فنانشنل ایکشن ٹاسک فورس(FATF) ایک عالمی ادارہ ہے، جو جی سیون ممالک،امریکہ،برطانیہ،کینیڈا،فرانس،اٹلی، جرمنی اور جاپان کے باہمی اشتراک اور ایما پر،1989میں قائم ہوا،جس کا بنیادی مقصد منی لانڈرنگ اور"Terrorist Financing" کے خلاف جنگی خطوط پر کوششیں،اور ان ممالک پر نظر رکھنا اور پابندیاں عائد کرنا،جودہشت گردی کے خلاف عالمی کوششوں میں تعاون نہیں کرتے اور جس سے عالمی امن کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔یہ تنظیم بین الاقوامی سطح پر مالی معاملات میں شفافیت کی خواہاں ہے، اس تنظیم کا دائرہ دنیا کے مختلف ممالک،علاقائی تنظیموں بالخصوص یورپی یونین اور مجلس تعاون برائے خلیجی عرب ممالک تک پھیلا ہوا ہے۔چنانچہ ہمارے ملک میںبھی فلاحی ادارہ جات و مذہبی تنظیمات وغیرہ کے نام پر ہونے والی منی لانڈرنگ کے سدباب اور ان کو موصول ہونے والے عطیات، امداد اور نذرانہ جات کو "Regulate"کرنے کے لیے،فنانشنل ایکشن ٹاسک فورس (FATF)کی نشاندہی پر،وقف،ٹرسٹ اور سوسائٹیز کی رجسٹریشن کے قواعد و ضوابط کو مزید موثر بنانے کی ضرورت محسوس ہوئی،جس کے لیے مسجد،مدرسہ اور خانقاہ سمیت دیگر این جی اوز کی کسی سرکاری ادارہ سے ’’رجسٹریشن‘‘لازمی ٹھہری۔پنجاب سمیت دیگر تمام صوبوں نے ایک مشترکہ کاوش سے،وقف پراپرٹیز آرڈیننس 1979ء کے موجودہ قوانین میں ضروری ترامیم کے لیے مسودہ قانون صوبائی اسمبلیوں کے رُوبر پیش کرتے ہوئے، منظوری حاصل کر لی،جس کے مطابق، ’’وقف پراپرٹیز کی شق نمبر(1)4(ترمیمی ) ایکٹ2020‘‘کے تحت،تمام وقف پراپرٹیز، جو محکمہ اوقاف کی تحویل میں نہ ہیں،اور ان کا انتظام و انصرام پرائیویٹ طور پر کیا جاتا ہے،کی اندر تین ماہ چیف ایڈمنسٹریٹر اوقاف کے پاس،بوساطت منیجر اوقاف رجسٹریشن لازم ہے،جس کے بعدچیف ایڈمنسٹریٹر اوقاف پنجاب کے احکام مجریہ 9اکتوبر 2020کے مطابق،وقف پراپرٹیز کے یہ منتظمین ہی، اپنے وقف کے، سرکاری طور پر ’’منیجر‘‘مقررہوجائیں گے۔ ایکٹ مذکور کی شق نمبر4اور 11کے تحت، اندر معیاد 90روز،رجسٹریشن نہ کروانے والے کومالی جرمانہ اور قید کی سزا ہو سکتی ہے۔ ہمارے ہاں مساجد،مزارات اور مدارس میں مسلکی جھگڑوں کے علاوہ’’موروثیت‘‘کے تنازعے اور گروہی تصادم بھی،بعض اوقات بڑی المناک اور دلخراش صورتحال اختیار کرلیتے ہیں۔خانقاہوں پر’’سجادگی‘‘،مدارس میںمہتمم،مساجد میں خطابت اور تولیّت کے امور،۔۔۔ بانی شخصیت کے دنیا سے پردہ کر جانے بعد،عمومی طور پرایسے الجھتے ہیں۔۔۔ کہ پھر ُالجھتے ہی چلے جاتے ہیں،جس سے ان اداروں کی تقدیس اور تحریم کامتاثر ہونا،ایک لازمی امر ہے۔ زیرنظر قانون،اس اعتبار سے اہمیت اور متعلقہ افراد اور شخصیات کے لیے مفید اورایسے شرپسند عناصر سے تحفظ کا ضامن ہو گا،جو غیر رواجی طریقے سے،خود ہی کسی مزار، مسجد یا مدرسہ کے منتظم،نگران یا ناظم بن بیٹھتے ہیں اور پھر غیر ثقہ اور محروم لوگوں کا ایک گروہ اکٹھا ہو کر،حقیقی (Genuine) شخصیات کے لیے پریشانی کا باعث بنتا اور انہیں ہر وقت’’بلیک میل‘‘کرتا رہتا ہے۔ایسی ہی وبا بین المذاہب ہم آہنگی فورمز اور بوگس مشائخ تنظیمات کے حوالے سے بھی عام ہے،جس کی بابت بھی قانونی عملداری کا بندوبست ہو رہا ہے،بہرحال۔۔۔یہاں ایک اورابہام کا ازالہ بھی لازم ہے کہ عام طور پر’’اوقاف‘‘کی دستبرد سے محفوظ رہنے کے لیے،مختلف افراد یا ادارے،خانقاہ،مساجد، مدارس اور مزارات کی تعمیر وتشکیل کے لیے،ذاتی یا موروثی زمین کا انتخاب یا اہتمام کرتے ہیں،تاکہ کل کلاں انہیں حکومت سے کوئی پریشانی نہ ہو،اور یہ خوف اور خطرہ تو اس حد تک مسلط ہے کہ ایک صاحبِ عرفان شاعر اس صورتحال پر بے ساختہ پکار اُٹھے تھے: زندگی ’’وقف‘‘تو کر دوں میں تیرے نام،مگر ڈَر رہا ہوں کہیں ’’اوقاف‘‘نہ قبضہ کر لے وقف پراپرٹی آرڈیننس1979ء کی شق 2 کے تحت’’وقف ‘‘بنیادی طور پر تین مقاصد کے لیے قائم ہوتے ہیں: i۔