امریکی صدر ابراہام لنکن نے کہا تھا کہ ’’ تاریخ سے کسی کو مفر نہیں ہے‘‘۔کسی بھی ملک اور قوم پر آزمائش کا وقت اسکی تاریخ کو تاریخی بنانے کا موقع ہوتا ہے۔دنیا کی تاریخ میںایسے واقعات دیکھنے کو ملتے ہیں جب کسی قوم پر مشکل وقت پڑا تو اس نے کس قدر، ذہانت، انسانیت، بردباری اور استقامت سے اسکا سامنا کیا۔ ایسے موقع پر تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ اس وقت کے قائد کا کردار بہت بنیادی رہا ہے۔لیڈر کا کرادر اس لئے اہم ہوتا ہے کہ وہ اس موقع پر قوم کو اضطراب اور تقسیم میں مبتلا نہیں ہونے دیتا بلکہ انکو یکجا کر کے وہ حوصلہ دیتا ہے جو کسی بھی زمینی یا آسمانی آفت سے نپٹنے کے لئے ضروری ہوتا ہے۔ ہر آفت یا مصیبت اپنے ساتھ بہت سی مشکلات لے کر آتی ہے اور ایسی صورتحال بھی پیدا ہو جاتی ہے جب لوگوں کی امید ٹوٹنے لگتی ہے، یہی وہ وقت ہوتا ہے جب سچا لیڈر قوم کو نا امیدی سے نکالتا ہے اور تمام تر مشکلات کے باوجود قوم کو وہ حوصلہ بخشتا ہے جوآفات سے نجات کا باعث بنتاہے۔ کرونا وائرس پوری دنیا کو اپنی گرفت میںلے چکا ہے۔ دنیا بھر کی قیادت کا امتحان ہے۔ ہر ملک اور اسکی قیادت اپنے وسائل ا ور حالات کے مطابق فیصلے کر رہی ہے۔ اس صورتحال میں جہاں سیاسی کشمکش جاری ہے، وہاں اس مصیبت کا شکار لوگوں کی تعداد آئے دن بڑھ رہی ہے اور کوئی حکومت یا ماہر یہ پیش گوئی نہیں کر سکتا کہ اگلے چند دنوں یا ایک مہینے بعد کیا صورتحال ہو گی۔اس وباء کے نتیجے میں جو بہت بری بری خبریں صبح شام سننے کو مل رہی ہیں وہاں ایک بہت ہی خوش آئند بات یہ ہے کہ اس مسئلے پر دنیا بھر کے حکمرانوں میں اتفاق رائے پایا جاتا ہے اور ہر ملک مقدور بھر اپنے ملک کے ساتھ ساتھ دنیا بھر میں جہاں کہیں اس بیماری کے تدارک کے لئے کوشش کر سکتا ہے وہ کر رہا ہے۔دنیا بھر کے سائنسدان اس بیماری کی ویکسین دریافت کرنے میں دن رات مصروف ہیں، ہیلتھ ورکرز ، ڈاکٹرز، سینیٹری ورکرز، سیکورٹی فورسز کے ارکان اور حکومتی عمائدین اپنی جان جوکھوں میں ڈال کر اس آفت کے پھیلائو کو روکنے پر جتے ہوئے ہیں۔ ایک نئی تاریخ رقم ہو رہی ہے اور یہ وہ تاریخ نہیں ہے جو کسی حکمران کا درباری تاریخ دان لکھ رہا ہے، یہ انسانوں اور کمپیوٹر کی یادداشتوں کا حصہ بنتی چلی جا رہی ہے۔ اسکو بھولنا یا جھٹلانا کسی کے لئے آسان نہیں ہوگا۔ انسانی کاوشوں کا ذکر کردیا لیکن جیساکہ شروع میں کہا کہ اس صورتحال میںسچا لیڈر اپنے تدبر اور استقامت سے قوم کی مشکلات کے ازالے کا باعث بنتا ہے۔ اگر پاکستان میں ہونے والے اب تک حکومتی اقدامات کا جائزہ لیں تو اس میں سب سے بہترین چیز جو دیکھنے کو ملی وہ سیاسی قیادت (معدودے چند)میں اتفاق و اتحاد ہے۔اس آفت کا سامنا کرنے کے لئے جس کی بنیادی اہمیت ہے۔اگر ہم ہر ایشو کی طرح اس کو بھی سیاست کی نظر کر دیتے تو پھر ہماری تباہی یقینی تھی۔اس آفت کی تباہی کا ادراک کرنے میں ہماری ملکی قیادت بھلے وہ کسی بھی جماعت سے تعلق رکھتی ہو کوئی غلطی نہیں کی اسی لئے اس کے تدارک کے لئے موئثر اور معقول اقدامات ہوتے نظر آ رہے ہیں۔ یہ مصیبت ٹل جائے گی ایک نہ ایک دن خدا کو رحم آئے گا اور ہم دوبارہ معمول کی زندگی کی طرف لوٹ آئیں گے لیکن اس موقع پر قیادت کا رویہ ہمیشہ یاد رہے گا۔دنیا کی تاریخ میں ایسے موقع پر جن حکمرانوں اور قائدین نے آگے بڑھ کر ذمہ داری لی اور قوم کو یکجا کر کے مشکلات پر قابو پایا وہ آج بھی تاریخ میں زندہ ہیں۔اور یقیناً ہمارے حکمرانوں خواہ وہ کسی بھی درجے کے ہوں تاریخ میں زندہ رہنے کا ایک سنہری موقع ملا ہے۔ اب تک کی صورتحال دیکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ، گلگت اور آزاد کشمیرکی قیادت سمیت سب بہت اچھے طریقے سے کام کر رہے ہیں۔ موجودہ صورتحال میں صحت کے نظام کی فرسودگی ایک مثال ہے جسکو دنوں کے اندرنئے چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے تیار کرنا کسی معجزے سے کم نہیں ہے جس کے لئے نیشنل ڈیزاسٹر مینیجمنٹ اتھارٹی کا بہت اہم کردار ہے ۔ اس میں حکومت اور فوج کے اداروں کا کردار بہت اہم ہے۔ اور سب سے بڑھکر وزیر اعظم عمران خان۔اس بات میں کوئی شک نہیں کہ عمران خان ، ذوالفقار علی بھٹو کے بعد ایک ایسا لیڈر ہے جس کی باتوں اور وعدوں پریقین کیا جاتا ہے ۔ اس نظام کے حوالے سے درپیش چیلنجوں کے حوالے سے اکثر لکھاہے کہ عمران خان نے جب حکومت سنبھالی تو چالیس پچاس سال سے حکومتی ایوانوں پر قابض اشرافیہ ،آکٹوپس کی طرح ایک دو اداروں کے علاوہ ہر قومی ادارے کو اپنے بندوں کے ذریعے جکڑ میں لئے ہوئے تھی ۔ ایسی صورت حال میں جب آپ نیا پاکستان تشکیل دینے نکلے ہیں تو آپ کو اس سارے ڈھانچے کو مسمار کرنا ہے۔ کیونکہ اس کی بنیاد ایک کرپٹ اور بری گورننس کے آئیڈیا پر رکھی گئی تاکہ کوئی ادارہ حکمرانوں کی مرضی کے خلاف چل ہی نہ سکے اور جب اس ڈھانچے کو مسمار کرنے کا کام کوئی بھی حکومت شروع کرے گی تو ہر طرف آہ وبکا یقینی ہے کیونکہ مفادات پر زد پڑ رہی ہے خواہ وہ کسی بھی طبقے گروہ یا فرد کے ہیں۔ جیسا کہ ہم چینی اور آٹا بحران کی رپورٹ آنے کے بعد دیکھ رہے ہیں۔لیکن وزیر اعظم نے اس ایک قدم سے تبدیلی بگل بجا دیا ہے جس کے لئے انہوں نے بائیس سال جدو جہد کی۔ نئے پاکستان کی تشکیل میں سب سے مشکل کام یہی تھا کہ اس ڈھانچے کو مسمار کیا جائے۔جس کا آغاز عمران خان نے کر دیا ہے۔ لگتا ہے کشتوں کے پشتے لگنے والے ہیں۔ جس نظام نے ملک میں ظلم، چیرہ دستی اور طاقتور کی حکمرانی کے تصور کو مستحکم کیا ہے اس نظام کی تباہی کا آغاز ہو چکا ہے۔ اسکے بعد نیا نظام تشکیل دینے میں کوئی وقت درکار نہیں ہو گا۔ بحیثیت قوم ہمیں اس پرانے ڈھانچے کو گرانے میں بھر پور مدد کرنی چاہئے جو کہ اب آخری سانسیں لے رہا ہے۔اسکے گرتے ہی قوم کو نہ صرف ان آفتوں سے نجات ملے گی بلکہ کسی ایک یا دوسرے بیانئے کے غلام بنے بکھرے ہوئے لوگوں کو قوم بننے میں بھی آسانی ہو گی۔آفت میں قیادت کا ہنر عمران خان کو خوب آتا ہے۔