں۔ دلوں میں پوشیدہ خوشی اب چہروں پر بھی نظر آنے لگی ہے، شہری اب دھیرے دھیرے یقین کرنے لگے ہیں کہ فاشزم کا عرصہ تمام ہوا !