Religious(دینی و مذہبی مقاصد کے لیے)ii۔Pious(نیک مقاصد کے لیے) iii۔Charitable(خیراتی مقاصد کے لیے)مذکورہ مقاصدکی تکمیل کے لیے’’وقف‘‘حسبِ ذیل صورتوں میں سے کسی ایک صورت میں قائم ہوتا ہے۔ i۔وقف فی سبیل اللہii۔ وقف بطور استعمال/مصرفiii۔وقف علی الاولاد٭۔اول الذکر ’’وقف‘‘میں کوئی فرد، اپنی ملکیتی جائیداد کو، اپنی’’ملکیت‘‘سے خارج کر کے،ایک’’وقف نامہ‘‘کے ذریعہ ، کسی خاص مقصد کے لیے ’’وقف‘‘کرتا ہے، یہ’’وقف فی سبیل اللہ‘‘ ہے۔ ہمارے ہاں بڑے مزارات اور مساجد، جو وقف املاک کے زُمرے میں آتے ہیں،یہ اس کی سب سے نمائندہ اور معتبر مثال ہیں۔٭وقف کی دوسری صورت’’وقف بطور استعمال/ مصرفـ‘‘ یعنی کوئی اراضی،بنیادی طور پر ’’وقف‘‘ نہیں ہے،مگر اس پر کوئی مسجد،مدرسہ یا خانقاہ تعمیر ہو کر،وقف کی تین بنیادی اقسام اور مقاصد یعنی"Religious, Pious, Charitable"میں سے کسی ایک مقصد کے لیے استعمال ہورہی ہوتی ہے۔اس میں زمین یا مسجد،مدرسہ اور مزار کے لیے کسی وقف نامے کی ضرورت نہیں ہوتی۔کسی بھی جگہ پر،اگر کوئی مسجد ،مزار یا مدرسہ تشکیل پا گیا،تو وہ اپنے مصرف اور استعمال کے اعتبار سے’’وقف‘‘ہی متصور ہوگا۔موجودہ صورتحال میں، بہت سے متولیان و سجادگان کو ایسی ہی صورتحال کا سامنا ہے۔ان کا خیال ہے کہ مسجد،مدرسہ یا خانقاہ تو ہماری وراثتی یا ملکیتی زمین پر قائم ہے،یہ وقف تو نہیں ہے۔یہ بات یقینا درست ہے کہ وہ اراضی’’وقف‘‘تونہیں ہے،مگر اس کا استعمال تو وقف کے مقاصد اور اقسام میں سے کسی ایک یا دو یا تین مقاصد کے تحت ہو رہا ہے،لہٰذا اب اس کی گورنمنٹ کے پاس رجسٹریشن ہوگی اور حکومت ان کی ’’متولیت‘‘(Custodian ship)کو تسلیم کرتے ہوئے اس فرد کو اس کا منیجر مقرر کر دے گی۔جس سے اس کی حیثیت اور زیادہ محفوظ،مضبوط اور مستحکم ہو گی۔دراصل اوقاف کا کسی پراپرٹی یعنی دربار وغیرہ کووقف پراپرٹیز آرڈیننس کی شق 7 کے تحت،اپنی تحویل میں لینا اور ہے،اور کسی پراپرٹی کا اوقاف کے ہاں’’رجسٹرڈ‘‘ہونا اور ہے۔ موجودہ عمل اوقاف کے پاس رجسٹریشن کا ہے،جس میں گھبرانے کی چنداں ضرورت نہیں۔ بلکہ اس کے اندر ایک تحفظ کی شکل موجود ہے۔ویسے یہ کوئی بالکل نئی چیزبھی نہیں،بلکہ وقف پراپرٹی آرڈیننس 1979ء کی شق6جو کہ "Registration of Waqf Property"سے موسوم ہے،میں،ہر وقف کے رجسٹرڈ ہونے کی شرط پہلے سے موجود ہے۔موجودہ صورتحال میں، اب اس شق کو موثر کر دیا گیا ہے جس کے تحت سیکشن 4، پنجاب وقف پراپرٹیز ترمیمی ایکٹ 2020ء کے تحت،چار صفحات پر مشتمل’’فارم1‘‘ ، جس پر،متولی کی طرف سے متعلقہ’’وقف‘‘کی بابت جملہ تفصیلات،ریونیو ریکارڈ،جائیداد ، اراضی (زرعی،کمرشل) نذرانہ جات ، عطیات اور دیگر ذرائع آمدن اور اخراجات کی تفصیل مہیا کی جائے گی۔ اسی طرح رولز 5کے تحت "فارم II ـ"کے ذریعے کلکٹر /رجسٹرار کی طرف سے اس وقف/پراپرٹی کی جائزہ رپورٹ پیش ہوگی۔ فارم III زیر دفعہ 4(بی)I بعنوان : "Statement of Annual Accounts"جس کے تحت متولی مالی سال بمطابق یکم جولائی یا 30جون تک اپنے اس وقف کی سالانہ مالیاتی رپورٹ پیش کرے گا ،جس میں بالخصوص بینک سٹیٹمنٹ ، عطیات، نذرانے ، زرعی اور کمرشل اراضی سے آمدن وغیرہ کی تفصیل موجود ہوگی۔ بہرحال۔۔۔آئندہ کسی موقع پر ہم یہ سمجھنے کی کوشش کریں گے کہ اس سارے عمل کی ضرورت کیوں پیش آئی۔۔۔؟